مہرباں کیسے کیسے؟۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

میری تحاریر پڑھنے والے قارئین کو احساس ہو چلا ہوگا کہ میں نے سیاسی معاملات بارے لکھنے سے حتٰی الوسع گریز کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ ایسا کیے جانے کی بڑی وجہ ملک میں بہتری کے امکانات سے متعلق ازحد مایوسی ہے۔ ایسا سوچنے کا سبب طرح طرح کے افراد سے ملنا ہے جو ہونے کو جیسے بھی ہیں مگر مجھ سے بہت سا سچ نہیں چھپاتے، یہ ان کی مہربانی بھی ہے اور تعلقات کی گہرائی اور گیرائی کا نتیجہ بھی۔
دو سال پہلے آج کے روز میں سندھ میں تھا جہاں میں اپنے ایک دوست جو ایک زمانے میں پارٹی کے، یاد رہے پارٹی ان دنوں پابندی کے سبب اور آج جبلت بن چکی عادت کے تحت کمیونسٹ پارٹی کو کہا جاتا تھا اور کہتے ہیں، کل وقتی کارکن تھے مگر آج بہت خوشحال ہیں، کے فرزند کے بیاہ میں شرکت کی خاطر پہنچا تھا۔ اتفاق ہے کہ کئی ملکوں سے اور پرانے دوست بھی پہنچے ہوئے تھے۔ میزبان دوست نے جو باوجوود رائج طرائق سے دولت کمانے میں ملوث ہونے کے، دل کی گہرائی سے چاہتا ہے کہ نظام بدلے، مگر چونکہ نظام بدل کے نہیں دیتا اور پارٹی رہی نہیں چنانچہ اس نے نظام کے مطابق زندگی بتانے کی راہ و روش اپنائی ہوئی ہے۔ اس کے مطابق کام نکلوانے کی خاطر بااثر اور مقتدر سیاست دانوں کی مدد لینی ہوتی ہے یوں ان کو پتی بھی دینی پڑتی ہے جو کبھی لاکھوں میں تو کبھی کروڑوں روپوں تک میں ہوتی ہے۔ میرے دوست جانتے ہیں کہ یہ استحصال ہے مگر استحصالی نظام میں خوشحال رہنے کی خاطر استحصالی نظام کا حصہ بننا پڑتا ہے بصورت دیگر بدحالی گھر میں ڈیرے ڈالے رکھتی ہے۔
خیر بحث کے دوران اس نتیجے پر پہنچے کہ چاہے سیاستدان ہوں یا سیاسدانوں پر حاوی غیر سیاسی سربرآوردگان، چاہے سرکاری افسران ہوں یا سرکاری عمال، سرکاری ذرائع سے کمانے کی غرض سے ان سب کو ان کا حصہ دینا پڑتا ہے۔ یہ بدعنوانی کی بھیانک ترین شکل ہے جس میں دولت چند لاکھ لوگوں کے درمیان بنٹتی رہتی ہے۔ انفراسٹرکچر ہو یا قومی سلامتی کے معاملات، بیرون ممالک تجارت ہو یا کوئی بھی اور ایسا کام جس میں سرکار ملوث ہو جو ہر جگہ ہوتی ہے، ان سب کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے یا ان کو آدھا ادھورا سرانجام دیا جاتا ہے یعنی خوبصورت بنگلے، ایرکنڈیشنڈ کار اور جمع شدہ دولت سے باہر جو بھی گند ہے، ان لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ عوام کی بھلائی سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ عوام کی بھلائی کا ڈرامہ اقتدار کے حصول کی خاطر رچایا جاتا ہے اور بس۔
ان دنوں کے دو بڑے واقعات جن میں ایک امراض قلب کے ادارے پر وکلاء کا دھاوا اور ڈاکٹروں کا ترکی بہ ترکی جواب تھا، دوسرا اسلام آباد کی اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی میں طلباء کے دو گروہوں کے درمیان تصادم جس میں نوجوان مرے بھی، معاشرے کے ابتذال کا منہ بولتا ثبوت رہے تھے۔ یقین جانیے خانہ جنگی کی ابتدا اسی طرح دھڑے بندی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے نام پر دست و گریباں ہونے سے ہوا کرتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہر ایسے واقعے میں ملوث اندرونی ہاتھ کو ہمیشہ ہی بیرونی ہاتھ کا ملوث ہونا قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور تو اور ایک مبینہ طور پر داغدار سابق پولیس افسر پر اگر انسانی حقوق کی پامالی کے سبب امریکہ پابندی لگاتا ہے تو وہ اسے دھڑلے سے بین الاقوامی سازش قرار دے ڈالتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ لوگ میری طرح مایوس ہوں۔ بہت سے ایسے ہیں جو بیرون ملک اپنی آسائشیں چھوڑ کر یا تو وطن میں آ بسے ہیں یا یہاں کسی نوع کا فلاحی کام کرنے کی خاطر طویل قیام کرتے ہیں اور پھر لوٹ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صاحب ترک مکانی چھوڑ کر یہاں آ بسے اور سندھی زبان میں لکھی کتابوں کو ڈیجیٹلائز کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ سندھی کے علاوہ اردو انگریزی اور دیگر مقامی زبانوں کو بھی ڈیجیٹل کرکے وہ نہ صرف انہیں مستقبل کے لیے محفوظ کر رہے ہیں بلکہ انہیں سنجیدہ کتابیں پڑھنے والوں تک بھی پہنچا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ایک مقام پر ہر ہفتے کوئی ڈاکومنٹری فلم دکھائے جانے کا اہتمام کرتے ہیں جس سے متعلق بعد میں بحث مباحثہ کیا جاتا ہے۔ مذکورہ کتابیں اور دستاویزی فلمیں متنوع موضوعات اور مختلف نقطہ ہائے نگاہ رکھنے والوں کی لکھی اور بنائی ہوئی ہوتی ہیں۔ مقصد محض علم پھیلانا، سوال کرنے کی جراءت کو ابھارنا اور باعلم لوگوں میں ربط پیدا کرنے کی سعی ہے۔
ایک دوسرے صاحب بھی اپنی باوقار ملازمت اور آسائش کو تج کر لوٹ آئےہیں اور دلچسپ و مہم جویانہ زندگی بسر کر چکے معمر افراد کی زندگیوں کی کہانیوں کو ان کی زبانی وڈیو پر منتقل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے کو سب لوازمات جو خاصے گراں قیمت ہیں وہ اپنی جیب سے خرید کرتے ہیں۔ ایسا ہی کام وڈیو کی بجائے آڈیو پر منتقل کرنے کا کام ہری پور کے فعال سماجی اور علمی کارکن زاہد کاظمی بھی سرانجام دے رہے ہیں۔
ہمارے ایک اور دوست جو دو عشرہ قبل شمالی امریکہ کے ایک ملک میں‌نقل مکانی کر گئے تھے اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبے سے وابستہ تھے اپنے وطن میں بھی اور باہر جانے کے بعد بھی انہیں ریاٹئرمنٹ سے سات برس پیشتر ڈاکٹروں نے بتا دیا کہ وہ نسیاں کی مرض میں مبتلا ہونے کو ہیں۔ ان کے مطابق وہ انتہائی یاسیت کا شکار ہو گئے کہ لو جی زندگی تمام۔ کام سے انہیں فارغ کر دیا گیا البتہ تنخواہ پنشن کی عمر تک پہنچنے تک دی جاتی رہی۔ ڈرائیونگ کرنے سے منع کر دیا گیا۔ انہوں نے اس اثناء میں علم الکونیات پڑھنا شروع کر دیا اور وہیں جہاں رہتے تھے کچھ سمجھدار دوستوں کو اس موضوع پر بحث کرنے کی خاطر کچھ سوال دیے۔ بحث بہت بھرپور رہی، بقول ان کے وہ پھر سے جی اٹھے اور انہوں نے کائنات بارے بنی معروف قسط وار فلم کوسموس کو سندھی میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا پھر اس کی ڈبنگ کروا لی۔ پنشن کی عمر کو پہنچے تو انہیں غدود پراسٹیٹ کا سرطان تشخٰص کر دیا گیا۔ انہوں نے غدود مکمل طور پر نکلوا دیا۔ اپنی فلموں سمیت وطن کا رخ کیا۔ مقصد نوجوانوں کو سائنس کی جانب راغب کرنے کا رکھا۔ یوں وہ گذشتہ تین سال سے سال میں چھ ماہ پاکستان میں رہ کر سندھ کے مختلف شہروں اور قصبوں کے سکولوں اور کالجوں میں نویں ، دسویں اور گیارہویں، بارہوں کے طلباء کو یہ دستاویزی فلم دکھاتے ہیں اور انہیں سائنس پڑھنے اور سائنس کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی اس حوالے سے مذہبی یا سیاسی سوال کرتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ایسے سوال کا جواب یا کسی عالم دین سے لیں یا کسی سیاتدان سے، مجھ سے صرف سائنس سے متعلق سوال کریں۔ وہ زندگی کے عام معاملات سے بے نیاز ہو چکے ہیں اور بقول ان کے اب وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گذار رہے ہیں۔
ایسے لوگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم نے اپنے عہد جوانی میں حتی الوسع جہد کی تھی کہ ملک میں نظام بدلے اور لوگوں کے حالات بدلیں۔ ایسا نہ ہو سکا مگر ہم یہ اب بھی چاہتے ہیں کہ لوگوں کو سوچنے کی نہج پر ڈالنے کے ضمن میں جو کچھ ہم کر سکتے ہیں اور جتنا کر سکتے ہیں، کم از کم وہ کرتے جائیں۔ زندگی نے ختم تو ہونا ہی ہے، مرتے دم مطمئن تو ہوں۔
مجھ میں ابھی نہ اتنی ہمت ہے اور نہ اتنی سکت، ایسے دوستوں کو دیکھ کر زقند بھرنے کی سوچتا ہوں مگر ماحول کی کیچڑ سے پاؤں نکل ہی نہیں پا رہے۔ البتہ یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ سب کے بھلے کی خاطر آپ سب جو اور جیسا کر سکتے ہیں وہ ضرور کیجیے گا تاکہ سب بھلے کی خاطر سوچیں اور اگر ممکن ہو کریں بھی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply