خچروں میں گھرے ایک ادیب کی کتاب۔۔عامر حسینی

آج میں اُس سے ملا تو اُس نے مجھ سے پوچھا کہ میری کتاب پہ تمہارا مضمون اب تک کسی ویب سائٹ پہ چھپا کیوں نہیں؟
میں نے کہا کہ مضمون میں نے پہلے لکھا اور “عنوان” بعد میں دینے کا سوچا تو زہن میں ایک عجب جنگ چھڑ گئی – میں اس جنگ میں اسقدر گھرا کہ کوئی عنوان نہ دے سکا- اس ادھیڑ بن میں آنکھ لگ گئی اور میں نے تمہیں ایک میدان میں دیکھا جہاں آدمی کے روپ میں بس تُم تھے اور باقی سب خچر – تم اپنے خدوخال مسخ ہونے سے بچائے ہوئے تھے لیکن لگتا تھا بچانے کا یہ عمل آسان نہیں تھا کیونکہ تمہاری انگلیاں جو کمپیوٹر، موبائل اور لیپ ٹاپ کے کی پیڈ اور ٹچ پیڈ پہ چلتی ہیں اُن کی جکد کا رنگ کہیں کہیں “خچر” جیسا ہورہا تھا اور مجھے یقین ہے تمہارے جسم کی جلد کے کئی اور حصے بھی ایسے ہی خچر کی جلد جیسے ہوگئے ہوں گے – ویسے شُکر ہے تمیاری جلد کے کسی حصے کا رنگ لومڑی کی جلد کے رنگ سے میل نہیں کھارہا تھا- میں خواب میں یہ سب دیکھتا ہوا صبح کے چھے بجے نیند سے بیدار ہوا تو تمہارے آباء کے مسلک والی مسجد سے اذان کی صدا بلند ہورہی تھی اور میرے آباء کے مسلک والی مساجد کے لاؤڈ اسپیکر خاموش تھے کیونکہ ابھی آدھا گھنٹہ اُن کے بیدار ہونے میں پڑا تھا- اُس وقت اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ شہر جہاں میں رہ رہا ہوں 1920ء میں جب آباد ہوا تھا تو ہندؤں اور سکھوں کی اکثریت کا شہر تھا جبکہ یہاں لے دے کر دو مساجد تھیں اور تین گرجا گھر تھے – جبکہ دو گرودوارے اور تین مندر تھے – وہاں اُس وقت دسمبر کی سرد صبح میں یکے بعد دیگرے صرف مساجد کے لاؤڈ اسپیکر ہی نہیں جاگتے ہوں گے بلکہ مندر کی گھنٹیاں، گرودواروں سے گروگرنتھ کی آوازیں بھی آتی ہوں گی اور کلیساؤں کے گھڑیال بھی زور زور سے بجنے لگتے ہوں گے –
اُس زمانے میں جو ہندؤ، سکھ، مسیحی اور مسلمان اس شہر میں جلائے گئے اور دفن ہوئے ہوں گے اُن سب کی آتمائیں اور ارواح کیا آج بھی ہمارے ارد گرد دیوانہ وار پھرا کرتی ہیں؟ کیا اُس زمانے میں بھی کوئی ادیب جُون بدل کر “خچر” ہوجانے کے عمل کے خلاف مزاحمت کررہا ہوگا؟ اور وہ کب تک خود کو “خچر” بن جانے سے روک سکا ہوگا؟ خچر کو عُرف عام میں “ٹٹو” بھی کہتے ہیں اور اس کی اکثر و بیشتر قسمت “بھاڑے کا ہوجانا” ہوا کرتی ہے – ایک ادیب جب اپنے آپ کو “فروخت” کردیتا ہے یا “کرائے” پہ اٹھا دیتا ہے تو وہ “بھاڑے کا ٹٹو” ہوتا ہے – اور اکثر تو ہوتے ہی “خچر” ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے ہاں “ادب” کے نام پہ جو کچھ ہوتا ہے وہ “خچر پَن” ہی ہوتا ہے اور وہ زبردستی اُسے” اصیل گھڑدوڑ” کہنے پہ اصرار کرتے ہیں – اور اُن کے ہاں جو اڑیل پَن ہوتا ہے وہ” خچریات” کی قبیل کا اڑیل پَن ہوتا ہے – میں نے سوچا کہ کیا خواب میں میں نے جو کچھ دیکھا وہ مجھے تمہاری کتاب پہ لکھے مضمون کا عنوان تجویز کردینے والا کوئی “غیبی اشارہ” ہے- کیا میں اس کا عنوان” خچروں میں گھرا ادیب” رکھ سکتا ہوں؟ ویسے میرے گُرو سمان دوست اعظم خان کا کہنا ہے کہ تمہاری کتاب کی تقریب رونمائی کے وقت اُس نے ایک خچر کو “خچر پَن” کے ساتھ دیکھا تھا – دیکھو اب تُم یہ نہ کہہ دینا کہ میرے دوست کا اشارہ اُس…….. کی طرف ہے جس کے بارے میں آج ش ح صاحب نے یہ کہا کہ “اُسی” کے بارے میں میری کل والی پوسٹ تھی جس میں میرے دوست نے تمہاری کتاب پہ اظہار بَد خیال کرنے والے شاعر نُمامتشاعر کی تمہارے نام کی گئی “نظم” (نُما) کو “بکواسِ محض” کہا تھا- تُم کیا سمجھتے ہو کہ اگر کوئی لابنگ کرکے اسلام آباد/لاہو/کراچی یا نیویارک میں مشاعروں میں شرکت کرکے ایک لاکھ سے دو لاکھ فی مشاعرہ “اعزازیہ” لے مرے تو یہ معاوضہ اُس کے بڑے شاعر ہونے کی دلیل ہوجاتا ہے؟ پھر تو ضیاء الحق کی” اہم قلم کانفرنس” کے شرکا بہت بڑے ادیب اور شاعر قرار پاتے ہیں اور بنوامیہ کے درباروں میں موجود کئی نام “مہان کوی” کہلائے جانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں – مال بنانے اور معاوضہ پانے کے اعتبار سے پابلو نیرودا، ناظم حکمت، محمود درویش، فیض، جالب تو کسی شُمار میں نہیں آئیں گے اور تنویر سِپرا کو تو نسیا منسیا ہی کرنا پڑے گا اور “ثروت حسین” نام کا ثروت ٹھہرے گا – یہ جو تُم اپنی گفتگو میں کبھی کسی “کورکمانڈر” کا تو کبھی کسی “بیوروکریٹ” کا تو کبھی کسی جج کا تو کبھی کسی مین سٹریم میڈیا کے کسی نام نہاد سلیبرٹی کی طرف سے تمہارے “کام” کو سراہے جانے کا زکر لے بیٹھتے ہو تو مجھے لگتا ہے کہ تمہاری تخلیق کو عبارت کی شکل دینے والی انگلیوں کی جلد پہ کہیں کہیں “خچرانہ جلد” کی مماثلت کا گمان ہوتا ہے اس کا سبب مین سٹریم میڈیا، عدالت و انتظامیہ کے بڑے خچروں سے اپنے کام کی داد سمیٹنے اور اُس کا بار بار زکر کرنے کا شاخسانہ لگتا ہے – ویسے یہ کئی سطح پہ زندگی گزارنے کے فن کو سیکھ جانے کے سبب ہوتا ہے اور جب سیکھے ہوا یہ فن بار بار بروئے کار لایا جانے لگے تو “خچرپَن” دبے پاؤں سارے بدن کی جلد پہ اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے – خچروں کے غصے سے ڈرنے والے بھی خچر پن کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں – لیکن مجھے پتا ہے کہ تُم خچروں سے زرا خوف نہیں کھاتے تب ہی تو تُم “عباس زیدی” کے ناول “کفار مکہ” پہ ایک تقریب اولیاء کے شہر میں منعقد کرانے پہ تُلے بیٹھے ہو – میں یہ سب تُم سے کہتے ہوئے اچانک واش روم کی طرف بھاگا تھا تو اس کا سبب “کال آف نیچر” نہیں تھا بلکہ چیسٹ انفیکشن سے نجات پانے کے فوری بعد دو پیکٹ سگریٹوں کے پھونک دینے کے سبب بار بار ناک سے خون کے جریان سبب تھا – کَل میں نے اُن سگریٹوں کی ساری ایش گھر میں رکھے ایک ایسے گملے میں جمع کردی تھی جس میں میری بیگم نے کیلے کے چھلکوں کو رکھا تھا جو دھوپ میں سوکھ کر کالے سیاہ ہوچکے تھے – میری بیگم نے مجھے اس پہ گھورا تو میں بے اختیار بول اٹھا تھا کہ میں گملے میں سگریٹوں کو اُگانا چاہتا ہوں – کیا ایش سے ورجنیا تمباکو اور اُس پہ چڑھا سفید پنا “گولڈ لیف” میں بدل جائے گا؟ اور میں ہر روز کم از کم 360 روپے کی ایش پیدا کرنے کے عمل سے نجات پاکر بیگم کے عتاب سے بچ جاؤں گا؟ ایسے نادر خیالات مجھے کیسے سوجھتے ہیں؟ کہیں میں یوتھیاز کے امام خان کا مرید تو نہیں ہوگیا ہوں جو مرغی اور انڈوں سے ملک کو خود کفیل بنانے کے منصوبے پیش کرتا رہتا ہے – خچر خان سے پہلے خچر نواز بھی تو ہوا کرتا تھا جو اب خچر کی تانیثی شکل کو “لاڈلی” (سلیکٹڈ) بنانا چاہتا ہے – خچریت کا شکار کئی قلم کار اُس خچر نواز کو کبھی نیلسن منڈیلا تو کبھی چی گیورا قرار دیتے ہیں اور اُس کے “مہا ٹٹو” کو پابلو نیروا قرار دیتے ہیں اور تُم ایسے ہی کسی بالشتیے ٹٹو سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہیں وقت کا ابن بطوطہ قرار دے ڈالیں؟ جب خچر شاعری کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو وہ کالا کُوٹ پہن کر کسی پی سی او جج کی مہربانی سے جج بننے والے کے ساتھ تصویر بنواکر ہمیں یہ اطلاع دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ادب کے نام پہ خچریت کو فروغ دینے والے اب وکالت کے میدان میں موجود پہلے سے بے شمار خچروں کے ساتھ “خَچَر خَچَر” بلکہ “خچروخچری” ہوں گے- مجھے اب تک تمہاری کتاب پہ اپنے لکھے مضمون کا عنوان مل نہیں سکا ہے – آج میں پھر رات کو سوتا ہوں اور خواب میں ہوئے کسی اشارے سے اس مضمون کا عنوان سوچتا ہوں جو تمہاری کتاب پہ میں نے لکھ کر رکھا ہوا ہے – تب تک تمہیں انتظار کی سُولی پہ لٹکے رہنا ہوگا کیونکہ تمہارے بدن کو سُولی شناس ہونے کی مشق میں شامل کیا جانا ممکن اُس وقت تک نہیں ہے جب تک تُم کئی سطحوں پہ زندگی کرنے کے فن کو ترک نہیں کردیتے –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply