کرسمس کی مبارکباد اور متزلزل ایمان۔۔سعید چیمہ

طالب علمی کے زمانے میں جذباتی باتوں سے سامعین کے خیالات کی ڈوری ہلانے والے مبلغین خوب بھاتے تھے۔ تب تک فرقہ واریت کے کیچڑ سے باہر نکل کر پاؤں بھی نہیں دھوئے تھے۔ عام طور پر مخالف فرقے کو کافر اور دائمی جہنمی ٹھہرانے والے واعظین سے خصوصی عقیدت ہوتی تھی۔ مسلمان تھے تو بس اتنے کہ اسلام بس پُرکھوں سے نسل در نسل منتقل ہو رہا تھا۔ جو بات بتائی جاتی وہ معتبر ٹھہرتی۔ ایک عرصے تک اس واقعے پر یقین کیا کہ ایک اللہ والے بارہ سال تک پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر عبادت کرتے رہے، حتیٰ  کہ ان کا نچلا دھڑ مچھلیاں کھا گئیں اور وہ پھر بھی کھڑے رہے۔ اب یاد نہیں پڑتا کہ کیسے خیال آیا کہ  فرقہ واریت سے جان چھڑوانی چاہیے۔ فرقہ واریت کو چھوڑنے میں محمد علی مرزا کے لیکچرز، ابو یحییٰ کی تحریریں، اور مولانا اسحاق مدنی کے خطبات نے بہت مدد کی۔

فرقہ پرستی کو خیر آباد کہہ کر اسلام کو سمجھنا شروع کیا۔ تمام مسالک کے علما سے دین سمجھنے کی کوشش کی۔ صحیح مسلم پڑھی تو ساتھ نہج البلاغہ سے بھی فیض حاصل کیا۔ اس مطالعے کے دوران ایک چیز نے حیران کیا کہ جن معاملات میں ہمارے روایتی علما  نہایت سختی سے کاربند ہیں ان پر رسالت مآبﷺ نے ہر حد تک لچک دکھائی۔ اگر حافظہ دھوکا نہیں دے رہا تو 9ہجری میں نجران کے عیسائی علما کا ایک وفد آیا۔ اس وفد نے مسجدِ نبوی میں رسالت مآبﷺ سے گفتگو کی۔ دوران گفتگو ان کی عبادت کا وقت ہوا تو آپﷺ نے مسجدِ نبوی میں ہی ان کو عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔ یاد رہے کہ اس وفد میں موجود عیسائی علما کا عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔ اس کے باوجود بھی رسالت مآبﷺ نے ان کو مسجد میں عبادت کی اجازت دی۔

یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ گزری کرسمس پر سوشل میڈیا پر وہ رن پڑا کہ استغفراللہ۔ زیادہ تر عوام کی دلیل یہ تھی کہ عیسائی یہ سمجھتے ہیں کہ کرسمس کے دن اللہ کا بیٹا پیدا ہوا، اس لیے جو کوئی بھی انہیں مبارک باد دے گا اس کا ایمان مشکوک ہو جائے گا۔ لیکن یہاں پر یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو مبارک باد دے رہا ہے کیا وہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ اللہ کے بیٹے تھے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ جس مسلمان سے بھی پوچھیے کہ “مَیری کرسمس” کہتے وقت کیا اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس کا مطلب خدا کے بیٹے کی پیدائش ہے۔ جواب نفی میں ہو گا۔ جو سیدنا عیسیٰ کا اللہ کا بیٹا سمجھتے تھے ان کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت مل گئی۔ لیکن ایمان متزلزل نہ ہوا۔ مگر آج سیدنا عیسیٰ کی پیدائش کی مبارک باد دینے سے ایمان متزلزل ہو جاتا ہے۔

یہاں پر ایک قول کا تذکرہ ضروری ہے جو امام ابو حنیفہ سے منسوب ہے۔ امام صاحب کی بات کو ایک صاحب اپنے پیرائے میں بیان کرنے لگے تو امام نے فرمایا کہ میں نے صرف وہ کہا ہے جو میں نے کہا ہے، میں نے وہ نہیں کہا جو آپ نے سمجھا ہے۔ جب کوئی “میری کرسمس” کہتا ہے تو اس سے مراد سیدنا عیسیٰ کی پیدائش کی مبارک باد ہوتی ہے نہ کہ خدا کے بیٹے کی پیدائش کی مبارک باد۔ امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی۔ اس لیے دوسری دلیل کا جائزہ لیتے ہیں جس کے مطابق کرسمس کی مبارک باد نہیں دینی چاہیے۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ تو پچیس دسمبر کو پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، اس لیے مبارک باد کس چیز کی۔ ایسوں سے جب پلٹ کر پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو کیسے پتہ کہ سیدنا عیسیٰ پچیس دسمبر کو پیدا نہیں ہوئے تھے تو دلیل میں کچھ عیسائی علمااور محققین کے ویڈیو کلپ بھیج دئیے جاتے ہیں۔ رسالت مآبﷺ کی ولادت بارہ ربیع الاوّل ہے، لیکن ایک مسلک کے نزدیک ولادت کا دن نو ربیع الاوّل ہے تو دوسرے کے نزدیک اٹھارہ ربیع الاوّل۔ لیکن رسالت مآبﷺ کی ولادت کی خوشی اسی دن منائی جاتی ہے جس دن پر اکثریت کا اتفاقِ رائے ہے۔ سیدنا عیسیٰ کی پیدائش کی خوشی بھی اسی دن منائی جائے گی جس دن ان کے پیروکاروں کی اکثریت منائے گی۔

گورنمنٹ کالج میں بی ایس کا ساتواں سمیسٹر تھا جب ایک معمول کی گفتگو میں ایک خاتون استاد نے کہا کہ سیدنا عیسیٰ پچیس دسمبر کو پیدا نہیں ہوئے تھے۔ دلیل ان کی یہ تھی کہ جب سیدنا عیسیٰ پیدا ہوئے تو سیدہ مریم کے کھجور کا تنا ہلانے سے کھجوریں گری تھیں، دسمبر میں کھجوریں نہیں ہوتیں اس لیےسیدنا عیسیٰ کی پیدائش کسی ایسے مہینے میں ہوئی تھی جب کھجوروں کی فصل ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ دلیل قرآن کی رو سے درست نہیں۔ قرآن میں یہ بات ایسے بیان ہوئی ہے کہ جب سیدہ مریم کو دردِ زہ محسوس ہوا تو وہ کھجور کے تنے کے نیچے چلی گئیں، تو اللہ نے فرمایا کہ مریم تنے کو ہلاؤ تو تازہ اور عمدہ کھجوریں گریں گی۔ اب اگر قرآن کے الفاط پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کھجوروں کا گرنا معجزہ تھا نہ کہ معمول کا گرنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں بس یہی عرض کرنا ہے کہ اگر کوئی “میری کرسمس” بول دے تو اس کو مسلمان ہی رہنے دیجیے۔ کیوں کہ کافر پہلے ہی بہت زیادہ ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply