وہ چنگ چی موٹر سائیکل رکشے سے جانب جنوب دو رویہ سڑک چک شہانہ روڈ کے بائیں طرف اتر جاتا ہے۔ سائیڈ والی جیب سے وہ پرانا سا پرس نکالتا ہے اور سو روپے کا ایک نوٹ رکشے والے کو دے کر رخصت کرتا ہے۔ اور بائیں طرف مشرقی سمت میں بنی ایک کوٹھی کی طرف چل پڑتا ہے۔
یہ بارہ کنال رقبے پہ محیط کوٹھی ہے – اس کے مرکزی گیٹ کے دائیں طرف مالک کے سیکورٹی گارڈز کی چوکی بنی ہوئی ہے – بائیں طرف ایک 12×10 کا ایک پختہ کمرہ ہے جس میں ایک میز اور درجن بھر کُرسیاں بچھی ہوئی ہیں – مرکزی گیٹ کے ساتھ ایک چھوٹا گیٹ ہے جس کے سامنے بھی دو گارڈ کھڑے ہیں اور وہ اندر جانے والے ہر “عام آدمی” کی تلاشی لیتے ہیں – لیکن بڑی گاڑیوں کے لیے مرکزی دروازہ فوراً کھول دیتے ہیں اور جب گاڑی قریب سے گزرتی ہے تو ایڑی بجاکر ہاتھ ماتھے تک لیجاکر سیلوٹ مارتے ہیں – آگے گاڑی کی پچھلی نشست پہ بیٹھا “صاحب چاہے تو سر کی جنبش سے واپس جواب دے یا اُس کا پہلے سے سپاٹ اور بے تاثر چہرہ اور گھمبیر ہوجائے اور گارڈ گھبرا کر اُس سے نظریں ہی نہ ملائے- اس نے منہ پہ ماسک لگایا ہوا ہے اور وہ گارڈ سے چند قدم کے فاصلے پہ ہی ماسک کچھ دیر کے لیے ہٹاتا ہے تاکہ گارڈ کی نظر اس پہ پڑجائے۔ گارڈ اسے دیکھ لیتا ہے اور بڑا گیٹ کھولنے جاتا ہے لیکن وہ اسے روک دیتا ہے اور بغل والے گیٹ سے بنا جامہ تلاشی اسے جانے دیتا ہے۔
سائیڈ گیٹ سے داخل ہوں تو سامنے پچاس قدموں پہ ایک پورج ہے جہاں عام دنوں میں مالکان کی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں، لیکن اب اُس پورج میں سامنے دیوار پہ اس گھر کے مالک کی تصویر کے ساتھ بڑا سا پینا فلیکس لگا ہوا ہے- مالک شاید کوئی الیکشن لڑ رہا ہے کیونکہ وہ پینا فلیکس ایک پارٹی کے جھنڈے کے رنگوں سے بنا ہے اور پینا فلیکس میں ٹاپ پہ درمیان میں اُس پارٹی کی مرحوم اور زندہ قیادت کی تصویریں لگی ہوئی ہیں – پینا فلیکس دیوار پہ آویزاں ہے جس کے آگے کرسیاں لگی ہوئی ہیں جو کسی کیٹرنگ سروس سے کرائے پہ لی گئی معلوم ہوتی ہیں اور اُن کرسیوں کے آگے ایک میمو بُک، رجسٹر اور ساتھ کچھ پمفلٹ، اسٹکیرز اور اُس پارٹی کے جھنڈے پڑے ہوئے ہیں – دو نوجوان ان کرسیوں میں سے دو پہ بیٹھے ہیں اور میمو بُک سے پرچیاں کاٹ کر وہاں اُن کے گرد کھڑے لوگوں کو دے رہے ہیں – جب وہ پورج کے کنارے پہنچا تو اُس کے کان میں آواز پڑی
” تین نہیں دس لٹر کی پرچی دیں”
ڈریس پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک لڑکا کہتا ہے
‘ تین لٹر سے زیادہ کی پرچی کی اجازت نہیں ہے” اُسی دوران ایک بڑی کار کا ڈرائیور آتا ہے اور اُس کی شکل دیکھ کر وہ لڑکا پرچی کاٹ کر اُسے دیتا ہے جس پہ اس کے ساتھ کھڑے مزدور آدمی کی نظر پڑتی ہے تو وہ پھٹ پڑتا ہے
” گاڑی والا ہے تو 100 لٹر اور موٹر سائیکل یا مہران والا ہے تو بس 3 لٹر تیل”
وہ یہ سب سُنتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے اور کیا دیکھتا ہے کہ پورج کے بائیں جانب ایک گھاس کا قطعہ ہے جس میں سردست کھانے کی میزیں لگائی جارہی ہیں ، چکن آلو کا شوربہ اور ٹھنڈے نان کے لفافے دستر خوان پہ موجود ہیں – پورج کے دائیں طرف سیڑھیاں اوپر جارہی ہیں، سیڑھیوں کے آخر میں زینہ ہے اور زینے کے آخر میں بائیں طرف ایک کلیجی رنگ کا لکڑی کا دو پلڑوں والا دروازہ ہے جو بند پڑا ہے۔ زینے پر ایک کرسی پہ سادہ لباس میں ایک شخص بیٹھا ہے جس کے چہرے پہ گھنی سیاہ داڑھی ہے، چہرے پہ قساوت اور سختی کا تاثر ہے- اس نے ہاتھوں میں ایک بندوق تھام رکھی ہے اور وہ بہت چوکنا نظر آتا ہے۔ ابھی وہ پہلی سیڑھی سے نیچے کھڑا کچھ سوچ رہا ہوتا ہے کہ پورج کے ساتھ بنی روش سے ایک نوجوان لڑکا چلتا ہوا نظر آتا ہے- لڑکے کی چال تھوڑی سی زنانہ سی ہے۔ وہ چلتا ہوا کولہے مٹکا کر چل رہا ہے اور چہرے پہ تھوڑی سی شیو بڑھی ہوئی ہے لیکن چہرے پہ نسوانیت ہے۔ لڑکا بھی اسے دیکھ لیتا ہے اور تیزی سے اس کی طرف آتا ہے اور اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا ہے،
“میں الف ح ہوں ،مالک کا بھتیجا ، آئیے ، اوپر کمرے میں “نواب” آپ کے منتظر ہیں- کافی دیر سے آپ کو یاد کیا جارہا ہے۔”
یہ کہہ کر الف ح مستانی چال سے سیڑھیاں چڑھتا چلا جاتا ہے اور وہ اس کے پیچھے آہستہ آہستہ سڑھیاں چڑھتا اور اس کی مستانی چال کو پیچھے سے دیکھتا ہوا اپنی دل کی دھڑکنیں سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی طرف مت دیکھے۔ پہلے الف ح دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا ہے پھر وہ داخل ہوتا ہے۔ اندر سامنے صوفے پہ ایک شخص تھری پیس سوٹ میں ملبوس بیٹھا ہے۔ سرخ و سپید چہرہ ہے۔ آنکھیں قدرے چھوٹی ہیں۔ لب پتلے، ہونٹ تھوڑے سے موٹے ہیں- ناک ستواں ہے۔ بال پیچھے کو سنوارے ہوئے ہیں۔ دائیں ہاتھ میں اس نے ایک سگار پکڑا ہوا ہے جو اب بس ایک چوتھائی رہ گیا ہے۔ اس کے ساتھ صوفے پہ کوئی اور نہیں بیٹھا۔ صوفے کے ساتھ دو کرسیاں پڑی ہیں- اور پھر ایک کنگ سائز ڈبل بیڈ ہے۔ صوفے کے سامنے بڑی میز پڑی ہے جس پہ پیزے کے خالی ڈبے، چکن بروسٹ کی ہڈیاں ایک پلیٹ میں پڑی ہیں۔ اور اس میز کے آگے ایک قطار میں کئی کرسیاں لگی ہوئی ہیں جن پہ کئی جانے پہچانے چہرے براجمان ہیں جو ایک سیاسی جماعت کے بڑے عہدے دار ہیں۔ صوفے پہ بیٹھا نواب ایک نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا کچھ نہیں ۔ اس صوفے کے بائیں سمت لگی کرسیوں میں سے ایک پر اس پارٹی کے سینئر ترین آدمی بیٹھے ہیں جن کا تعلق سابق بہاولپور ریاست کے ایک ضلع سے ہے وہ اسے ویلکم کہتے ہوئے مخاطب کرتے ہیں،
” آئیں جناب اور نواب صاحب کو بریف کریں ،میڈیا کیسے مینج کرنا ہے؟”
ابھی سینئر ترین پارٹی لیڈر کی بات مکمل ہوئی تھی کہ نواب بول پڑا
” ہمیں میڈیا مینج کرنا آتا ہے۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کے مالکان کو ہم ہڈیاں اور چھیچھڑے ڈالتے رہتے ہیں۔ تم چونکہ مقامی میڈیا سے اٹیچ ہو تو ہم تمہیں اکاموڈیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ چھے قومی اخبارات کے بیک پیج پہ کوارٹر پیج اشہتار کتنے میں لگ جائے گا؟”
نواب کی بات سن کر اس کے اندر غصّے کی ایک لہر اٹھنے لگتی ہے لیکن پارٹی کا سینئر رہنما اور ایک قائم مقام صوبائی صدر اسے آنکھ کے اشارے سے ٹھنڈا رہنے کو کہتے ہیں۔ وہ شانت ہوجاتا ہے اور تفصیل بتاتا ہوا آخر میں کہتا ہے،
“چھے لاکھ دس ہزار میں پانچ قومی اخبارات کے بیک پیج پہ کوارٹر اشتہار لگ جائے گا۔”
نواب یہ سن کر اپنے پاؤں میں رکھا ایک ہینڈ بیگ اٹھاتا ہے اور اسے کھولتا ہے اور اس میں سے پانچ ہزار روپے کے نوٹوں والی ایک گڈی سے نوٹ گنتا اور اس کو پکڑاتا ہے اور کہتا ہے اسے گن لو- وہ نوٹ گننے لگتا ہے اور گننے کے دوران اسے ایک نوٹ کا مغالطہ لگتا ہے تو نواب کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے
” بیچارے نے کبھی اتنے پیسے دیکھے نہیں، اس لیے نوٹ گنے نہیں جارہے”
اس کو پھر طیش آنے لگتا ہے۔ اس دوران ایک بار پھر وہی سینئر رہنما اسے شانت رہنے کو کہتا ہے۔ مگر وہ دیکھتا ہے نواب کے طنز پہ وہاں بیٹھے اکثر لوگوں کے چہرے پہ ظنز صاف نظر آتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں نواب کو برا بھلا کہتا ہے۔
جب وہ نوٹ گن کر اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ کر واپس جانے کو مڑنے لگتا ہے تو اسے نواب کی آواز سنائی دیتی ہے،
” آپ نے جو پرپوزل سوشل میڈیا اور میڈیا پروجیکشن کی بھیجی تھی میں نے وہ منظور کرلی ہے جتنا بجٹ تم نے مانگا تھا میں نے 50 ہزار زائد دیا، کیا تمہیں مل گیا ہے؟”
وہ حیرانی سے “نواب” کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے،
No, I didn’t receive even a single penny. Mr. HQ handed over Rs.25000 to me while asking me that he had managed himself from his own pocket and proposal was rejected.
یہ سن کر نواب ذرا فاصلے پہ بیٹھے ایچ کیو کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے اور ابھی کچھ بولنے والا ہوتا ہے کہ اتنے میں دروازہ کھلتا ہے اور ملک کے سابق وزیراعظم کا بیٹا ح گ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اندر داخل ہوتا ہے – وہ بے تکلفی سے سب سے سلام دعا لیتا ہے اور نواب کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا پولنگ ڈے کے لیے تمام پولنگ اسٹیشن کے لیے لاجسٹک، ایجنٹ وغیرہ کا کام مکمل ہوگیا ہے؟
” ساری یونین کونسلوں کا معاملہ نمٹ گیا ہے۔ ایک نمبر یونین کونسل رہ گئی ہے اور اب تک اس کی کوئی تفصیل پتا نہیں چلی”
نواب کے لہجے میں سختی اور غصّہ نظر آتا ہے جب وہ یہ بات ح گ کو بتاتا ہے۔
“یونین کونسل ایک کا فوکل پرسن کون ہے؟”
پارٹی کا سینئر لیڈر بولتا ہے ،ایچ کیو
ح گ ایچ کیو کی طرف دیکھتا ہے۔ ایچ کیو ح گ کو کہتا ہے
“میں نے سب انتظامات مکمل کرلیے ہیں – 65 افراد ایجنٹ اور موبلائزر ہیں انھیں اعزازیہ دینا ہے اور ۔۔۔۔۔۔ گاڑیاں اور رکشے درکار ہیں”
ايج کیو یہ بات ح گ کی طرف چہرہ کرکے بتارہا ہوتا ہے کہ نواب کی چیختی ہوئی آواز سنائی دیتی
اوئے تو ایٹی ٹیوڈ کس کو دکھا رہا ہے ب چ ، دل ۔۔۔۔ سن آف دا سوائن بچ ۔۔۔۔
سب نواب کی طرف دیکھتے ہیں جو گالیاں نکالتا ہوا کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے، ح گ اسے کھڑا ہونے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے
Please, don’t talk in such manner, be calm,
نواب کی آواز اور بلند ہوجاتی ہے،
“میں کافی دن سے برداشت کررہا ہوں۔ مگر یہ ب چ سمجھ ہی نہیں رہا، اس کی اوقات اچھے سے جانتا ہو۔ دل۔۔۔ کسی گشتی ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایٹی ٹیوڈ دکھاتا ہے۔۔۔۔۔ میڈیا کے نام پہ تین لاکھ روپے کھاگیا ہے۔۔۔۔ کنگلا ۔۔۔۔۔ الف ح سے 50 ہزار روپے لے گیا۔۔۔۔ اب پولنگ ڈے کے اخراجات کے نام پہ پیسے کھانا چاہتا ہے۔۔۔۔ اس سالے کو “بڑے صاحب” نے کہا کہ الیکشن لڑو۔۔۔ پھٹ گئی تھی اس کی ۔۔۔۔۔ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔۔۔۔ اسے اب جب پتا چلا کہ اتنا بجٹ پارٹی نے رکھ دیا ہے تو اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں ۔۔۔۔ یہ سارا بجٹ کھا جاتا۔۔۔۔۔ میں دیکھتا ہوں آج پیروں پہ کیسے واپس جاتا ہے۔”
نواب دوبارہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے، ح گ اسے دوبارہ پکڑ کر بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس دوران ایچ کیو کے چہرے پہ بے پناہ بے بسی کے اثار نظر آتے ہیں ، وہ گالیاں سن کر جواب میں کپکپاتی آواز میں بس یہی کہتا ہے،
“Shut up your mouth, you have exposed yourself , are you called yourself “Nawab & Khan-i-Khanan”…. It is farce….
نواب یہ سب سن کر اور طیش میں آکر مغلظات بکنے لگتا ہے اور بار بار اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اتنے میں وہاں پہ بیٹھے کچھ لوگ ایچ کیو کو اٹھاکر کمرے سے باہر لیجاتے ہیں ۔ اس کے باہر نکلتے ہی نواب ایک دم سے بیگ سے پسٹل نکال لیتا ہے اور باہر جانے کو لپکتا ہے ، اس سے پسٹل ایک دوسرے شہر کا پارٹی کا جنرل سیکرٹری چھین کر اپنی انٹ میں لگا لیتا ہے۔ ح گ کہتا ہے کہ وہ یوسی ون بارے معاملہ طے کرکے نواب کو بتادے گا۔
نواب تھوڑی دیر بعد کمرے میں بیٹھے لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے اور پھر نخوت سے کہتا ہے کہ
“We Can manage votes through massive funds, we have made a successful experiement in that……… and in two UCs of this constituency we shall win as I have managed votes in two UCs, we can uplift the party through wonderful feasibility. Bara Sahib (Big Boss) have delegated all powers to me. I shall report against the said Bastard….”
“وہاں اگر ہم کسی معزز اور امیر آدمی کو ٹکٹ دے دیتے یا کم از کم ایسا شخص ہوتا جو مقابلے میں موجود امیدوار کی طرح کس نوبل فیملی سے تعلق رکھتا ہوتا تو ہم نے وہ سیٹ نکال لینی تھی۔ ہمارا امیدوار ہی اصل میں “ٹٹو” تھا۔”
وہ یہ سب سن کر حیران رہ گیا تھا۔ اس کے دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ نواب جسے ٹٹو کہہ رہا تھا وہ تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں شاہی قلعے کی جیل کاٹتا رہا اور ملٹری کورٹ سے کوڑوں کی سزا کے بعد پیٹھ پہ کوڑے کھا کر آیا تھا۔ اس نے تو 42 سال اپنے صوبے میں اپوزیشن بھگتی تھی اور کسی لالچ ، دھونس دھمکی کی پرواہ نہ کی – وہ چاہتا تو حریف پارٹی میں جاکر ارب پتی بن جاتا لیکن وہ بس ایک سفید پوش طبقے کا سیاسی کارکن رہا ۔ کیا یہ ساری جدوجہد اسے “معزز، نوبل، اشراف” نہیں بناسکی تھی؟ کیا اسے پارٹی ٹکٹ دینا کوئی احسان تھا؟
اس کے ذہن میں رہ رہ کر یہ سوال اٹھ رہا تھا، یہ نواب کون ہے؟ اس کے کریڈٹ پہ کیا بات دھری ہے؟ یہ کبھی جیل گیا؟ اس نے کب اس پارٹی کو جوائن کیا تھا؟ آخر اس پارٹی کے اتنے سینئر اور تجربہ کار لوگوں کی موجودگی میں اسے کس بل بوتے پہ صوبے میں الیکشن منیجمنٹ کا سربراہ مقرر کردیا گیا تھا؟ کیا صرف اس لیے کہ اس کی دولت کا کوئی شمار نہیں تھا؟
پس نوشت: الیکشن ہوچکا تھا ۔ نتائج آچکے تھے۔ سوشل میڈیا پہ پارٹی امیدوار کے بنے پیج پہ ایک تصویر اپ لوڈ ہوئی تھی تھی جس میں ایچ کیو یوسی ون کے زرلٹ کے ساتھ امیدوار کے ساتھ کھڑا تھا۔ جبکہ ایچ کیو کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پہ تازہ ترین ٹوئٹ تھا” فلاں حلقے کی یوسی ون جس کی انتخابی ٹیم کا فوکل پرسن میں(ایچ کیو) تھا میں ہمارے امیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ حلقے کی یونین کونسلوں میں وہ دو یونین کونسلیں کون سی تھیں جو “نواب” نے مینج کی تھیں ، جہاں سے ہم نے جیت کر نکلنا تھا؟ ان کا دور دور تک پتا نہ تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں