کینسر (62) ۔ پیراشوٹ/وہاراامباکر

میگاڈوز ٹرانسپلانٹر میں سب سے مشہور اور کامیاب ورنر بزووڈا تھے جو جنوبی افریقہ سے تھے۔ ہر مہینے درجنوں خواتین پر یہ کیا جا رہا تھا۔ بزووڈا کو میگاڈوز تھراپی سے زبردست کامیابی مل رہی تھی۔ یہ بڑی خبر تھی۔ ان کے جوہانسبرگ میں قائم کردہ ہسپتالوں کے نیٹورک میں یورپ، ایشیا اور افریقہ سے مریض آ رہے تھے۔ ان کی شہرت دنیا بھر میں پھیل چکی تھی۔ 1990 کی دہائی کی وسط میں وہ دنیا بھر میں کانفرنس اور میٹنگ میں شرکت کر کے اپنی کامیابیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ شرکاء ان کے پیشکردہ نتائج سے مسحور تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیلے فورنیا میں مئی 1992 میں جب وہ بتا رہے تھے کہ جوہانسبرگ میں نوے فیصد سے زیادہ خواتین میگاڈوز ریجیمن کی مدد سے مکمل ریسپانس حاصل کر چکی ہیں تو آنے والی مبارک بادوں اور سوالات کا سلسلہ نہ ختم ہونے والا تھا۔ ایسے نتائج امریکہ کے اکیڈمک سنٹرز کو گہنا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزووڈا نے کینسر کی سالانہ میٹنگ میں مئی 1999 میں شرکت کی۔ ان کے چہرے ایک پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی جب اعتماد سے اٹھ کر سٹیج پر پہنچے۔ ان کی پہلی ہی سلائیڈ نے سامعین پر جادو کر دیا تھا۔ مکمل خاموشی تھی۔ وٹ واٹرزرینڈ ہسپتال میں زبردست نتائج تھے۔ ساڑھے آٹھ سال پہلے ہونے والے علاج کے بعد ساٹھ فیصد خواتین زندہ تھیں۔ جبکہ کنٹرول والی خواتین میں صرف بیس فیصد۔ جن کا علاج بزووڈا رجیمن سے کیا گیا تھا، اس میں سات سال کے بعد کوئی مزید موت نہیں تھی۔ یعنی نہ صرف یہ خواتین زندہ تھیں بلکہ امکان یہی تھا کہ ان میں بیماری جڑ سے اکھاڑ دی گئی تھی۔ کمال ہو گیا تھا۔ ہال میں تالیاں تھیں، مبارکباد اور داد دی جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بزووڈا کی کامیابی کچھ عجیب تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کے نتائج شاندار تھے لیکن تین دوسرے ٹرائل کے نتائج اسی روز پیش کئے گئے۔ اور یہ تینوں مثبت نہیں تھے۔
اگرچہ ولیم پیٹرز کا ڈیوک کا ٹرائل مطلوبہ تعداد میں رضاکار نہ ملنے کی وجہ سے مکمل نہیں ہوا تھا لیکن اس وقت تک کے نتائج تاریک تھے۔
فلاڈیلفیا کا ٹرائل اس سے بھی برا نتیجہ دکھا رہا تھا۔ معمولی سی بہتری بھی نہیں تھی۔ سویڈن میں ڈیزائن کردہ ٹرائل بہت پیچیدہ اور الجھا ہوا تھا لیکن اس میں بھی ناکامی ہی دکھائی دے رہی تھی۔
تو پھر اب کیا کیا جائے؟ اتنے برسوں میں پتا کیا لگا؟ تحقیق بتا کیا رہی ہے؟ اس کا پتا کیسے لگایا جائے؟
شرکاء میں بحث چھڑ گئی۔ ایک دوسرے پر تنقید اور نکتہ چینی کی جا رہی تھی۔ اس روز کہیں پر کوئی نئے دوست نہیں بنے، کچھ بھی حل نہیں ہوا۔ “جو لوگ ٹرانسپلانٹ کرتے رہے ہیں، وہ کرتے رہیں گے۔ جو نہیں کرتے رہے، وہ نہیں کریں گے”۔ لیری نورٹن نے اس کا نتیجہ صحافیوں کو مختصراً بتا دیا۔ یہ کانفرنس ایک ناکامی تھی۔ جب سامعین ایٹلانٹا کے بڑے ہال سے اس روز باہر نکلے تو رات ہو چکی تھی۔
اٹلانٹا میں اونکولوجسٹ اس لئے آئے تھے کہ انہیں اپنے شعبے کی سمت کا معلوم ہو گا۔ انہیں صرف کنفیوژن ملی تھی۔
بزووڈا کی اگلے روز واپسی کی پرواز تھی۔ انہیں شاید خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کے پیشکردہ ڈیٹا کے اثرات کتنے بڑے ہوں گے۔ کینسر تھراپی کی پوری تھیوری اب ان کے ڈیٹا پر قائم تھی۔ اور چار ارب ڈالر کی انڈسٹری بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دسمبر 1999 کو امریکی محققین کی ٹیم نے بزووڈا کو لکھا کہ وہ جنوبی افریقہ میں ان کے ہسپتال میں آ کر خود ڈیٹا کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے ہسپتال میں ایسا کیا ہو رہا ہے جو سیکھا جا سکتا ہے اور اسے امریکہ میں لایا جا سکتا ہے۔
بزووڈا نے حامی بھر لی۔ اس دورے کے پہلے روز جب ٹیم نے سٹڈی میں شامل 154 مریضوں کے ریکارڈ اور لاگ بک مانگی تو انہیں صرف 58 کی ملی اور اس میں کنٹرول آرم والی ایک بھی نہیں تھی۔ جب ٹیم نے کنٹرول کے گروپ والی مانگی تو بزووڈا نے کہا کہ وہ ریکارڈ گم ہو گیا ہے۔
ٹیم کے لئے یہ حیران کن تھا۔ انہوں نے ڈیٹا کو کنگھالا تو عجیب تصویر ابھرنے لگی۔ ریکارڈ ٹھیک نہیں رکھے گئے تھے۔ ایک صفحے کے نوٹ پر ہاتھ سے کچھ لکھ دیا گیا تھا جو چھ یا آٹھ مہینے کا خلاصہ تھا۔ ٹرائل میں شرکت کا معیار ریکارڈ میں نہیں تھا۔ مریضوں کی رضامندی کا ریکارڈ نہیں تھا۔ ہسپتال کے ریویو بورڈ کے پاس ریکارڈ کی کاپی نہیں تھی۔ کسی نے پروسیجر کی منظوری نہیں دی تھی اور نہ ہی معلوم تھا کہ یہاں ٹرائل ہو رہا ہے۔ کئی مریض جن کو “زندہ” شمار کیا جا رہا تھا، ان کا بہت عرصے سے کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں پر ہیں۔ ایک خاتون کا ریکارڈ ہی نہیں تھا کہ کیا ادویات دی گئیں۔ ایک اور خاتون کا ریکارڈ جب کنگھالا تو وہ خاتون ہی نہیں تھیں، ایک حضرت تھے اور ان کو چھاتی کا کینسر ہی نہیں تھا۔
تمام چیز ایک فراڈ تھی۔ اٹلانٹا میں جس ڈیٹا نے حاضرین کو دم بخود کر دیا تھا، وہ اصل نہیں تھا۔ فروری 2000 میں ورنر بزووڈا نے اپنے ساتھیوں کے لئے ایک مختصر نوٹ لکھا جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ انہوں نے سٹڈی کا کچھ حصہ غلط ہے۔ “میں نے سائنسی دیانتداری اور ایمانداری کی پاسداری نہیں کی”۔ انہوں نے یونیورسٹی کی پوزیشن سے استعفیٰ دیا۔ انٹرویو دینا بند کر دئے۔ فون نمبر بند ہو گیا۔ ورنر بزووڈا منظرِعام سے غائب ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنر بزووڈا کا یہ قصہ میگاڈوز تھراپی کے لئے مہلک رہا۔ سٹیمپ کا آخری ٹرائل 1999 میں شروع کیا گیا تھا۔ چار سال بعد اس کا جواب واضح تھا۔ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا۔ ہائی ڈوز تھراپی کے گروپ میں پانچ سو خواتین میں سے نو کا انتقال ٹرانسپلانٹ میں ہونے والی پیچیدگیوں سے ہوا۔ مزید نو کا انتقال جارحانہ علاج کے نتیجہ میں ہونے والی مائیلوائیڈ لیوکیمیا سے جو اصل بیماری سے کہیں زیادہ بری تھی۔
میگاڈوز تھراپی کا رومانس اس سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ یہ اس کے تابوت پر لگنے والا آخری کیل تھا۔ اس کے ساتھ چھاتی کے کینسر کے علاج کے لئے گودے کے ٹرانسپلانٹ کا دور ختم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ وقت ہے جب 1995 میں “فرنٹ لائن سے نظارہ” کے عنوان سے جینکس نے کینسر پر مضمون لکھا ہے۔ (ان کا انتقال اسی برس جولائی میں ہوا)۔
“میرے لئے کینسر کا تجربہ ویسے رہا ہے جیسے مسافر طیارے میں سفر کر رہے ہوں اور اچانک آپ کو جگا دیا جائے پیراشوٹ لگا کر بغیر نقشے کے پھینک دیا جائے”۔
اے مستقبل کے مریض! آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ زندگی کے سفر کے دوران اچانک فرش پر بڑا سا سوراخ نمودار ہو جائے گا۔ آپ سوال کریں گے کہ آخر میرے ساتھ ہی کیوں؟ سفید کوٹ میں لوگ نمودار ہوں گے۔ آپ کے ساتھ پیراشوٹ باندھ دیں گے۔ آپ کے پاس سوچنے کا وقت نہیں ہو گا اور آپ جہاز سے باہر ہوں گے۔
آپ نیچے اتر جائیں گے۔ زمین آ جائے گی۔ لیکن نہ کوئی سڑک، نہ کوئی سمت، نہ کوئی نقشہ، نہ کوئی تربیت۔ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں؟ آپ کو کچھ معلوم نہیں ہو گا۔
سفید کوٹ آپ سے بہت دور ہوں گے۔ یہ دوسروں پر پیراشوٹ باندھ رہے ہوں گے۔ کبھی آپ کو دیکھ کر ہاتھ ہلا دیں گے۔ لیکن اگر آپ ان سے سوال کریں گے تو ان کو بھی اس کے جواب معلوم نہیں ہوں گے۔ وہ جمبو جیٹ میں ہوں گے۔ پیراشوٹ کے ساتھ مصروف، نہ کہ نقشہ بنانے میں”۔
جینکس کی تصویر کشی اس دور کی تنہائی اور مایوسی کا نقشہ کھینچتی ہے۔ اونکولوجسٹ نئے سے نئے پیراشوٹ ایجاد کر رہے تھے لیکن مریضوں اور ڈاکٹروں کے لئے نقشہ نہیں تھا۔
کیا کرنا ہے اور کیا نہیں؟ کیا ہو گا؟ توقع کیا رکھی جائے؟
کیا کینسر کے خلاف جنگ میں شکست ہو چکی تھی؟ یہ سوال تلاش کرنے کا کام جان بیلار کر رہے تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply