کینسر (61) ۔ میگاڈوز تھراپی/وہاراامباکر

تیس سالہ مریضہ کو چھاتی کا کینسر تھا۔ تمام روایتی علاج ناکام ہو چکے تھے۔ ان کے لئے کوئی تجرباتی دوا بھی نہیں تھی۔ سٹیمپ میں آنے والی وہ پہلی مریضہ تھیں۔ انہوں نے پیٹرز پروٹوکول کے لئے رضامندی ظاہر کر دی۔

پہلے چند مریض ایسے ہی تھے۔ ان کا کینسر اس قدر سخت جان تھا کہ سٹیمپ ان کے لئے ایک آخری امید تھا۔ بیماری کا مختصر عرصے کے پیچھے ہٹ جانا بھی ان کے لئے کامیابی ہوتا۔
لیکن جب ٹرائل آگے بڑھا تو ایسے مریض آنے لگے جو میگاڈوز تھراپی ابتدا میں ہی کرنا چاہتے تھے۔ 1983 کے موسمِ گرما میں ایسی پہلی خاتون آ گئیں جنہوں نے اس سے پہلے کوئی علاج نہیں کروایا تھا۔ یہ چھتیس سالہ خاتون تھیں جنہوں نے اپنی والدہ کو جارحانہ کینسر کے ہاتھوں شکست کھاتے دیکھا تھا۔ اور وہ اب سب سے جارحانہ علاج کروانا چاہتی تھیں۔
سب کو ان کے کیس میں دلچسپی تھی۔ میگاڈوز تھراپی کے ساتویں روز ان کا پہلا ایکسرے لیا گیا۔ پیٹرز یاد کرتے ہیں، “انتہائی خوبصورت۔ میں نے کینسر کو اتنی جلد اتنا پیچھے ہٹتے نہیں دیکھا تھا”۔
اگلے ایک سال میں ایسے ایکسرے دیکھنے کو ملتے رہے۔ بتیس مریضوں پر فیز ون سٹڈی 1984 میں مکمل ہو گئی۔ یہ “سیفٹی سٹڈی” تھی۔ یعنی یہ طے کر لینا کہ یہ پروسیجر مریضوں کو مار تو نہیں دیتا۔
دو سال بعد ابتدائی ٹرائل مکمل ہو چکے تھے اور فیز تھری ٹرائل درکار تھے۔ گرما گرم بحث کے بعد اس ٹرائل کی منظوری مل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس میں اس میں شرکت کے لئے ویٹنگ لسٹ سینکڑوں خواتین پر مشتمل تھی۔
ٹرانسپلانٹ ایک بڑا بزنس تھا۔ بڑی میڈیسن، بڑا پیسہ، بڑا انفراسٹرکچر اور بڑے خطرات۔ ٹرانسپلانٹ کرنے والے ڈاکٹر اس سٹیج کے ہیرو تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر کنفیوژن تھی۔ اس سب کی قیمت کون ادا کرے گا۔ ایک پروسیجر کی قیمت پچاس ہزار سے چار لاکھ ڈالر کے درمیان تھی۔ انشورنس کمپنیوں نے تجرباتی پروسیجر کی قیمت سے انکار کر دیا۔
ایڈز کے ایکٹوسٹ کی چلائی گئی تحریک کی وجہ میڈیکل کے ماحول پر اثر ڈال چکی تھی۔ مریضوں کے پاس صبر نہیں رہا تھا۔ ایکٹ اپ کی تنظیم نے ادویات کے ریگولیٹر کے لئے سرخ فیتے کا شکار سست بڈھے بیوروکریٹ کی تصویر کشی کی تھی۔ کاہل ادارہ، جو اہم ادویات کو منظور نہیں کرتا تھا۔ اور اس کی کاہلی کی وجہ سے اور اس منظوری کے بغیر ہیلتھ انشورس کے ادارے اس کی قیمت ادا نہیں کرتے۔
جون 1992 کو انشورنس ادارے ہیلتھ نیٹ کے باہر مظاہرین کا مجمع لگا تھا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ہیلتھ نیٹ کینسر کی چھتیس مریضہ نیلین فوکس کی میگاڈوز تھراپی کا سوا دو لاکھ ڈالر کا بل ادا کرے۔ فوکس کے بھائی اس نے اس کے لئے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ فوکس کی تھراپی شروع ہو گئی تھی۔ یہ کیس میڈیا میں اور سیاست میں مرکزِ نگاہ بن چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیلین فوکس خوش قسمت نہیں رہیں۔ بائیس اپریل 1993 کو ان کی وفات اپنے گھر میں ہوئی تھی۔ ان کے تین بچوں کی عمر چار، نو اور گیارہ سال تھی۔ اور اس وقت علاج کا خرچ ادا کرنے کے لئے ان کا کیس عدالت میں زیرِسماعت تھا۔
فوکس کے بھائی نے ٹرانسپلانٹ میں تاخیر کو موت کی وجہ قرار دیا۔ اور ذمہ داری انشورنس کمپنی پر عائد کی۔ اٹھائیس دسمبر کو کیس کا فیصلہ کر دیا گیا اور انشورنس کمپنی کو 89 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا فیصلہ سنایا گیا۔
اور اس سے جو اثرات شروع ہوئے، ان سے صحت کے نظام پر جو گھاوٗ لگے ہیں، وہ گہرے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسی جرائد میں 1993 میں 1177 پیپر میگاڈوز تھراپی کے موضوع پر شائع ہوئے۔ کئی ہسپتالوں میں خاص وارڈ اس کے لئے مختص کر دئے گئے۔
جس طرح میگاڈوز تھراپی اور گودے کا ٹرانسپلانٹ بڑا بزنس بھی بن گیا، اسی طرح اس کے سائنسی تجزیے کا پروٹوکول ختم ہوتا گیا۔ ٹرائل رک گئے۔ ہر کوئی ۔۔ ڈاکٹر، مریض، ہسپتال، متحرک تنظیمیں، انشورنس کمپنیاں ۔۔ یہ چاہتا تھا کہ ٹرائل ہوں۔ لیکن کوئی بھی ان ٹرائل کا حصہ خود نہیں بننا چاہتا تھا۔
امریکہ میں ہونے والے عدالتی اور سیاسی فیصلوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ کلینکل ٹرائل کا انتخاب نہ کرنا بہتر حکمتِ عملی تھی۔
اس اثنا میں 1991 سے 1999 کے درمیان دنیا میں چھاتی کے کینسر کے لئے چالیس ہزار خواتین کا ہڈی کے گودے کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ اس پر دو سے چار ارب ڈالر کا خرچ آیا۔
جبکہ ولیم پیٹرز کے ٹرائل خالی پڑے تھے۔ اور یہ افسوسناک بے ربطگی تھی۔
ایک طرف کینسر ہسپتال بھرے پڑے تھے، جہاں پر چھاتی کے کینسر کے لئے ہائی ڈوز کیموتھراپی دی جا رہی تھی۔ وارڈز میں بستروں پر جگہ نہیں تھی جہاں ٹرانسپلانٹ ہو رہے تھے۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس بات کی پیمائش نہیں ہو رہی تھی کہ یہ کس قدر موثر ہیں۔ یہ کام کلینکل ٹرائل کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔
رابرٹ مائیر نے اس پر تبصرہ کیا ۔۔۔

Transplants, transplants, everywhere
but not a patient to test

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply