مارٹن سیموئیل برق ( آخری حصّہ ہشتم )۔۔اعظم معراج

5۔ پاکستان فارن سروس
پنشن کا معاملہ حل کر کے میں پاکستان پہنچا اور نئی ملازمت کی تلاش میں تھا۔ وزارت کی آفر موجود تھی لیکن میں مستقل روزگار چاہتا تھا۔ سر ظفراللہ خان پاکستان کے زیر خارجہ تعینات ہوئے۔ انہوں نے مجھے فارن سروس میں شمولیت کی دعوت دی۔ اگست 1948-04 میں مجھے فارن آفس میں ڈپٹی سیکریٹری بنا دیا گیا۔ مجھے انڈیا برانچ اور اقوام متحدہ برانچ کی ذمہ داری دی گئی۔ فروری 1949-04 میں لندن ہائی کمیشن میں کونسلر کی اسامی خالی ہوئی اور وہاں میری پوسٹنگ کر دی گئی۔ لندن میں ہماری فیملی کو کئی بار بکنگھم پیلس میں مدعو کیا گیا۔ میں وزیراعظم اٹیلی سے بھی ملا اور میری اور لوئزی کی ملاقاتیں ونسٹن چرچل اور اس کی بیگم سے بھی ہوئیں۔ چرچل نے اپنی تصویر آٹوگراف کے ساتھ مجھے دی۔
لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین کی منظوری سے مجھے واشنگٹن میں کونسلر تعینات کیا گیا جہاں محمد علی بوگرہ میرے چیف تھے۔ ہمارا یہاں مشن یہ تھا کہ امریکا کو قائل کریں کہ پاکستان کے ساتھ اتحاد ہندوستان کی نسبت زیادہ مفید رہے گا۔ پاک امریکا تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا کیونکہ امریکا سمجھتا تھا کہ کمیونزم سب سے بڑا دشمن ہے جبکہ پاکستان کے نزدیک ہندوستان سب سے بڑا دشمن تھا۔ مسیحی ہونے کی وجہ سے میں بہتر پوزیشن میں تھاکہ امریکا میں پاکستان کا بہتر تاثر قائم کروں۔ میں نے لوئزی، پرائیویٹ سیکریٹری اور پریس اتاشی کے ساتھ 9 تا 26 نومبر 1952-04 امریکا کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور پاکستان کی حمایت کے لیے کمپین چلائی۔ واشنگٹن سے مجھے سپیشل مشن پر ڈومینکن اور میکسیکو بھی بھیجا گیا۔ جون 1953-04 میں جب ہم لندن کے لیے رخصت ہوئے تو ہمارے دوستوں اور پریس نے ہمیں پرجوش طریقے سے رخصت کیا۔میں نے صدر ٹرومین سے کئی ملاقاتیں کیں۔ واشنگٹن سے روانگی سے قبل میں صدر آئزن ہاور اور نائب صدر رچرڈ نکسن سے بھی ملا۔
1953-04 میں مجھے اچانک احکامات ملے کہ ریوڈی جنیرو(برازیل) میں پاکستانی سفارت خانے کا مسئلہ حل کروں۔جون 1953-04 میں مجھے وزیر کے عہدے کے برابر لندن میں ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات کیا گیا۔ واشنگٹن ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے مجھے تین سال کے لیے کمیٹی آن کنٹریبیوشنز کا رکن منتخب کر لیا گیا تھا۔ ستمبر 1953-04 میں مجھے سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک کے لیے پاکستان کا وزیر بنا کر بھیجا گیا۔ میں اپنی بیٹیوں نوئل اور پامیلا اور لوئزی کے ساتھ اسٹاک ہوم میں رہائش پذیرہو گیا۔
1954-04 میں لوئزی، پامیلا، روبن اور نوئیل کے ساتھ میں پاکستان کرسمس منانے آیا۔ ہزاروں مسیحیوں نے کراچی میں ہمارا استقبال کیا۔ لاہور میں بھی ایسا ہی استقبال کیا گیا۔ ا ن لوگوں کی خواہش تھی کہ میں ان کی سیاسی قیادت کروں۔ سب سے زیادہ پرجوش استقبال میرے آبائی قصبے مارٹن پور میں ہوا۔ہم اپنے ساتھ گھڑیوں اور گڑیوں کے تحائف بچوں کے لیے لائے تھے۔ میں سویڈن سے شیورلے کار لایا تھا جس کے لیے مقامی شوفر رکھا گیا۔ بہت سے لوگ اس کار کو خریدنے کے خواہش مند تھے لیکن میں یہ کار واپس سویڈن لے گیا۔ ناروے اور سویڈن میں ملکہ عالیہ الزبتھ اور ڈیوک آف ایڈنبرا نے 1955-04 اور 1956-04 میں سرکاری دورے کیے جن میں میری ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ سویڈن اور دوسرے اسکینڈے نیوین ملکوں کے شاہی خاندانوں کے ساتھ بھی ہماری اکثر ملاقاتیں رہیں۔

اگست 1956-04 میں میری تعیناتی بنکاک میں بطور پہلے مقیم سفیر کے طور پر ہوئی۔ تھائی لینڈ کے ساتھ ساتھ مجھے لاؤس اور کمبوڈیا میں پاکستانی وزیر بھی بنایا گیا۔ بنکاک میں سیٹو کے جلسوں میں شرکت کی اور پاکستان کی طرف سے نمایندگی کی۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور فلپائن بھی گیا۔ 1957-04 میں میری بیٹی پامیلا کی شادی آسٹریلیا کے بزنس مین سے ہوئی۔اس وقت میری ماں بھی بنکاک میں ہمارے ساتھ موجود تھی۔1958-04 میں مجھے فلپائن میں بطور سفیر جانے کے احکامات ملے۔ لوئزی کی صحت خراب تھی اس لیے میں فلپائن نہیں جانا چاہتا تھا۔ میں پاکستان پہنچا اور وزیراعظم فیروز خان نون سے ملا۔ انہوں نے فیصلے پر نظرثانی سے انکار کر دیا۔ یہاں میں نے جنرل ایوب خان سے راہ و رسم بڑھائی۔ میں نے ایوب خان کو بتایا کہ میں فلپائن کی بجائے کینیڈا جانا چاہتا ہوں۔ پھر میں بنکاک چلا گیا کہ اگر فلپائن جانے پر زور دیا گیا تو فارن آفس سے استعفیٰ دے دوں گا۔ اکتوبر 1958-04 میں صدر مرزا نے فیروز خان نون کو معزول کر دیا اور ایوب خان چیف مارشل لاء-04 ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور کچھ ہی دنوں بعد صدر بن گئے۔ انہوں نے میرے فلپائن جانے کے احکامات منسوخ کیے اور کینیڈا میں ہائی کمشنر بنا دیا۔ میں 8 مئی 1959-04 کو کینیڈا کے لیے روانہ ہو گیا۔ چھے دن بعد ہی میں نے کینیڈا کے ساتھ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کا معاہدہ کیا۔ کینیڈا نے دریائے کابل پر وارسک ڈیم بنوایا۔
ذوالفقار علی بھٹو کاوزیر کامرس کے طور پر 1959-04 میں مونٹریال گئے تو میں نے ان کے لیے بریف لکھی۔ اوٹاوا میں بھٹو صاحب میرے مہمان بنے۔ کینیڈا میں لوئزی اور میں نے تمام ساحلوں کی خوب سیاحت کی۔ یہاں میں نے کلبوں میں تقریریں کیں اور یونیورسٹیوں میں لیکچر دیے۔ میک گل یونیورسٹی میں میرے گہرے تعلقات تھے۔ میں نے وہاں ادارہ مطالعہ اسلام بنوایاتاکہ اسلام کی عقلی اور سائنسی تشریح پیش کی جا سکے۔
مئی 1960-04 میں لوئزی اور میں اونٹاریو میں تھے جب پرنس علی خان کی حادثے میں موت کی خبر سنی۔ علی خان اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل سفیر اور ارجنٹائن میں پاکستانی سفیر بھی تھا۔ اگلے دن مجھے فون آیا کہ بیونس آئرس پہنچ کر علی خان کی جگہ سنبھالوں۔ میں نے وہاں پاکستان کے تعلقات بہتر بنائے، پریس اور کاروباری لوگوں سے ملاقاتیں۔ واپسی پر کیوبا میں رکا اور وہاں میرا انٹرویو پریس اور میڈیا میں نشر ہوا۔

6۔ پروفیسری
1961-04 مجھے یونیورسٹی آف منیسوٹا میں پروفیسری کی پیش کش ہوئی۔ میرا کام مشاورت اور رہنمائی دینا تھا۔ میں جون 1975 -04 میں پروفیسری سے ریٹائر ہوا۔ تقرری نامہ ملنے پر میں انگلینڈ میں لوئزی اور بیٹیوں سے ملا پھر ماں سے ملنے پاکستان آیا۔ پھر سڈنی میں اپنی بیٹی پامیلا سے ملا۔ 22 اپریل 1961-04 کو میں نے صدر ایوب کو لکھا کہ اب میں فارن سروس سے ریٹائر ہونا چاہتا ہوں۔ ایوب خان نے مجھے ستارہ پاکستان سے نوازا۔ 2 جولائی 1961-04 کو میں ریٹائر ہو گیا اور لندن میں اپنی سب سے چھوٹی بیٹی نوئیل کی شادی میں شرکت کی۔ لندن سے لوئزی اور میں سویڈن گئے اور سویڈش ماچس کمپنی کو مطلع کیا کہ میں پاکستان میں ان کی کمپنی کا چیف نہیں بن سکتا۔
مینیسوٹا میں ہم نے پلاٹ خرید کر اپنا گھر بنوایا۔ مجھے انڈا ابالنے کے علاوہ کوئی گھریلو کام نہیں آتا تھا۔ میں نے چھوٹے موٹے کام کرنا سیکھے۔ ڈرائیونگ کا ٹیسٹ پاس کیا۔ مجھے ٹائپنگ نہیں آتی تھی۔ میں پہلا پروفیسر تھا جس کے لیے یونیورسٹی نے ایک فل ٹائم سیکریٹری کا بندوبست کیا۔ یہاں میں نے پیس کارپس کو لیکچرز دیے۔ جو کوئی بھی انڈیا یا پاکستان آنا چاہتا میں اسے تعارفی خط لکھ کر دیتا جس سے اس کا کام آسان ہو جایا کرتا۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس میں ڈپلومیسی، ہندومت، اسلام، جنوبی ایشیائی دیہی زندگی، انڈیا اور پاکستان کی خارجہ پالیسی، ہندوستان میں برطانوی راج اور تقسیم ہند جیسے موضوعات پر لیکچر دیتا۔ مختلف شہروں میں کونسل آن فارن ریلیشنز کی طرف سے لیکچر دیے اور دورے بھی کیے۔ 1965-04 میں مجھے فورڈ فاؤنڈیشن نیویارک کی طرف سیٹریول اینڈ اسٹڈی ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ کی مد میں میں نے پورے امریکا اور دنیا بھر کا سفر کیا۔ مجھے اپنے تحقیقی معاونین رکھنے کی بھی اجازت تھی۔ میں نے تمام بڑے ملکوں کا دورہ کیا اور وہاں کی اہم سیاسی اور علمی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
فورڈ فاؤنڈیشن ٹریول اینڈ اسٹڈی ایوارڈ کا خاص مقصد یہ تھا کہ میں پاک و ہند کی خارجہ پالیسی کی تاریخ پر کتاب لکھوں۔ ‘‘پاکستان کی خارجہ پالیسی: ایک تاریخی تجزیہ’’ 1973 میں اوکسفرڈ یونیورسٹی لندن سے شائع ہوئی۔ اس پر اہم شخصیات نے تبصرے لکھے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1990 میں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی سے شائع ہوا۔ اس میں سولہ ابواب تو وہی تھے جو پہلے میں نے لکھے تھے۔ دو نئے ابواب کا اضافہ ڈاکٹر لارنس زائرنگ نے کیا جو مشی گن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر تھے۔ 1974 میں یونیورسٹی آف مینی سوٹا نے میری دوسری کتاب شائع کی اور اسے بھی پذیرائی ملی۔اس کتاب میں اس سوال کا جواب دیا گیا کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی وطن کے ہوتے ہوئے سینکڑوں سال اکٹھے رہنے کے باوجود ایک متحدہ وطن میں کیوں نہ رہے۔ میرے تجزیہ میں اس سوال کا جواب دیا گیا کہ انڈیا اور پاکستان اپنی دعووں اور ارادوں کے باوجود بین الاقوامی سطح پر طاقت ور اور خوش حال ملک کیوں نہ بن سکے۔1978 میں کتاب ‘‘اے ہسٹاریکل اٹلس آف ساؤتھ ایشیا’’ شائع ہوئی جس میں تاریخ اور جغرافیہ کے اہم ترین نقشے دیے گئے ہیں۔ یہ کتاب ایک ٹیم کی چودہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے جس میں میرا کام مشاورت اور رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ میں نے دونوں عالمی دوروں کے دوران جو مواد اکٹھا کیا وہ ایک لائبریری بن گیا۔
7۔ ریٹائرمنٹ
میں یونیورسٹی سے 30 جون 1975 کو ریٹائر ہوا۔ ہم نے انگلینڈ میں رہائش کا فیصلہ کیا کیونکہ ہماری چاروں بیٹیاں وہیں رہتی تھیں۔ میری بڑی بیٹی پامیلا کسی بھی صحیح بندے کی شان دار بیوی ہو سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے اس کا خاوند ہم آہنگ نہ ہو سکا اور پامیلا نے طلاق لے لی۔ طلاق کے بعد وہ ہمارے ساتھ رہنے لگی۔ اپنی ماں کی بیماری میں اس کی دیکھ بھال کی اور اس کی وفات کے بعد میری نگہداشت کرنے لگی۔ دوسری بیٹی شیلا نے بیوٹی کلچر میں ڈپلومہ لیا لیکن چار بچوں کے بعد بھی اس کی شادی بھی ناکام رہی اور اس نے دوسری شادی کر لی۔وہ وسائل رکھنے والی خاتون ہے اور اپنا خیال خود رکھ سکتی ہے۔ ہماری تیسری بیٹی پیٹریشیا (روبن) نے اوکسفرڈ سے انگریزی میں ڈگری لی۔ اس نے ایک اشتہاری کمپنی میں کری ایٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کیا۔ سب سے چھوٹی بیٹی نوئیل بہت محنتی خاتون ہے۔
ہم نے یونیورسٹی والا گھر بیچ دیا اور لندن سے 25 میل دور ایک گھر خریدلیا۔ ریٹائرمنٹ میں کچھ دن باقی تھے کہ پاکستان سے وزیر دفاع اور خارجہ امور عزیز احمد نے خط لکھا کہ میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک اسٹڈیز میں شامل ہو جاؤں۔ میں نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔ تاہم قائداعظم بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک مقالہ پڑھا۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو کیا اور اسے مشورہ دیا کہ صوبہ سرحدکانام بدل کر پختونستان یا پختونخوا رکھنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اپریل 1982میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ایریا اسٹڈی سنٹرز اور پالیسی انالسز سیل کے قیام میں مشاورت کے لیے بلایا لیکن میں نے یہ پیش کش بھی مسترد کر دی کیونکہ میں اب سکون سے اپنی فیملی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔
1983 میں اقوام متحدہ کے ایک ٹریننگ پروگرام میں مشاورتی پینل میں شامل ہوا۔ 1985 میں وزیر اعظم راجیوگاندھی سے میری خط و کتابت رہی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد چونکہ کوئی فنڈنگ نہیں تھی اور تحقیقی معاونین اور سیکریٹری بھی نہیں تھی اس لیے لکھنے لکھانے کا کام مشکل تھا لیکن اس سے بوریت اور اکتاہٹ سے چھٹکارا ملتا تھا۔ میری بیٹی پامیلا نے سیکریٹری کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ تحقیقی مواد کے لیے انڈیا آفس لائبریری اور برٹش لائبریری کا سہارا لیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی کتاب مغل اعظم اکبر پر لکھی جو 1989 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے لکھنے کے لیے مجھے بہت سی کتابیں خریدنا پڑیں۔ میں نے سوچا کہ ایک کتاب کے لیے اگر اسی طرح کتابیں خریدتا رہا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔ میں نے برٹش لائبریری میں سلیم الدین قریشی سے دوستی بنائی۔ قریشی کے پاس مواد تھا اور میرے پاس وقت تھا۔ وہ تحقیق کر کے مواد اکٹھا کرکے میرے گھر پہنچاتے اور میں کتاب لکھنے کا کام کرتا۔ ہم نے برطانوی راج، بہادر شاہ اور قائد اعظم پر کتابیں لکھیں۔
8۔ نتیجہ
سچی بات ہے اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں بالکل یہی زندگی دوبارہ جینا چاہوں گا۔ میں ساری عمر صحت مند رہا۔ نواسی (89) سال کی عمر میں درد اور تکالیف ہوئیں لیکن کوئی بڑی بیماری کبھی نہ آئی۔ میرا ماننا ہے کہ انسانی بدن مقررہ عادات کے مطابق صحیح کام کرتا ہے۔ اس لیے میرے سونے، جاگنے، کھانے پینے، ورزش کرنے اور لکھنے پڑھنے کے اوقات متعین ہیں۔ میری پنشن سے گزارا ہو جاتا ہے لیکن سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے میں کوئی امیر آدمی نہیں۔ میں بہت خوش اور مطمئن ہوں۔میرا فلسفہ یہ ہے کہ خوش باش رہنے کے لیے ضبط نفس سے کام لینا چاہیے۔
آئیں پاکستان کے اس عظیم سپوت پر ان کی موت سے پہلے تقریباً آخری ملاقات کے بعد ساجدہ مومن کا مضمون اور موت کے بعد رجنالڈ میسی ،عادل انجم، بریگیڈیئر سیمسن شرف، ڈاکٹر عارف آزاد کے مضمون پڑھیں اور مسحور ہو جائیں کہ کیا گوہر نایاب پیدا کیے اس دھرتی نے جہاں آج کل بقول مارٹن سیموئیل برق، قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ظفراللہ خان کے بعد آج جو لوگ کلیدی عہدوں پر براجمان ہیں جو ا پنے اقتدار کو دوام دینے اور دولت میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply