سعودی بادشاہت خطرے میں، اسلام نہیں۔۔نذر حافی

ایک ہیں مفتی صاحب، مفتی بھی ہیں اور حاضر دماغ بھی۔ حاضر دماغ ہیں تو چالاک بھی ہیں۔ چالاک اتنے ہیں کہ یزید کا دفاع بھی کر جائیں تو کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یعنی چالاکی میں تو مفتی منیب صاحب بھی اُن کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ ہمارے مفتی جی شریعت کے سخت پابند ہیں۔ اتنے پابند کہ ایک انٹرویو میں انہوں نے کسی کو بتایا تھا کہ وہ کبھی قوالی بھی نہیں سُنتے، جب سُنتے نہیں تو پھر دیکھنا اور گانا و گُنگنانا کیسا، لیکن اپنی بیوی کے سامنے گانا وغیرہ گا لیتے ہیں، چونکہ اُن کے بقول بیوی کے سامنے گانا گانے کی تو شریعت اجازت دیتی ہے۔ جہاں تک مفتی جی کی شریعت کا تعلق ہے تو اُن کی شریعت کے مطابق اِن دنوں ناچ گانا،  رقص و سرود، شراب و کباب تو سرزمینِ حرم پر بھی جائز ہے۔ اگر اسے ناجائز کہا گیا تو اس سے سعودی بادشاہت کو نقصان پہنچے گا۔ اگر سعودی بادشاہت کو نقصان پہنچا تو اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ لہذا صرف قوالی کا سننا اور گانا حرام ہے لیکن ہندی و مشرقی و مغربی موسیقی کے سُروں اور پاپ میوزک کی تھاپ پر سرزمینِ حرم میں موج و مستی، شراب و کباب اور عیش و نوش سب اسلام اور شریعت کے فائدے میں ہے۔

آج کل مفتی صاحب اُن لوگوں سے سخت نالاں ہیں، جو شریعت کے اس فائدے کو نہیں سمجھتے۔ مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ لوگ دنیا کے مسائل میں ان باتوں کو سمجھتے ہیں، لیکن جب دین کا مسئلہ ہو تو اُس وقت لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ اِن دنوں وہ یہ سمجھانے میں مشغول ہیں کہ بھائی اگر ایک آدمی چائے بیچتا ہے تو وہ کبھی بھی اس کے نقصانات نہیں بتاتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ڈاکٹر بتائے، میرا اس سے کیا کام۔ جی بالکل مفتی صاحب کا کہنا بجا ہے۔ ہم بھی مفتی صاحب سے اتفاق کرتے ہیں کہ آخر چائے اور شراب دونوں کو پیا جاتا ہے۔ چائے پینے پر منہ بند رکھنے والے خواہ مخواہ شراب کے خلاف زبان کھولتے ہیں۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مفتی صاحب کی بات کو سمجھو! یہ نہ دیکھو کہ شراب پی جا رہی ہے، یہ نہ دیکھو کہ ناچ گانا اور فحاشی ہو رہی ہے، یہ نہ دیکھو کہ جوئے اور وسکی کی محفلیں گرم ہیں بلکہ یہ دیکھو کہ کتنی مقدس سرزمین پر کتنے عظیم الشّان اور توحید پرست بادشاہ اور شہزادے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔

آخر ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ دین ہمارے پاس سعودی عرب سے ہی تو آیا ہے، لہذا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہی دین ہے۔ سعودی بادشاہوں کے خلاف بولنے والوں کے اندر مفتی صاحب جیسی دور اندیشی بالکل نہیں ہے۔ اِن لوگوں کو  سمجھنا چاہیئے کہ ان مفتیانِ دین نے کتنے سو سال محنت کرکے بادشاہتوں اور ملوکیتوں کو مقدّس بنایا ہے۔ اس سے پہلے امّوی، عباسی، عثمانی، مغل، لودھی اور۔۔۔ وہ کون سی بادشاہت و ملوکیّت ہے، جسے ہمارے اکابرین، سلفِ صالحین اور مفتیانِ دین نے خلافتِ الٰہیّہ کی سند عطا نہ کی ہو اور جس کے خلاف قیام اور خروج کو بغاوت اور ارتداد کا درجہ نہ دیا ہو۔ اِسی سعودی بادشاہت کو ہی لے لیجئے۔ یہ بادشاہت کوئی ایک دِن میں اتنی مقبول اور ہر دلعزیز نہیں ہوئی۔ اس کی خدمت، مضبوطی اور مقبولیت میں ہمارے جید علمائے کرام اور شیوخ دین و مفتیانِ دین نے دن رات ایک کیا، تب جا کر اس سعودی بادشاہت کو یہ رعب و دبدبہ اور جاہ و جلال نصیب ہوا ہے۔

اس سعودی بادشاہت کو خلافت اسلامیہ کا مرکز اور قلعہ تسلیم کرانے کیلئے ہمارے مفتیوں نے جہاد کے فتوے کے زور پر افغانستان کی سرزمین پر جہادستان تیار کیا، اس سعودی بادشاہت کو ایک خالص توحیدی بادشاہت ثابت کرنے کیلئے سعودی عرب میں نبی اکرمﷺ کے اہلِ بیتؑ، صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے مزارات وغیرہ سب منہدم کئے گئے، اس سعودی بادشاہت کی رِٹ کو قائم کرنے کیلئے بغیر فردِ جرم عائد کئے اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے حسبِ ضرورت سر تلوار سے قلم کر دیئے جاتے ہیں، ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ہیں، لوگوں کو زندانوں میں ڈال دیا جاتا ہے، سولی پر لٹکایا جاتا ہے اور کوڑے۔۔۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو دنیا میں سعودی عرب کے بادشاہوں کا اسلامی اور توحیدی چہرہ کیسے متعارف ہوتا۔ آپ اندازہ کریں کہ ان بادشاہوں کو مسلم امّہ کی قیادت کا اہل ثابت کرنے اور انہیں یہ منصب سونپنے کیلئے مفتیانِ دین کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔ آخر یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اتنی زحمتوں، محنتوں،  مشقتوں اور جدوجہد کے بعد جب جام چھلکانے اور دل بہلانے کا وقت آیا ہے تو ہم سعودی بادشاہوں کے خلاف بولنا شروع کر دیں۔

بھائیو! سمجھو! آخر ان مفتی حضرات کا یزید کے بارے میں بھی تو سکوت کا فتویٰ ہے۔ یزید کے بارے میں سکوت کرنے میں یہی تو حکمت ہے کہ بعد والے بادشاہ جو بھی کریں، وہ یزید سے بڑھ کر تو کچھ نہیں کرسکیں گے۔ لہذا یزید کے بارے میں سکوت کا فیصلہ ایسے ہی تو نہیں کیا گیا، اس کے پیچھے بڑی حکمتِ عملی پوشیدہ ہے۔ جس طرح اگر یزید کے بارے میں سکوت ٹوٹ گیا تو پھر سعودی بادشاہت تک باقی کچھ نہیں بچے گا۔ اسی طرح اگر سعودی بادشاہوں کے بارے میں یہ سکوت ٹوٹ گیا تو پھر بات بہت دور تک یزید کے اباء و اجداد تک جائے گی۔ لہذا مفتی حضرات تاریخ کے دونوں کونوں پر بڑا سخت پہرہ دے رہے ہیں۔ اُدھر بادشاہت و ملوکیت کے آغاز پر سکوت واجب، اِدھر سعودی بادشاہت پر سکوت لازمی۔ ہم اپنے قارئین کو آگاہ کر رہے ہیں کہ خبردار اگر یہ سکوت ٹوٹا تو اس کے ٹوٹنے سے بادشاہوں کے دسترخوانوں پر پلنے والے نامی گرامی عظیم الجثہ علمائے کرام، مفتیوں، قاریوں اور حافظوں کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔

ان جید علمائے کرام نے اتنا خون بہا کر، اتنے لوگوں کو کوڑے مارکر، اتنے مزارات و مقدس مقامات کو مسمار کرکے، اتنے وحشی، خونخوار، درندے، خودکُش اور دہشت گرد تیار کرکے تو یہ سعودی اسلام کا ماڈل تیار کیا ہے۔ اگر یہ ماڈل ناکام ہوگیا تو پھر نئے سرے سے نئے بادشاہ ڈھونڈنے اور ان کی پبلسٹی کرنے میں نجانے کتنے زمانے لگیں گے۔ لہذا مفتی طارق مسعود صاحب کے فرمان کے مطابق اب یزید کی طرح سعودی بادشاہت کے بارے میں بھی سکوت ضروری ہے۔ خلیجی بادشاہوں کے خلاف بولنے سے اسلام کا نقصان ہو جائے گا اور جو اسلام کو نقصان پہنچائے، وہ کافر ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ نقصان پہنچانے والا کافر تو واجب القتل ہوتا ہے۔۔۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ کسی سمجھدار شاعر نے ایسے مفتیوں کے جواب میں کیا خوب کہا تھا:
خطرے میں اسلام نہیں۔۔۔ خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو۔۔۔ صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں، آخر چند گھرانے کیوں
نام نبیﷺ کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں
خطرہ ہے خوں خواروں کو۔۔۔ رنگ برنگی کاروں کو
امریکہ کے پیاروں کو۔۔۔ خطرے میں اسلام نہیں

آج ہمارے نعروں سے لرزہ ہے بپا ایوانوں میں
بک نہ سکیں گے حسرت و ارمان اونچی سجی دکانوں میں
خطرہ ہے بات ماروں کو۔۔۔ مغرب کے بازاروں کو
چوروں کو مکاروں کو۔۔۔ خطرے میں اسلام نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

امن کا پرچم لے کر اٹھو۔۔۔ ہر انسان سے پیار کرو
اپنا تو منشور ہے جالب۔۔۔ سارے جہاں سے پیار کرو
خطرہ ہے درباروں کو۔۔۔ شاہوں کے غم خواروں کو
نوابوں، غداروں کو۔۔۔ خطرے میں اسلام نہیں
نوٹ:۱۔ مفتی طارق مسعود صاحب کا مضحکہ خیز کلپ اس لنک پر موجود ہے۔
https://b2n.ir/f51856

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply