مرہٹہ سلطنت برصغیر کی عظیم ترین سلطنتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اشوک، اورنگزیب کے بعد اگر کسی سلطنت نے برصغیر کے وسیع ترین علاقے پر قبضہ کیا تو بیشک وہ مرہٹہ سلطنت ہی تھی۔ جنوب میں تامل ناڈو سے شمال میں نیپال تک، مغرب میں پشاور تک اور مشرق میں آسام تک اس سلطنت کا زبردست اثرورسوخ اور بلواسطہ یا بلاواسطہ قبضہ تھا۔
مرہٹہ سلطنت کا بانی شیوا جی کو قرار دیا جاتا ہے۔ شیوا جی مہاراج پونا (جو اس وقت احمد نگر کی مسلم سلطنت کے زیر قبضہ علاقہ تھا) میں 1630 کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ شیوا جی مرہٹوں کی بھونسلے جاتی سے تعلق رکھتے تھے۔ شیوا جی کے والد شاہا جی بھونسلے دکن سلطنت کی فوج کے جنرل تھے۔ شیوا جی کی پیدائش کے وقت دکن کا علاقوں تین مسلمان سلطنتوں میں تقسیم تھا۔ احمد نگر، بیجا پور اور گولکنڈہ۔ احمد نگر میں نظام شاہی حکومت تھی، جبکہ بیجا پور پر سلطان آف بیجا پور کا کنٹرول تھا۔ گولکنڈہ مغلوں کے زیر قبضہ تھا۔ بیجا پور اور مغل سلطنت کے درمیان چھوٹی چھوٹی جنگوں کی صورت میں آنکھ مچولی چلتی رہی اور عادل شاہی سلطنت کی طرف سے شاہا جی لڑتے رہے، جس کی وجہ سے مغل شاہا جی کے دشمن ہوگئے اور اسی خطرے کے پیش نظر شاہا جی نے اپنا خاندان جنوب میں پونا میں آباد کرلیا۔ اس کے بعد بنگلور کی جانب کوچ کیا۔ تاہم ناظم بنگلور کا جب انتقال ہوا تو شیوا جی، جو اس وقت فقط سولہ سال کے تھے، وہ ناظم کے عہدے پر قابض ہوگئے۔ یہیں سے بیجا پور اور شیوا جی میں تنازعات کا آغاز ہوا۔
1646 میں شیوا جی نے سولہ سال کی عمر میں ٹورنا کا قلعہ عادل شاہی سلطنت سے چھین لیا۔ اس قلعے سے ان کو بہت بڑی مقدار میں سونا اور جواہرات ملے۔ اسی دولت سے انھوں نے رائے گڑھ کا قلعہ تعمیر کیا، جو بعد میں طویل عرصے تک مرہٹہ سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ شیوا جی نے اپنی ابتدائی فتوحات میں پونا اور اس کے آس پاس کے کافی قلعوں پر قبضہ کرلیا اور پھر وہ مغربی ساحل کی جانب بڑھے۔ تاہم جب سلطان آف بیجا پور کو ان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں کا علم ہوا تو انھوں نے شیوا جی کے والد شاہا جی کو قید کرلیا۔ وہ چھ سال قید رہے اور اس دران شیوا جی نے اپنی چھاپہ مار کاروائیاں بند رکھیں۔ چھ سال بعد سلطان نے شاہا جی کو آزاد کردیا۔
والد کی رہائی کے بعد شیوا جی نے اپنی چھاپہ مار کاروائیوں کا آغاز کر لیا۔ آس پاس آباد مرہٹوں، جو عادل شاہی سلطنت کے اتحادی اور حلیف تھے، کے خلاف کاروائیاں شروع کردیں۔ کچھ گھرانوں میں انھوں نے شادیاں کرکے مراسم قائم کئے، جبکہ کچھ کے خلاف انھوں نے چھوٹی چھوٹی جنگیں لڑیں اور ان کو زیر کرلیا۔
شیوا جی کے بڑھتے اثرورسوخ کو دیکھتے ہوئے سلطان عادل شاہ نے افضل خان کو فوج دے کر شیوا جی کی سرکوبی کرنے بھیجا۔ جنگِ پرتاپ گڑھ میں عادل شاہی فوج کو شکست ہوئی اور افضل خان مارے گئے۔
اس کے بعد 1659 میں بیجا پوری فوج کو شکست دے کر شیوا جی نے پنہالہ کے قلعہ قبضہ پر کرلیا۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے سلطان عادل شاہ نے مغلوں کے ساتھ اتحاد بنا کر پنہالہ پر حملہ کردیا۔ اس حملے سے کچھ قبل انگریزوں نے شیوا جی کے ساتھ اتحاد قائم کیا تھا۔ لیکن جب انگریزوں نے متحدہ فوج کو فاتح دیکھا تو انھوں نے شیوا جی کے ساتھ اتحاد توڑ دیا۔ اس عمل نے شیوا جی کو برانگیختہ کردیا اور بعد میں انھوں نے راجا پور کی انگریزوں کی فیکٹریوں پر حملہ کردیا اور زبردست لوٹ مار مچا کر انگریزوں کو قتل کردیا۔ تاہم پنہالہ کے قلعہ کے بابت مذاکرات میں یہ طے پایا کہ شیوا جی اپنی افواج کو نکال کر قلعہ خالی کردیں گے۔ شیوا جی نے وشل گڑھ کی جانب پسپائی اختیار کرلی اور قلعہ خالی کردیا۔
شروع میں شیوا جی اور مغلوں میں اچھے تعلقات تھے۔ مگر بعد میں تعلقات خراب ہوگئے۔ اورنگزیب، جو اس وقت دکن کے گورنر تھے، نے شیوا جی کے خلاف کاروائیاں کیں اور ان کو بہت ساری شکستیں دیں لیکن یہ کاروائیاں مکمل نہ ہو پائیں۔ کیونکہ اورنگزیب کی اپنے بھائیوں سے تخت کے حصول سے متعلق مسلسل جنگیں جاری تھیں۔ اسی وجہ سے ان کے لئے شیوا جی کی مکمل بیخ کنی ممکن نہ ہوسکی۔
اورنگزیب عالمگیر کے بادشاہ بننے کے بعد شائستہ خان کو شیوا جی کی بیخ کنی کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ جنھوں نے جلد ہی پونا فتح کرلیا اور مرہٹہ سلطنت کا مکمل خاتمہ کردیا۔ مگر شیوا جی نے چھاپہ مار کاروائیاں کرکے شائستہ خان کو فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ دوسری جانب شیوا جی نے سورت کی بندرگاہ پر قبضہ کرلیا۔ اورنگزیب عالمگیر، شائستہ خان کے فرار ہونے پر شدید غضبناک ہوئے اور شائستہ خان کا تبادلہ بنگال کردیا۔
اورنگزیب نے راجا جے سنگھ اول کو فوج دے کر شیوا جی کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ جنھوں نے شیوا جی کو پے در پے شکستیں دے کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد پورندر کا معاہدہ ہوا، جس کے تحت شیوا جی نے اپنے 23 قلعے مغلوں کے حوالے کردیے اور باجگزار ریاست بن کر رہنے کا وعدہ کیا۔ چالیس ہزار روپے بطور تاوان جنگ ادا کیا۔
شیوا جی کو آگرہ بلا لیا گیا اور ان کو منصب داری کا عہدہ عطا کیا گیا۔ ان کو مغربی سرحدوں پر بھیجا جانے کا اعادہ تھا لیکن وہ آگرہ سے اپنے بیٹے سانبھا جی کے ساتھ فرار ہوگئے اور واپس پونا آپہنچے۔ اس کے بعد مغلوں اور شیوا جی میں طویل جنگوں کا آغاز ہوا۔ اب کی بار شیوا جی نے سورت دوسری بار فتح کرلیا۔ شیوا جی نے سورت میں ٹھہرے ماوراء النہر کے شہزادے کا سامان لوٹ لیا۔ جس سے اورنگزیب غضبناک ہوئے اور داؤد خان کی زیر قیادت ایک فوجی دستہ بھیجا، جو ناسک کے مقام پر شیوا جی کے ہاتھوں مفتوح ہوا۔
1674 میں پرتاپ راو گوجر نے بیجا پوری جنرل بہلول خان کو عمرانی اور نیسری کی جنگوں میں شکست فاش کیا لیکن انھی جنگوں کے اختتام پر ہوئی چھوٹی جھڑپوں میں پرتاپ راو گوجر، جو مرہٹہ افواج کے سپہ سالار تھے، ایک جھڑپ میں مارے گئے۔
1674 میں سات دریاوں کے پانی سے نہلا کر شیوا جی کو مرہٹہ سوراج کا بادشاہ منتخب کیا گیا۔ اس سے پہلے براہمنوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شیوا جی کا خاندان چونکہ کھیتی باڑی کرتا تھا، سو وہ کھشتری ہونے کی بجائے ورن کے اعتبار سے شودر ہیں، جو بادشاہ نہیں بن سکتے۔ تاہم ایک پنڈت گگا بھٹ نے ان کا تعلق جیسے تیسے سیسوڈیہ راجپوتوں سے جوڑ دیا۔ جس کے بعد ان کو چھترپتی کا خطاب دیا گیا۔ ان کو ہندوا دھارمودھک کا خطاب دیا گیا، جس کا مطلب ہندو مت کا محافظ۔
1677 تک شیوا جی کی حکومت خاندیش سے ہوتی ہوئی موجودہ مغربی گھاٹ تک پھیلی تھی، جنوب میں یہ تامل ناڈو کو چھوتی تھی، جبکہ شمال میں مدھیہ پردیش تک ان کا کنٹرول تھا۔
1680 میں شیوا جی کا انتقال ہوا۔ انگریزوں کے مطابق وہ انتھراکس سے فوت ہوئے، جبکہ پرتگیزیوں کے مطابق ان کو بخار لاحق ہوا تھا۔ جبکہ دیسی محقیقین کے مطابق ان کی بیوی سوریا بائی نے ان کو زہر دیا تاکہ وہ اپنے بیٹے راجا رام کو تخت دلوا سکے۔ شیوا جی کے انتقال کے بعد راجا رام تخت نشین ہوا لیکن سانبھا جی نے رائے گڑھ پر اپنا قبضہ حاصل کرلیا۔ اپنے چھوٹے بھائی کو شکست دے کر انھوں نے پوری مرہٹہ ریاست پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا۔ راجا رام کو قید کرکے سوریا بائی کو سازش کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں