کہانی میں ٹوئسٹ۔۔محمد وقاص رشید

کہانی میں ٹوئسٹ۔۔محمد وقاص رشید/(بچ کے۔۔مارکیٹ میں یہ فراڈ کا تازہ ترین طریقہ آیا ہے۔  ملاحظہ فرمائیں میرا اور فراڈیوں کا ٹیلی فونک مکالمہ)
فون بجا ۔03245446219 اس نمبر سے کال آئی۔۔
اسلام علیکم!  ماموں جی پہچانا  ؟
میں!  نہیں بیٹا۔۔۔ ابھی تک نہیں،  کون بول رہے ہو ؟

اجنبی! ماموں مجھے نہیں پہچانا ۔۔۔کمال کرتے ہیں۔  آج آپ کی یاداشت کا امتحان ہے، بھلا بتائیں، میں کون بول رہا ہوں  ؟
میں!  (جناب خرم مشتاق کی پوسٹ کیونکہ پڑھ چکا تھا اس لیے جان گیا کہ یہ فراڈیا ہے کوئی لیکن میں نے اسے گِھسنے کا فیصلہ کر لیا ) ۔بیٹا تیرا ماموں ابھی اتنا بوڑھا نہیں ہوا گدھے کہیں کے۔ نا لائق باپ کے گھامڑ بچے۔  تو مانی ہے ناں  ؟

اجنبی مانی بنتے ہوئے ۔ ہاں ماموں مان گئے آپ کو،کمال آدمی ہیں آپ۔  آئی لو یو ماموں، یو آر گریٹ ۔

میں!  اچھا مکھن نہ لگا نحوست ، بتا کیسے فون کیا۔ آج سے پہلے تو کبھی فون نہیں کیا۔ حرام خور ہڈ حرام ؟

مانی!  (فوراً ٹون بدلتے ہوئے سکرپٹ کی کمزوری کی علامت ) ماموں ،روہانسی آواز میں ۔۔ ماموں آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ ماما پاپا کو نہیں بتائیں گے۔  پلیز
میں! ابے وحید مراد کے بچے، بتا اتنی اوور ایکٹنگ کیوں کر رہا ہے۔؟

مانی!  ماموں مذاق کا وقت نہیں، میں بہت بڑی مصیبت میں ہوں، میرے اوپر قیامت ٹوٹ پڑی۔
میں!  (اس سے زیادہ اوور ایکٹنگ کرتے ہوئے ) کیا ہوا میرے لعل، میرے منے، میرے بچے۔۔۔ خدا خیر کرے کیا ہوا؟  مصیبت پڑے تیرے دشمنوں پر ۔ جلدی بتا بیٹے

کالم نگار:محمد وقاص رشید

مانی!  ماموں میرا ایک دوست ہے اس نے مجھے کہا کہ ذرا مارکیٹ تک جانا ہے۔۔ اسکے ساتھ اسکی ایک کزن بھی تھی۔  راستے میں ہمیں پولیس نے پکڑ لیا ہے ماموں،یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تم اس بچی کو اغوا ء کر کے لے جا رہے ہو ۔ ماموں مجھے ان سے بچا لیں، میرا کوئی قصور نہیں ہے، ماموں یہ بات کریں انسپکٹر صاحب سے ۔

انسپکٹر! (بڑے رعب سے) ہاں بھئی کون بول رہا ہے  ؟
میں!  جی بشیر چغتائی

انسپکٹر! کہاں سے؟
میں!  جی حیدر آباد

انسپکٹر! اچھا اس لڑکے کا نام کیا ہے؟بڑے رعب سے۔۔
میں۔۔۔ جی مانی ۔۔۔

اسکے باپ کا نام۔۔۔۔۔عارف کوجا جی۔

میں شوکت بھٹی بول رہا ہوں۔  صدر تھانے سے اے ایس آئی۔  آپ کے اس بھانجے کو ہم نے جس لڑکے کے ساتھ پکڑا ہے  یہ لڑکا پہلے سے پولیس کو مطلوب تھا۔۔  اس نے پچھلے مہینے ایک دس سال کی بچی سے ریپ کر کے اسے قتل کر دیا ہے، اب یہ اس بچی کو لے کر جا رہا تھا  کہ ہمیں مخبری ہوئی اور ہم نے اسے دھر لیا۔ ہم انہیں لے کر تھانے جا رہے ہیں، اگر تو تھانے پہنچ گئے تو سمجھو ساری زندگی یہ لڑکا جیل میں سڑتا رہے گا۔
میں!  او خدایا۔۔ انسپکٹر صاحب ہمارا بچہ کس چکر میں پھنس گیا۔ ۔ یا خدایا۔۔  اسکے ماں باپ تو سن کر مر ہی جائیں گے۔۔ یااللہ خیر (فل ایکٹنگ کی صلاحیت دکھاتے ہوئے)

انسپکٹر! دیکھیں اب آپ میری بات غور سے سنیں۔  وقت بہت کم ہے اور ہم اسے لے کر سڑک پر کھڑے ہیں ۔ مجھے بار بار تھانے سے کالیں آ رہی ہیں  (واکی ٹاکی کی آواز ۔ پولیس ہوٹر کی آواز)   آپ نے اسکے گھر نہیں بتانا، وقت بہت کم ہے، اگر اسکے گھر والے آئیں گے تو  وہاں میڈیا بھی موجود ہے، آپ لوگ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔  بہتر ہے باہرو باہر کام ہو جائے۔   سمجھ رہے ہیں ناں آپ۔۔۔ ٹائم بہت شارٹ ہے
میں!  جی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔۔ ہائے اللہ۔۔۔ یہ کیا ہو گیا ہمارے معصوم بچے کے ساتھ (اوور ایکٹنگ کرتے ہوئے)

انسپکٹر! بشیر صاحب ان باتوں کا وقت نہیں، ہم سمجھتے ہیں آپ شریف لوگ ہیں،  یقین کریں آپ کو پتا ہی ہے کہ ملک کے حالات کا، اگر یہ تھانے پہنچ گیا تو اسے سیدھی گولی کا آرڈر بھی دیا جا سکتا ہے۔ مدعی بہت تگڑی پارٹی ہے ۔ وہ اسکو ویسے ہی پار کر دیں گے ۔
میں!  کوئی راستہ نکالیں انسپکٹر صاحب، میری مسکین بہن کے بچے کو گولی نہ مارنا، آپ کو خدا کا واسطہ ۔۔

انسپکٹر!  دیکھیں آپ شریف لوگ ہیں ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے،  ہم ایسا کرتے ہیں کہ اسکو راستے میں کہیں اتار دیتے ہیں، دو گاڑیاں ہیں، بارہ ملازم ہیں ۔۔ انکے لیے کوئی چائے پانی کا تو حق بنتا ہے ناں۔ ۔؟

میں! میں سمجھا نہیں انسپکٹر صاحب۔۔ معافی چاہتا ہوں کبھی پولیس وغیرہ تھانے کچہری سے واسطہ نہیں پڑا۔ ۔ آپ کے لیے چائے بنوا کر جہاں کہتے ہیں لے آتا ہوں۔

انسپکٹر!  او جی تھوڑا بہت کوئی انعام شاباشی تو انکی بنتی ہے ناں ۔۔
میں!  اچھا اچھا۔۔۔ یہ بات ہے ، آپ میرے بچے کو چھوڑ دیں بس جہاں کہیں گے،انعام دینے آ جاؤں گا

انسپکٹر!  آپ ایک نمبر لکھیں جیز کیش کا ۔ 03245445719 ۔۔۔یہ ہمارے منشی ارباب کا اکاؤنٹ ہے۔  اس پر آپ ابھی اسی وقت 20ہزار روپے بھیج دیں۔  اگر آپ نے اسکے ماں باپ کو بتانا ہے تو مجھے ابھی بتا دیں۔
میں!  انسپکٹر صاحب۔۔۔ مجھے اسکے باپ کو تو بتانا پڑے گا۔ وہ بھی اسکی طرح حرام خور سانڈ ہے ۔ مجھے پیسے واپس ہی نہ دے تو۔ ۔

انسپکٹر!  دیکھیں آپ مجھے سمجھدار آدمی لگتے ہیں اگر ایک دفعہ یہ تھانے پہنچ گیا تو سمجھیں گیا ۔آج کل تو ہمیں گولی کا آرڈر ہے ۔ یہ بات کر لیں اس سے۔
مانی !۔۔۔۔ماموں۔۔۔۔ (شدید روتے ہوئے)  ماموں آپ کو خدا کا واسطہ، میری زندگی بچا لو۔ ۔۔ ماموں۔۔۔ ہاں۔۔ آں۔۔ ہں۔ ہں۔ ایں ں ں ں۔۔۔۔ ماموں پلیز۔۔۔۔ یہ پیسے ابو نہیں میں آپ کو دونگا۔۔۔ پلیز ماموں
میں!  ابے تو کہاں سے دے گا۔۔۔۔ ٹٹ پونجیے۔۔ کنجوس مکھی چوس باپ کی اولاد۔  کتنا تجھے سمجھایا تھا۔  بُری صحبت چھوڑ دے۔۔  چھوڑ دے، ایک بھی نہ سنی میری۔ ۔ بے شرم گھٹیا گینڈے کے بچے ،بھیج دوں گا۔۔۔ تو کہاں سے لائے گا 20000۔۔ وہ تیرا باپ چغل خور بخیل سالا ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے گا مجھے (بہت مشکل سے اپنی ہنسی روکتے ہوئے۔۔۔۔ ہنسی روک روک کر میرے پیٹ میں درد ہو گیا ۔ لیکن میں انکی حالت سے بہت لطف اٹھا رہا تھا)

انسپکٹر! (فون چھینتے ہوئے) ٹھیک ہے بشیر صاحب اب آپ جانیں اور مدعی جانیں اور کورٹ کچہریاں۔
میں!  سر خدا کے واسطے اس بے شرم بے غیرت انسان کو چھوڑ دیں۔۔  میں غریب آدمی ہوں۔۔ اتنے پیسے نہیں ہیں میرے پاس (خوب مزہ لیتے ہوئے)

انسپکٹر!  چلیں کتنے آپ کر سکتے ہیں ابھی ہم خدا ترسی میں کچھ کم کر دیتے ہیں ۔آپ شریف لوگ ہیں
میں! ( ایک بار پھر کیسٹ ریوائینڈ کرتے ہوئے)اوہ خدایا ۔۔۔کتنا سمجھایا تھا اسے کہ چھوڑ دے لفنگوں سے یاری دوستی۔۔  اسکے باپ سے بھی کہا تھا۔۔  لیکن

انسپکٹر!  یہ آئندہ نہیں کرے گا اسے ہم نے بہت مارا ہے
میں!  ہائے میرا بچہ۔۔۔۔ انسپکٹر صاحب کیوں مارا؟  آپ تو کہہ رہے تھے کہ ہمیں پتا ہے یہ معصوم ہے  (شبنم کی طرح گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے)۔۔ او مائی گاڈ یہ کیا ہو گیا ۔ بے چارہ معصوم۔  مانی کمینہ

انسپکٹر۔۔۔۔ او جی اسکی بہتری کے لیے تاکہ سبق سیکھ جائے اور آئندہ ایسے لڑکوں میں نہ اٹھے بیٹھے ۔ کوئی اتنی زیادہ نہیں لگائیں بس ہتھ ہولا ہی رکھا ہے چھوڑیں اس بات کو۔  ابھی آپ پیسے بھیج رہے ہیں یا نہیں ؟
میں! انسپکٹر صاحب ابھی آپ خدا ترسی کی بات کر رہے تھے اب پیسے مانگ رہے ہیں۔۔  اسے خدا ترسی میں ہی چھوڑ دیں پلیز۔۔۔

انسپکٹر!  دیکھیں جی چائے پانی تو ہمارا حق بنتا ہے ۔ عدالتوں وکیلوں کے پاس آپ کے لاکھوں لگ جانے ہیں۔  اس کنجر نے باہر پھر بھی نہیں آنا۔۔ ۔ آپ کتنے کر سکتے ہیں۔  کتنے ہیں آپ کے پاس؟

میں! میرے پاس تو اس وقت کچھ بھی نہیں ۔ اسکے نحش باپ نے پہلے ہی میرے کتنے پیسے دینے ہیں ۔کسی لٹے پٹے بینک کا کیشئر نہ ہو تو ۔ آپ میری اس سے بات کروائیں ۔

انسپکٹر!  ابھی تو بات کروائی تھی ۔ اس سے آپ نے کیا کہنا ہے مجھے بتائیں ۔
میں!  او سر جی 20000 روپے کا معاملہ ہے ۔ دینے تو اس نے ہیں۔ ۔ آپ نے تو نہیں۔۔۔۔ یہ بڑا فراڈیا ہے آپ کو نہیں پتا ۔ بات کروائیں اس بے شرم چک چوندر سے ۔
مانی ! جی ماموں ،روتے ہوئے۔۔۔۔ ماموں ،بہت مار رہے ہیں یہ ۔ ۔ کہتے ہیں کچھ نہ کچھ تو کر دیں۔ ۔
میں! ( ایک اور پینترا بدلتے ہوئے) سنی سچ بتا تو پرینک کر رہا ہے ناں۔۔۔ مجھے پتا چل گیا ہے کہ ۔ بڑا شریر ہے تو ماموں کو ماموں بنا دیا گھٹیا لڑکے۔  یہ جو شوکت بھٹی بنا ہوا ہے ناں بے سُرا خچر۔  یہ تیرا وہی دوست ہے ناں،جو گلی کے کونے پر رہتا ہے ۔دانی پِھڈا۔ ۔ویسے تو نے ایکٹنگ اچھی کی۔۔۔ لیکن ایک دو جگہ پر اوور ایکٹنگ کی۔۔۔ لیکن یہ چیز پریکٹس سے بہتر بنائی جا سکتی ہے ۔ کمال کا پرینک تھا۔۔ سنی ٹی وی ڈراموں میں تیرے لیے بات کرتا ہوں۔

مانی!  ماموں مذاق کا وقت نہیں ۔ ماموں بچوں والی باتیں نہ کریں۔ ۔ یہ پرینک نہیں ہے۔  خدا کی قسم ماموں۔ ۔۔ خدا کا واسطہ۔ ۔ دس تک ہی کر دیں
میں! ( ایک دفعہ پھر سکرپٹ کی کمزوری کیونکہ انسپکٹر کی جگہ سنی بارگین کر رہا تھا) اوئے دس تک کس ضمانت پہ کروں کمینے ۔تیرے ہٹ دھرم بھینسے جیسے باپ نے تجھ نا خلف غیر معیاری اولاد کے لیے پھوٹی کوڑی بھی واپس نہیں کرنی۔ ۔دکان پر بیٹھا رہتا ہے سارا دن دال خور دنبہ کہیں کا۔۔

انسپکٹر! ٹھیک ہے سر پھر اگر تھوڑے بہت بھی نہیں کر سکتے اور اسے کوئی پرینک شرینک ہی سمجھنا چاہتے ہیں تو ہم اسے تھانے دینے لگے ہیں۔  اب اسے جیل میں سڑنا پڑے یا گولی ماری جائے آپکی قسمت۔ ہم تو چاہ رہے تھے اسکی ماں اور آپکی بہن کی گود نہ اجڑے۔۔ آگے آپ کی مرضی۔ ابھی کچھ دیر میں پولیس میڈیا والوں کے ساتھ آپکی بہن کے گھر چھاپا مارے گی ( آ رہے آں سر پہنچ رہے ہیں تھانے کہانی کو حقیقی رنگ دینے کے لیے واکی ٹاکی پر بات کرتے ہوئے)

میں! (ایک اور زبردست آئیڈیا میرے ذہن میں آیا۔۔  اپنی ہنسی روک کر سکرپٹ کو مکمل طور پر بدلتے ہوئے )۔  بھٹی صاحب ۔ میں نے ایک اور فیصلہ کر لیا ہے ، ہم بڑے نظریاتی لوگ ہیں ۔ میں اپنی بہن کو بھی جانتا ہوں ۔ میری بہن بھی یہی چاہے گی کہ آپ اسے یہیں پہ بچھا لیں  اور صحیح لتر پریڈ کریں ۔ اسکو دو چار لتر ہماری طرف سے بھی پولے کریں۔۔  ننھی بچیوں کو اغواء کر کے انکے ساتھ ظلم زیادتی کر کے انہیں قتل کر دینے والے یہ بھیڑیے کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔۔۔۔آپ انہیں  سخت سے سخت سزا دلوائیں ۔ بلکہ بہتر ہے گولی ہی مار دیں ۔ہم دل پر پتھر رکھ لیں گے مگر اس طرح کے ملک و قوم کے چہرے پر کالک ملنے والوں کی طرفداری نہیں کریں گے ۔ ہماری طرف سے مر گیا یہ۔  آپ اسے گولی مار دیں ایسے لوگوں کو کتے کی موت مرنا چاہیے۔ ا

نسپکٹر۔ ۔ او نہیں بشیر صاحب ہم ایسے گولی نہیں مار سکتے۔۔۔۔یہ معصوم ہے، آپ 5 ہزار تک ہی بندو بست کریں   لیکن ابھی پانچ سات منٹ میں۔۔ ۔
میں!  لیکن سر ابھی تو آپ کہہ رہے تھے گولی ماردینے کا حکم ہے ۔ میں چاہتا ہوں  اس طرح کے ناسوروں سے معاشرہ پاک ہو جائے۔۔ ۔ میں اس بارے میں لکھتا بھی ہوں ۔میں آپ کو اپنی تحریریں اور نظمیں ۔ ۔۔ ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔ بھٹی صاحب۔۔  پیسے تم لیتے جائیں۔۔۔۔ ہیلو ۔۔۔۔ٹوں ۔۔۔۔۔۔ٹوں۔۔۔ ٹوں
اور کال کاٹ دی گئی۔۔
بھٹی صاحب آپ تو 19 منٹ اور 23 سیکنڈ میں ہی تھک گئے ابھی تو کہانی میں ایک ٹوئسٹ آنا تھا۔۔ چلیں خیر

Advertisements
julia rana solicitors

(آپ احتیاط کیجیے گا۔ شکر خدا کا میں فراڈیوں سے بال بال بچ گیا)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply