سکتہ۔

میرے لڑکپن کے دن تھے اور مجھے جانور پالنے کا بہت شوق تھا اور بارہا اپنی اس خواہش کا اظہار گھر والوں سے کیا ،مگر جواب ملتا کے سنبھالے گا کون ؟کھانے پینے اور صفائی کا کون انتظام کرے گا میں ہمیشہ سینہ ٹھوک کر کہتا کے میں اور کون۔۔۔ مگر پنجابی کی کہاوت ہے نا کہ۔

“گھر دے جمیاں دے دند نہی گنی دے”

اس لئے ہمیشہ ناکام رہا لیکن کبھی ہمت نا ہاری۔ ایک چھٹی والے دن والد صاحب کو کافی اچھے موڈ میں دیکھ کر بات کرنے کی ہمت کی تو انہوں نے فورا ًدادا جی سے رابطہ کرنے کو کہا ( دادا جی اس وقت حیات اور میرے ساتھ کافی دوستانہ ماحول میں تھے)
جیسے ہی بات انکے گوش گذار کی کے گھر کی چوکیداری کے لیے ایک عدد جانور رکھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوے اخبار ایک سائیڈ پر رکھا، میری طرف غور سے دیکھا اور مسکرا کر کہا۔حسام بیٹا۔!
جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور ہم ہجرت کر کے اس پاکستان میں آباد ہوے تو میں نے بھی وہی کیا جو اس وقت تمہاری خواہش ہے۔ بہت پیار سے رکھا ۔ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ سردی گرمی سے بچایا اور جب وہ جوان و توانا ہو گیا اس وقت تک وہ میرے خاندان کا ایک حصہ بن چکا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دن دوپہر کے وقت (دن اور وقت بھی انہوں نے بتایا) میں اور تمہاری دادی پچھلی باتیں دہرا رہے تھے اور وہ صحن میں ایک نیم کے درخت کے نیچے لیٹا مکھیاں اور درخت پر شور مچانے والے پرندے اڑانے کی کوشش کر رہا تھا اور ہماری باتیں سن رہا تھا۔کہ تمہاری دادی نے مجھ سے پوچھا کے آج رات کے کھانے میں کیا بناؤں، تو میرے جواب دینے سے پہلے دالان میں آ کر چارپائی کے سامنے کھڑا ہو گیا اور دادی کی طرف منہ کر کے کہنے لگا۔
” آج آلو گوشت بنا لو”
ہم دونو اسکی بات سن کر سکتے میں آگئے اتنا سننا تھا کے میں نے چونک کر دادا کی طرف دیکھا تو وہ اس وقت بھی تقریبا ًسکتے کی حالت میں تھے۔
میرے دادا 2000ء میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے تھے لیکن مجھے آج بھی یہ ہی لگتا ہے کہ جیسے وہ سکتے کی حالت سے کبھی باہر نہیں آئے تھے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔
لیکن میں اپنے دادا کی طرح سکتے کی حالت میں زندگی نہیں گزارنا چاہتا۔

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply