پاکستانی سیاست میں نواز شریف کی واپسی اور اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی خبریں گرم ہیں اور اس کے ساتھ نون لیگ اور کچھ مخصوص صحافیوں کی طرف سے یہ تاثر بھی عام کیا جارہا ہے کہ نواز شریف کی ڈیل ہوچکی ہے اور وہ واپس پاکستان آرہے ہیں جبکہ تحریک انصاف اور انکے حامی اس بات کو ہوا دے رہے ہیں کہ نواز شریف کی برطانیہ میں ویزے کی توسیع کے لئے دائر درخواست کے تنسیخ ہونے کی امید ہے جس کی وجہ سے وہ پاکستان آنے پر مجبور ہیں اسی لئے ان کے آنے کے لئے گراؤنڈ تیار کر کے ماحول بنایا جارہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس اپیل کے ریجیکٹ ہونے کےباوجود وہ سیاسی پناہ وغیرہ کے لئے درخواست دے سکتے ہیں اور مزید دو تین سال برطانیہ میں گزارنا ان کے لئے مشکل نہیں اگرچہ سیاسی طور پر یہ حکمت عملی انھیں سیاست سے ہمیشہ کے لئےدور کرکےنون لیگ کو دیوار سے لگا دے گی جب کہ واپسی کی صورت میں عمران خان کے حکومت میں ہوتے ہوئے میاں صاحب کا جیل سے باہررہنا آسان نہیں ہوگا اورڈیل کی افواہیں اسی سلسلےکی کڑی ہیں کہ جیل کے بجائے جاتی امراء میں نظر بندی کی یقین دہانی پر واپسی کا آپشن استعمال کیا جاسکتا ہےکیونکہ اقتدار کی ڈیل ابھی بہت وقت دور ہے خاص کر جب آنے والے نئے سال میں فیصلہ ساز بھی تبدیل ہوچکے ہوں گے دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں بدترین کارکردگی کا ملبہ سیٹوں کی غلط تقسیم پر ڈال کر پی ٹی آئی کی تمام کمیٹیاں اور عہدے تحلیل کر کے ایک اکیس رکنی کمیٹی بنا کر نئے سرے سے تنظیم نو کی ہے اس بات سے قطع نظر کہ میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب, اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں کے مصداق اس کمیٹی اور نئے عہدیداران میں بھی وہ لوگ شامل ہیں جن کی وجہ سے تحریک انصاف کی لٹیا ڈوب رہی ہے, کیا پی ٹی آئی ان تبدیلیوں کے بعد خیبر پختونخوا کےدوسرے مرحلے میں پھر پنجاب اور اس کے بعد عام انتخابات میں جیت پائے گی, کیا نواز شریف واپس آئیں گے اور نون لیگ, جے یو آئی اور پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار کی راہداریوں کا حصہ بن سکیں گے یہ اس وقت موجودہ پاکستانی سیاست کے اہم سوالات ہیں.
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس ملک کی فیصلہ ساز ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ ہے, ماضی کی تمام حکومتیں ہوں یا موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بناء اس ملک پر حکمرانی کسی کے بس کی بات نہیں مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عوامی رائے کے برعکس اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کو عوام پر مسلط کرتی رہی ہے, یہ عقلی طور پر بھی ممکن نظر نہیں آتا اگر کوئی پارٹی اکثریت لے رہی ہوگی تو ہی اسے اسٹیبلشمنٹ مزید طاقت دلوا سکتی ہے اور نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ تیسرے یا چوتھے نمبر کی پارٹی کو دو تہائی اکثریت سے کامیاب کروا دیا جائے۔
عمران خان کی غیر ملکی سرمایہ کاری, بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر اور ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کر کے ملک چلانے کی یقین دہانیوں کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت اپنے ٹارگٹس مطلوبہ حد تک پورے کرنے میں ناکام رہی ہے اور رہی سہی کسر ماضی کی حکومتوں کے بجلی, گیس وغیرہ کے مہنگے معاہدے, معیشت میں لگائے گئے بموں, سسٹم میں موجود مافیاز کو لگام ڈالنے میں ناکامی اور ڈالر کے مصنوعی کنٹرول کو فری مارکیٹ پر چھوڑنے نے پوری کردی طرفہ تماشا اس کے بعد مقتدر حلقوں کی مخالفت کے باوجود پنجاب کو ایک غیر موزوں شخص کو سونپنے, خیبر پختوخوا میں وزیر اعلی اور گورنر کی تقرری اور ان کی شاہ خرچیوں سے لے کر کابینہ میں موجود زیادہ تر وزیروں کی بدترین کارکردگی, نااہلی اور اقرباء پروری تک اور مہنگائی, غربت, افلاس اور بے روزگاری جیسے عفریتوں کے مقابلے میں ناکامی سمیت درجنوں غلط سیاسی اور اقتصادی فیصلوں کے ساتھ ساتھ بد انتظامی کے معاملات تک نے نا صرف موجودہ حکومت کو مقتدر حلقوں کی نظر میں غیر مقبول کیا بلکہ پاکستانی عوام اور خاص طور پر پی ٹی آئی کے اپنے ورکر اس سب حالات سے نالاں نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ تحریک انصاف کی ریڑھ کی ہڈی, جوڑ توڑ کے ماہر اور کنگ میکر جہانگیر ترین کی عمران خان اور تحریک انصاف سےدوری تحریک انصاف کا آج تک کا سب سے بڑا نقصان ہے کیونکہ اگر کرپشن کے الزامات اس کی وجہ ہیں تو وہ کابینہ میں موجود لوگوں پر بھی ہیں پھر کیا وجہ ہوئی اور کن لوگوں کی باتوں اور پراپیگینڈے میں آکر عمران خان نے جہانگیر ترین کو خود سے دور کیا اور اب تک وہ اس معاملے کو سنبھالنے کے لئے تیار نہیں , یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ سپریم کورٹ بار کی تاحیات نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ کا انتیجہ اس فیصلے کو ختم کرنے کی صورت نکلا تو اس کے بینیفشری نواز شریف کے ساتھ جہانگیر ترین بھی ہونگے ایسی صورت میں تحریک انصاف کے لئے جہانگیر ترین سے دوری سراسر گھاٹے کا سودا ہوگا جو اپنا مضبوط ہم خیال گروپ بنا کر ثابت کرچکے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ اپ سیٹ بھی کر سکتے ہیں اور اقتدار میں حصہ دار بھی بن سکتے ہیں .
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنی حکومت کی بقایا مدت میں کچھ ایسا کر سکیں گے کہ اپنی اور تحریک انصاف کی تیزی سے کم ہوتی مقبولیت کو سہارا دے سکیں, کیا احتساب, میرٹ اور اصلاحات کے نہ پورے ہونے والے نعرے اور وعدے اس حکومت کو دوبارہ الیکشنز میں سیاسی نقصان نہیں دیں گے ان سوالوں کے جواب میں ہمیں آنے والے نئے سال کا منظر نامہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا جہاں فروری میں جسٹس عمر عطاء بندیال نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے جارہے ہیں, یاد رہےجسٹس عمر عطا بندیال نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس فیصل عرب کے ساتھ بینچ میں عمران خان کومیرٹ پر صادق اور امین قرار دیا تھا ,عمران خان کی خواہش اور کوشش ہوگی کہ آنے والے وقت میں احتساب کے عمل کومزید تیز تر کرنے کے لئے حکمت عملی بنائی جائے اورا آئندہ الیکشن سے قبل اپوزیشن کے کیسوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے یہی اپوزیشن کے لئے بڑا درد سر ہے جو اس وقت عدالتی نظام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
دوسری طرف اگلے سال نومبر کے آخر میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپوزیشن کو خطرہ ہے کہ اس وقت جنرل فیض حمید نئے آرمی چیف کی سینیارٹی لسٹ میں شامل ہونگے, وہی جنرل فیض حمید جن کی وجہ سے عمران خان نے موجودہ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی میں تاخیر کی تھی اور عام تاثر یہ ہے کہ ان کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی بہترین انڈرسٹینڈنگ ہے اور اگر ان کو آرمی چیف بنادیا جاتا ہے تو یہ اپوزیشن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے, ایسی صورت میں ایک لمبے وقت سے جنرل فیض حمید کے خلاف پراپیگینڈہ کرنے والی اپوزیشن کس منہ سے ان سے ڈیل یا ڈھیل کی بات کر سکے گی خاص کر جب اگلے جرنل الیکشن سے پہلے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی بھی وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ میں ہوگی۔
تمام تر زور لگانے کے باوجود موجودہ اپوزیشن جماعتیں عمران خان اور تحریک انصاف حکومت کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکیں اور نہ ہی خود کو مضبوط کر سکیں, جہاں جہاں عمران خان اور حکومت کو نقصان ہوا ہے وہاں اس کی وجہ خود عمران خان کے فیصلے اور ان کے اپنے لوگ ہیں ایسے میں آنے والے سیاسی منظر نامے میں مذہبی سیاسی جماعتیں خیبر پختونخوا اور کچھ دیگر جگہوں پر مضبوط ہوتی نظر آرہی ہیں جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی دوسری جماعت چیلنج کرتی نظر نہیں آرہی ۔۔رہ گیا پنجاب اور وفاق تو موجودہ حالات کے تناظر میں دونوں عمران خان کے ہاتھ سے نکلتے ہوئے نظر آرہے ہیں اس کی وجہ مہنگائی, غربت, بے روزگاری اور دیگر عناصر سے زیادہ بد انتظامی اور نا اہلیت ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت میں سب کچھ برا نہیں ہےپہلی بار اسلاموفوبیا اور نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے حوالےسے مسلمانوں کے جذبات کوبھرپور انداز میں اجاگر کیاگیا جس کا ثبوت روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا تازہ ترین بیان ہے, کشمیر و فلسطین کا مسئلہ باربار عالمی سطح پر اٹھایا گیا, ماضی میں جہاں بھارت کا نام بھی نہیں لیا جاتا تھاوہاں عمران خان نے مودی اوربھارت کو دنیا بھرمیں دہشت گرد, انتہا پسنداور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حد سے گزر جانے والے ملک کے طور پرباور کروایا, زراعت کے شعبے میں کسانوں کو بلاسود قرضے اور ادویات اور کھاد پر سبسڈی وغیرہ جیسے اقدامات سےگندم, چاول , کپاس اور مکئی کی ریکارڈ فصلیں ممکن ہورہی ہیں, کرونا کےحوالے سےپوری دنیا کےلئےمثالی اور ماڈل اقدامات کئے گئے, یکساں تعلیمی نصاب لاگو کیا گیااور قبضہ مافیا کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے, زیتون,شہد,بھنگ کے ساتھ ساتھ ماحولیات, گلوبل وارمنگ, آئی ٹی ودیگرشعبوں میں قابل قدر کام کیا گیا , کئی انڈسٹریل زون تعمیر ہوئے, انفراسٹرکچر پرقابل ذکر کام ہوا, کراچی کے دیرینہ مسائل کےحل کےلئے اقدامات کئے گئے, سیاحت کی بہتری اورفروغ کے لئےکامیاب کوششیں کی گئیں, ٹیکسٹائل انڈسٹری بحال ہوئی, موبائل اور ٹی وی سے لے کر میڈیکل تک کئی شعبوں میں مقامی طور پر مصنوعات کی تیاری شروع کی گئی, درآمدات کی نسبت برآمدات بڑھا کر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کیا گیا, زر مبادلہ کے ذخائر میں کئی ارب ڈالر کا اضافہ کیا گیا, اوور سیز پاکستانیوں کوکئی اہم سہولیات فراہم کی گئیں, ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا, بلدیاتی الیکشن کی صورت میں تبدیلی کا حقیقی سفرشروع کیا گیا, الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے جیسے اہم اقدامات اٹھائے گئے جن سے صاف شفاف الیکشن کا انتخاب ممکن ہوسکےگا, ماضی کی نسبت دگنے سے بھی زیادہ قرضے واپس کئے گئے, ٹیکس کلیکشن میں ریکارڈ اضافہ کیا گیا, ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کئی سیکٹرز میں لاگو کیا گیا, خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ہیلتھ کارڈ پر دس لاکھ تک کی طبی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں جو کئی ترقی یافتہ مماملک میں بھی ممکن نہیں, قطرسے گیس اورپرائیوٹ بجلی گھروں سے کئے جانے والے مہنگے معاہدوں میں قیمتوں کو کم کروایا گیا, کئی نئے ڈیمزپر کام شروع ہوا,خارجہ پالیسی بہترین رہی اور پاکستان اسلامی دنیا کا اہم لیڈر بن کرسامنے ایا, امریکہ کو “ایبسلوٹلی ناٹ” کہنے اور جمہوریت کے حوالے سے امریکی کانفرنس میں شرکت سے انکارسمیت کئی معاملات میں خودمختاری اور آزادی کی طرف قدم بڑھائے گئے, مگرعام عوام جس نے ووٹ دینا ہے اس کا بنیادی مسئلہ آٹا, چینی, گھی, دالیں وغیرہ ہےاگر اشرافیہ , سیاستدانوں اورمحکموں کے بابوؤں کے اللے تللوں سے پیسہ بچا کر چند ارب کی سبسڈی دے دی جاتی توموجودہ حکومت کی ساکھ متاثرنہ ہوتی اور نہ ہی حکومت اتنی غیر مقبول ہوتی, الیکشنز میں کیا ہوتا ہے اس کا فیصلہ تو آئندہ آنے والا وقت ہی کرے گامگر اب بھی اگر عمران خان عوام کوبنیادی اشیائے خوردونوش کےحوالے سے ریلیف دینے میں ناکام رہے اور نااہلی, اقرباء پروری اور بدانتظامی پر قابو نہ پاسکےتو تحریک طاقت کی راہداریوں سے باہر ہوجائے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں