• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان،او آئی سی اور طالبان (23سال 9 ماہ)۔۔محمد نور الامین

پاکستان،او آئی سی اور طالبان (23سال 9 ماہ)۔۔محمد نور الامین

پاکستان،او آئی سی اور طالبان (23سال 9 ماہ)۔۔محمد نور الامین/23سال 9 ماہ گزر گئے، شب و روز بدلے، زمانے کے طور طریقے بدلے، دنیا بدلی، نئے آہنگ میں ڈھلی، ٹیکنالوجی نے نئی نسل کو بھی بدل ڈالا، لیکن پاکستان کے لیے وقت تھم گیا، اندرونی سیاسی و معاشرتی خلفشار، معاشی ابتری سے قطع نظر ہمسایہ ممالک کے لیے ثالثی، سہولت کاری، امداد کی اپیل کی کہانی اس کم وبیش ربع صدی میں ایک ساعت نہیں کھسکی۔ 1997مارچ کا تیسرا ہفتہ اور او آئی سی کے اسلام آباد کے خصوصی اجلاس میں طالبان کے لیے پاکستان کی عالمی دنیا کو اپیل اس وقت بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بڑی کامیابی تصور کی جا رہی تھی، بعدازاں بڑی غلطی بھی شمار کی گئی۔ آج 20 دسمبر2021 ایک بار پھر پاکستان میں او آئی سی کا خصوصی اجلاس اور وزیر اعظم عمران خان عالمی دنیا سے ایک بار پھر طالبان کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی اپیل کر رہے ہیں اور وزراء و حکومتی عمال اسے صدی کابڑا کارنامہ بتاتے فخر محسوس کر رہے ہیں، حالانکہ اس وقت بھی ملک میں سیاسی بحران، فرقہ ورانہ فسادات،اور خود کش دھماکوں کی گونج سنائی دے رہی تھی،معاشی حالات دگرگوں تھے، اور حکومت کو آنے والے دنوں میں ڈالر کی قلت کا بھی سامنا کرنا تھا، اور آج بھی ڈالر کی اڑان، مہنگائی، گیس اور دیگر وسائل کی قلت حد درجہ سنجیدگی اور توجہ کے متقاضی ہیں۔ اس وقت بھی افغانستان کے لیے امدادی سامان کے قافلے خط غربت سے نیچے زندہ پاکستانیوں کی امیدوں کو کچل کر سرحد پار کر جاتے تھے، اور آج بھی مہنگائی اور افلاس سے مرتے شہریوں کے پیسے سے خوراک افغانستان بھیجنا اولین ترجیح ہے، حالات وہی، فیصلہ ساز قوتیں بھی وہی البتہ نمائشی چہرے بدلے اور دونوں وزرائے اعظم یا حکومتی ترجیحات اس وقت بھی اور آج بھی عوامی مفادات سے ماورا اور کہیں اور سے طے ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔یاد رکھنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ 1997میں طالبان کے لیے آسانی فراہم کرنے کی ذمہ داری او آئی سی نے پاکستان کے؛ کندھوں پر ڈالی تو 2001میں نتیجہ 9/11 کے بعد امریکی جنگ کا ایندھن بننے کی صورت میں برآمد ہوا تھا، اور دو دہائیوں پر محیط جنگ میں پاکستان نے قومی سلامتی، مذہبی تشخص، امن و مان، جان و مال، ریاستی وسائل اور عوامی خوشحالی کو داؤپر لگا کر بھی کچھ حاصل نہیں کیا۔ خدشہ ہے کہ اس بار ذمہ داری اٹھانے اور نبھانے کی سکت شاید پاکستان میں نہیں ہے، لیکن تاریخ اپنے آپ کو جس طرح دہرا رہی ہے اور حکومت ملکی مسائل کے برعکس جس انداز میں اس معاملے کو حد سے زیادہ توجہ دے رہی ہے، اس سے ایک بات کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی حکومت 1997میں بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے دانش مندانہ فیصلہ کر پائی اور نہ ہی اب سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا جا رہاہے۔
آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (اسلامی تعاون تنظیم)کے حالیہ اجلاس کے محرکات اور مقاصدبظاہر افغان عوام کے نام پر طالبان حکومت کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، (تاکہ پاکستان ان کی شرانگیزی سے محفوظ رہے) اور اس توسط سے خطے میں ماضی کا کردار برقرار رکھنا ہی ہیں، البتہ ماضی کے افغانستان کی تاریخ اور خطے میں اس کے کردارکو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کے منظر نامے کا زائچہ مرتب کیا جائے تو امارات اسلامی اور خلافت کے نام پر عرب،عجم اورطرفین کے حلیفوں کے درمیان ایک بار پھرطالبان بم فٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،خدشہ ہے کہ ماضی کے برعکس طالبان کی صورت میں اس بار اقوام عالم کوجدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ،ہمہ وقت اور ہر طرح کے حالات میں جنگ اور تباہی پھیلانے کے لیے تیار فورس کرائے پر دستیاب ہو گی، جو وقت پڑنے پر نہ صرف ہمسایہ ریاستوں اور خطے کے لیے بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے،بلکہ طالبان ایران و اسرائیل قضیے میں فیصلہ کن کردار بھی ادا کر سکتے ہیں، چین کو امریکی حلیفوں پر معاشی جال پھیلانے سے روکنے، پاکستان اور بھارت کو کنٹرول میں رکھنے، مشرق وسطیٰ میں بغاوت پر آمادہ داعش کے متبادل کے طور پر بھی آزمودہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم اس سے بھی زیادہ وزیر خارجہ مبارکبادکے مستحق ہیں کہ او آئی سی کو اسلام آباد میں خصوصی اجلاس کے لیے آمادہ کیا،چین، جاپان، امریکہ اور دیگر معاشی قوتوں کو بھی پلیٹ فارم پر موجود رکھا اور افغانستان میں طالبان حکومت کی مدد نہ کرنے سے انسانی المیے کے جنم لینے کے خطرے سے آگاہ کیا، تاکہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک یا خطے کو آنے والے دنوں میں اس کے اثرات سے بچایا جا سکے۔ اس میں شک کی ذرہ بھر گنجائش نہیں کہ اس وقت طالبان بالخصوص افغان عوام کے لیے اقدامات عالمی دنیا کی ذمہ داری ہے، اور مدد نہ کرنے کی صورت میں افغانستان سے جنم لینے والے خطرات پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان خطرات کا ادراک ابھی سے کرنا بھی ضروری ہے جو طالبان حکومت کو مدد فراہم کرنے سے سر اٹھا سکتے ہیں، اس لیے عوامی امدادی پیکیج کے ساتھ ساتھ15اگست سے اب تک بدلتے حالات پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ مشکل وقت میں مشکلات کے شکار ممالک کے بارے میں او آئی سی کا کردار ہمیشہ سے خاموش تماشائی کا رہا ہے،جس کا فوجی اتحاد صرف سعودی مفادات کی حفاظت کے لیے رکن اسلامی ممالک پر بمباری کر سکتا ہے لیکن اسرائیل فلسطین مسئلے میں کردار ادا نہیں کر سکتا، ایران، عراق، شام، اور دیگر جنگ زدہ ریاستوں کو امریکی یا اسرائیلی حملے سے بچانے کے لیے اقدامات نہیں اٹھا سکتا۔
حد درجہ حساس اور مستقبل کے لیے انتہائی اہم فیصلہ لیتے ہوئے اس نقطے کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ افغانستان اور عراق پر حملے کے لیے اقوام متحدہ کو استعمال کرنا کیوں اہم تھا اور افغانستان میں امدادی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کی بجائے او آئی سی کو کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ حالانکہ اقوام متحدہ اس معاملے میں زیادہ معتبر اور بہتر پلیٹ فارم ثابت ہوسکتا تھا کہ آئندہ افغانستان بلکہ پورے خطے کے سکیورٹی مسائل کے مستقل حل کی راہ ہموار ہوجاتی، لیکن چونکہ اس فیصلے کابوجھ امریکہ اور حلیف قوتیں اٹھانے کو تیار نہیں اور مستقبل میں طالبان کے خوف ودہشت کی ضرورت باقی ہے یا افغانستان کو نئی عالمی جنگ کا مرکز بنایا جانا مقصود ہو سکتا ہے، سو گمان ہے کہ صرف اس لیے یہ معاملہ او آئی سی کے کمزور اور کنٹرولڈ فورم کے ہاتھوں انجام دیا جا نا ہی وقت کی ضرورت تھی، تاکہ ضرورت پڑے تو او آئی سی سے دوبارہ فیصلہ لینے میں یا اس کے فیصلوں سے اختلاف کی گنجائش باقی رہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ او آئی سی کی اہمیت اور سابقہ کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلامیے کی شکل و صورت نکھاری جائے تاکہ سندرہے اورجب وقت پڑے تو کم از کم وقت کے اہم فیصلے کی پس پردہ قوتوں کو آئینہ ہی دکھایا جا سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پاکستان،او آئی سی اور طالبان (23سال 9 ماہ)۔۔محمد نور الامین

Leave a Reply