محترمہ بے نظیر بھٹو۔۔آصف محمود

سیاسی قیادت کا وجود اپنی ساری خامیوں کے باوجود معاشرے اور ریاست کے لیے خیر کا باعث ہوتا ہے ۔ یہ عقدہ اس شام کھلا جب بے نظیر بھٹو قتل کر دی گئیں۔جس نسل کو پروپیگنڈے کی سان پر تیار کیا گیا ہو اس کی فکری گرہیں کھلنا کتنا مشکل ہوتا ہے ، اس کا اندازہ بھی اسی رات ہوا۔ لاہور ٹی وی سٹوڈیوسے نکلا تو سکرینوں پر شور تھا بی بی لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کریں گی۔سرگودھا پہنچا تو معلوم ہوا، بے نظیر بھٹو زخمی ہیں۔ٹی وی آن کیا تو تھوڑی دیر میں ایک خبر فلیش ہوئی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کر دی گئیں۔ ٹی وی سکرین کا وہ منظر میں آج تک نہیںبھولا۔ حسیات میں گویا کسی نے تیر ترازو کر دیا۔ پیپلزپارٹی سے میرا کوئی رومان نہیں رہا۔ رومان تو دور کی بات ، اس جماعت سے خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات بھی کبھی مجھے گرفت میں نہ لے سکے۔میں پروپیگنڈے کے ز ہر میں لتھڑے جس ماحول میں پروان چڑھا وہاں کسی کے آخری درجے میں نا معقول ہونے کے لیے اتنا تعارف کافی تھا کہ یہ پیپلز پارٹی کا ہے۔لڑکپن میں ہی ہمیں متقیان بقلم خود نے لہک لہک کر اور گا گا کر بتایا تھا ، اب ’’ وطن بچائو چلائو سائیکل‘‘۔لیکن اس کے باوجود محترمہ کی شہادت کی خبر سن کر یوں لگا جیسے سر سے کسی نے سائبان چھین لیا ہو۔پہلی بار یہ احساس ہوا کہ سیاسی قیادت جیسی بھی ہو اس کا وجود معاشرے اور ریاست کے لیے باعث خیر ہوتا ہے۔ محترمہ بے نظیر کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا۔ یہ بات درست بھی تھی اور غلط بھی۔ درست اس لیے قومی قیادت ملک بھر میں اپنے وابستگان کے ذریعے معاشرے کو جوڑے رکھتی ہے۔ اور غلط اس لیے کہ سیاسی قیادت زنجیر نہیں ہوتی ، مالا ہوتی ہے جس میں ملک کی ساری اکائیاں پھولوں کی صورت پروئی ہوتی ہیں۔ زنجیر تو ایک وقت آتا ہے،ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے اور پامال ہو جاتی ہے۔ مالا بکھر بھی جائے تو خوشبو دیتی رہتی ہے۔ ملک میں لسانی ، علاقائی اور دیگر مختلف حوالوں سے تقسیم در تقسیم موجود ہے۔ اس منقسم معاشرے کو قومی سیاسی قیادت جوڑ کر رکھتی ہے۔یہ کسی معین قریشی یا شوکت عزیز جیسے مہرے کے بس کی بات نہیں۔یہ کام قومی سیاسی جماعت ہی کر سکتی ہے۔قومی سیاسی جماعت اپنی ساری خرابیوں کے باوجود اسی لیے خیر کی قوت ہے کہ ملک بھر میں ، جہاں جہاں اس کا ووٹر ہے وہ اپنی ساری عصبیتوں سے بالاتر ہو کر قومی دھارے سے جڑا رہتا ہے۔اور تمام اکائیوں کو شراکت اقتدار کا احساس رہتا ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہوا کہ سیاسی قیادت میں خیر کے اس پہلو کو سمجھنے کی بجائے اسے مکمل برائی سمجھا گیا اور اس کی سرکوبی کو راہ نجات تصور کیا گیا۔ ایوب خان کے دور میں’ ایبڈو ‘ لگایا گیا اور قیام پاکستان کے وقت کے اہل سیاست کو ’ کرپٹ‘ قرار دے کر نا اہل قرار دے کر قومی سیاست سے الگ کر دیا گیا تا کہ یہ ایوب خان صاحب کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ بنیں اور یہ بزرگ لوگ چھ سال کی نا اہلی کے بعد خودریعے ہی مر کھپ جائیں۔ کرپشن کے جن الزامات میں تحریک پاکستان کے وقتوں کے اہل سیاست کو رسوا کیا گیا ان میں فون کے استعمال سے لے کر تبادلوں تک جیسی ’’ سنگین کرپشن‘‘ موجود تھی۔ عالم یہ تھا کہ ایوب خان صاحب کو جس وزیر دفاع کے دفتر میں ملاقات کے لیے چند منٹ انتظار کرنا پڑا تھا ایبڈو کے ذریعے اسے نا اہل قرار دلوا دیا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تحریک پاکستان کے نمایاں رہنما پاکستان کے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو بھی نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اس سے قبل انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا۔جلاوطنی کی حالت میں ایک ہوٹل میں انتقال ہو گیا۔کچھ لوگ اسے ہارٹ اٹیک کہتے ہیں کچھ قتل۔ یاد رہے کہ سہروردی کے انتقال کے بعد عوامی لیگ نے بنگالی نیشنلزم کی سیاست شروع کی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اور قائد اعظم کے قریبی دوست قاضی محمد عیسی ( جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کے والد گرامی )بھی نا اہل قرار دے دیے گئے۔یہ تو خیر قائد اعظم کے دوست اور تحریک پاکستان کے رہنما تھے ، اس دور میں قائد اعظم کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ جو ’’ حسن سلوک‘‘ ہوا وہ ہماری تاریخ کا افسوسناک باب ہے۔ قدآور رہنمائوں کو کامیابی سے ’’ سائڈ لائن‘‘ کیا گیا ۔ بڑے لوگ منظر سے ہٹ جائیں تو چھوٹے لوگ بڑے ہو جاتے ہیں۔ہمارے ساتھ یہی ہوا۔ اس کا انجام بھی ہم نے دیکھ لیا۔معلوم نہیں مسئلہ کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معین قریشی اورشوکت عزیز جیسے کردار تو ہمیں بہت پسند آتے ہیں لیکن مقبول عوامی قیادت ہمیں آج بھی راس نہیں آتی۔ یہ گرہ کھلنے میں ہی نہیں آ رہی کہ سیاسی قیادت اپنی ساری خوبیوں خامیوں سمیت اس ملک اور اس معاشرے کے لیے خیر کی قوت ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی ایسی ہی قوت کانام تھا۔ زندہ رہیں تو ان کی حب الوطنی مشکوک ہی رہی۔ کشمیر فروشی کے طعنے دیے جاتے رہے۔لیکن قتل ہو گئیں تو ایک روز جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سابق امیر جناب عبد الرشید ترابی کہنے لگے کشمیر پر سب سے زیادہ حساسیت بے نظیر بھٹو میں تھی۔ وہ نہ صرف ہماری بات سنتی تھیں بلکہ قیمتی مشورے بھی دیتی تھیں۔ترابی صاحب وارفتگی کے عالم میں ، بی بی کی تعریف کر رہے تھے اور میں حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ جب بی بی زندہ تھیں تو جماعت ا سلامی کا موقف کیا ہوتا تھا۔۔ بی بی کے دور میں تو یہ ہوا تھا کہ سلامتی کونسل نے کشمیر کو ایجنڈے سے ہی خارج کر دیا تھا۔بے نظیر صاحبہ نے نہ صرف اپنی کامیاب سفارت کاری سے اس مسئلے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر بحال کروایا بلکہ یہ اصول بھی طے کروا دیا کہ یہ مسئلہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر محض بھارت کی رضامندی سے آئندہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج ہو ہی نہیں سکتا۔ بے نظیر بھٹو کی اس غیر معمولی سفارتی کامیابی کے ایک ماہ بعدہی ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا کیونکہ قاضی حسین احمد مرحوم نے’’ سکیورٹی رسک‘‘ بے نظیر بھٹو کے خلاف راولپنڈی کا مشہور ز مانہ دھرنا دے کر’’ ملک دشمن حکومت‘‘ کی چولیں ہلا دی تھیں۔اعلائے کلمۃ الحق بھی اس ملک میں شاید ایجنڈے کے تحت بولا جاتا ہے اور حسب ضرورت بولا جاتا ہے۔ بے نظیر زندہ تھیں تو پیپلز پارٹی کے ’’ نومولود خیر خواہ‘‘ رونی صورت بنا کر کہا کرتے تھے بھٹو صاحب تو بہت بڑے آدمی تھے لیکن بی بی تو اپنے باپ کے الٹ نکلی۔ اب یہی خیر خواہ اسی رونی صورت کے ساتھ بی بی کے فضائل بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ موجودہ قیادت تو بی بی کے بالکل الٹ ہے۔ یعنی ان کے نزدیک پیپلز پارٹی میں اچھا وہی ہے جو مر چکا ہو۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply