• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تین واقعات اور ہمارا ذہنی و فکری افلاس۔۔سعید چیمہ

تین واقعات اور ہمارا ذہنی و فکری افلاس۔۔سعید چیمہ

تین واقعات اور ہمارا ذہنی و فکری افلاس۔۔سعید چیمہ/قومیں جب زوال کے راستہ پر گامزن ہوں تو پھر افراد غلطی تسلیم کرنے میں تساہل برتتے ہیں۔ کسی کو تنبیہہ کی جائے تو ایسا جواب ملتا ہے کہ شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسا بھی نہیں کہ ہمارے معاشرہ کا کوئی ایک طبقہ غلطی تسلیم نہ کرتا ہو۔ اس ایک نقطے پر سب یکجا ہیں کہ غلطی تسلیم نہیں کرنی، مذہبی، لبرل، پڑھے لکھے، جاہل، بزنس مین، مزدور، گویا کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ گزشتہ دنوں تین واقعات پیش آئے ہیں جو آپ کے گوش گزار کرنا ہیں۔
پہلا واقعہ
ایک مہربان نے فیس بک پر لکھا تھا کہ جمعے کے دوران ایک نوجوان ٹی شرٹ اور شارٹس پہن کر آیا ہوا تھا جو کہ نامناسب لباس تھا۔ دوسری بات انہوں نے یہ لکھی تھی کہ عورت کا تمام جسم ستر ہے۔ ان کی پہلی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے کہا کہ عورت کا سارا جسم ستر نہیں ہے، سورۃ نور میں بڑی تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ مدعا ہمارے پیش نظر یہ تھا کہ ان کو اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے کہ عورت کا سارا جسم ستر نہیں ہے۔ اگر وہ سورہ نور کی آیات کا حوالہ مانگیں گے تو ہم پیش کر دیں گے۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہ تو یہ بحث کا موقع ہے اور نہ میں بحث کرنا چاہتا ہوں۔ جو بات میں نے کہنی تھی وہ میں نے کہہ دی ہے۔ حیران ہوئے کہ ہم آپ کی توجہ غلطی کی جانب مبذول کروا رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہم نے بحث نہیں کرنی۔ بحث کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ وہ عمر میں ہم سے بڑے تھے، شاید اس لیے سوچا ہو کہ کل کلاں کا ایک بچونگڑا میری غلطی واضح کرے۔

پہلا نقطہ جو جان بوجھ کر چھوڑا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ صحیح بخاری میں کعب بن مالک اور سیدنا عبداللہ بن مسعود کا مکالمہ ہے۔ دونوں جلیل القدر اصحاب میں تکرار ہوتی ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے جسم کے کونسے حصوں کو ڈھانپنا چاہیے۔ سیدنا کعب بن مالک کہتے ہیں کہ مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصّے کو ڈھانپنا فرض ہے جب کہ سیدنا عبداللہ کہتے ہیں سارے جسم کو ڈھانپنا لازم ہے۔ معاملہ سیدنا عمر ابن الخطاب کے پاس پہنچتا ہے۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ دونوں تو رسالت مآبﷺ کے جلیل القدر اصحاب ہیں اور آپ ہی اس قدر زور شور سے اس معاملے میں اختلاف کر رہے ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا کہ مرد کے لیے صرف ناف سے گھٹنوں تک کے حصے تو ڈھانپنا فرض ہے لیکن افضل یہ ہے کہ سارے جسم کو ڈھانپا جائے۔ اب بتائیے جس معاملے میں شریعت اجازت دے رہی ہے اس پر کیسے اعتراض کر رہے ہیں۔ اگر کوئی شارٹس پہن کر نماز پڑھ رہا ہے اور اس کا ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ ڈھکا ہوا ہے تو پھر آپ کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔

دوسرا واقعہ
ایک صاحب نے لکھا تھا کہ جب سیدنا موسیٰ  بن عمران کو کوہِ طور پر بلایا گیا تو کہا گیا کہ موسیٰ یہ مقدس وادی ہے اس لیے اپنا جوتا اتار کے آؤ۔ جب کہ رسالت مآبﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو کہا گیا کہ محبوب آپ جوتوں سمیت آ جائیے۔ ہم نے توجہ دلائی کہ ان دونوں واقعات کی کوئی حقیقت نہیں۔ قرآن میں جتنی بار بھی سیدنا موسیٰ کو طور پر بلانے کا واقعہ بیان ہوا ہے، ایک دفعہ بھی نہیں کہا گیا کہ موسیٰ اپنا جوتا اتار کے آؤ۔ قرآن کے بعد جب ہم صحیح احادیث کو بھی دیکھتے ہیں تو ہمیں اس بات کا ثبوت نہیں ملتا۔ دوسری بات جو معراج کے حوالے سے بیان کی گئی کہ محبوب آپ جوتوں سمیت تشریف لے آئیے۔ اس بات کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ معراج کا واقعہ صرف سورہ بنی اسرائیل میں بیان ہوا ہے تفصیل کے ساتھ۔

پہلی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی علما  کا اختلاف ہے کہ معراج روحانی تھی یا جسمانی۔ امام امین احسن اصلاحی علیہ الرحمتہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ معراج کا واقعہ روحانی ہے۔ جب کہ تمام مسالک کے علما  کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ رسالت مآبﷺ کو جسمانی معراج کروائی گئی۔ دوسری بات یہ کہ سورہ بنی اسرائیل میں سِرے سے بیان نہیں کیا گیا کہ محبوب جوتوں سمیت تشریف لے آئیں اور صحیح احادیث بھی اس کو تسلیم نہیں کرتیں۔ تو پھر کس بنیاد پر یہ بات کہی گئی۔ ہم نے توجہ دلائی تو ان کی طبع نازک پر یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے بھی اپنی غلطی ماننے سے انکار کر دیا، یہ الگ بات کہ کوئی دلیل بھی نہ دی۔

تیسرا واقعہ
ایک صاحب عین زوال کے وقت عصر کی نماز ادا کرنے لگے۔ ہم نے کہا کہ عین زوال اور طلوع کے وقت نماز کی ادائیگی سے منع فرمایا گیا ہے۔ کہنے لگے کہ میں جانتا ہوں اس بات کو۔ لیکن منع صرف نفل نماز سے کیا گیا ہے، فرض نماز آپ ادا کر سکتے ہیں۔ در آں حالے کہ بات جو صحاح ِ ستہ کی احادیث سے واضح ہوتی ہے وہ یہی کہ زوال یا طلوع کے وقت ہر طرح کی نماز سے منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے بے دھڑک عصر کی نماز ادا کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر کسی کے پاس اپنی غلطی کی وضاحت ہے۔ کوئی بھی اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرے گا۔ آپ تحریکِ لبیک والوں سے پوچھیے کہ آپ نے احتجاج کے دوران پولیس والوں کو ہلاک کیوں کیا۔ اگلے ہی لمحے وضاحت آپ کے منہ پر ماری جائے گی۔ سری لنکن مینجر کو قتل کرنےوالوں کی وضاحت بھی آپ سن چکے ہیں۔ نور مقدم کے قاتل کا بیان بھی آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجوہات بھی آپ کو ازبر ہوں گی۔ کیا آپ اب بھی نہیں سمجھے کہ غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہی وہ واحد وجہ ہے جس  سے ہماری فکری و ذہنی نشو ونما ممکن نہیں ہو رہی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply