ٹوٹا ہُوا دِل۔۔کبریٰ پوپل

لوگوں کے ساتھ خیر کرنے کے بعد ان سے بدلے میں واپس اچھائی  کی امید لگانا  ،کی  مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص نیا پودا لگاۓ اسے وقت پر پانی دے اور سورج کی روشنی بھی اس تک پہنچے لیکن وہ چاہے کہ یہ فوراً ہی بڑا ہو جائے اور ایک مضبوط اور تناور درخت کی شکل میں اسکے سامنے موجود ہو جو کہ بالکل ناممکن سی بات ہے،کیونکہ اسے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے وقت درکار ہے اور صحيح وقت آنے پر یہ  خود ہی ایک خوبصورت اور مضبوط شجر بن جاۓگا ۔

لوگ اکثر ایسے جملے ادا کرتے ہیں , میرا تو اچھائی  سے اعتبار اٹھ گیا ,میں بھلائی کروں تو میرے ساتھ بُرا ہی ہوتا ہے ,اور یہ کہ ہمیشہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

پہلی بات تو یہ کہ انسان اس قابل نہیں کہ نیکی یا خیر کی طرف مائل ہو لیکن یہ کہ الله اسے ہدایت دے ،الله تمہیں روشنی بنا کر کسی کی زندگی سے اندھیرا مٹانے کے لئے بھیج رہا ہے تمہارا کام صرف روشنی پھیلانے کا ہے نا کہ اس انسان سے اجر مانگنے کا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ
جب انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے تو بندا بندے کا احسان مند کیسے ہوسکتا ہے ؟۔اپنے کیے  جانے والے اعمال کا اجر صرف الله سے مانگو کیونکہ وہی ہے بہترین اجر دینے والا۔
اس چند روز کی فانی دنیا میں محنت کرکے حق کا راستہ منتخب کرو تاکہ ہمیشہ کے لئے سکون پاؤ ا، س راستے پر چلنا آسان نہیں ،یہاں قدم قدم پر کانٹے ملیں گے مصیبتیں گھیر یں  گی، دل ٹوٹے گا لیکن اگر الله کے یہاں اونچا مقام چاہتے ہو تو اس راہ پر چلتے ہوۓ دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے الله کے سامنے پیش کردو۔دنیا میں ٹوٹی ہوئی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں لیکن( جب موسی علیہ السلام  نے الله سے ہمکلام ہوکر کہا کہ یا الله میں تجھے کہاں تلاش کروں تو الله نے جواب دیا ٹوٹے ہوئے دلوں میں )

جس پرمولانا روم فرماتے ہیں  :” اپنے دل کو اس وقت تک توڑتے رہو جب تک یہ کھل نہ جائے ”

ہم اپنے دل کو الله کے سپرد کرنے کے بجاۓ دنیا کے آگے رکھ دیتے ہیں اور وہ اس میں گھس کر اسے گندا کر دیتی ہے جس کی وجہ سے الله کا نور داخل نہیں ہو پاتا۔کوئی مہمان ہمارے گھر آنا چاہے اور ہم دروازہ بند کردیں تو وہ ناراض ہوکر دوبارہ نہیں آنا چاہیگا،لیکن الله جو ہر لمحہ ہمارے دلوں پر دستک دے رہا ہے ہمارے کان اسکی آواز سننے سے بہرے ہیں۔
دل کے ٹوٹ جانے پر افسردہ نہ ہو بلکہ یہ قرب الہی کی نشانی ہے جسے ہم سمجھ نہیں پاتے وہ ہر طرح سے ہمیں آزماتا ہے اور اس دل میں اپنے نور کا نزول کرنا چاہتا ہے اور ہم غور وفکر کرنے کے بجاۓ دنیا سے امید کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

بقول اقبال ؒ  :
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئينہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئينہ ساز میں

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر خالص عمل کرنا چاہتے ہو الله کی رضا کے لئے تو اپنی زبان سے نا شکری کے جملے ادا نہ کرو اور اس راہ میں پڑنے والے ہر پتھر کے لئے اور زخم کھانے کے لئے تیار رہو اور جو انسان اس لطف سے آشنا ہوگیا وہ دنیا کی تمام لذّتو ں سے منہ پھير ليتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply