وزرائے اعظم کا مقتل۔۔عامر فاروق

اگلے روز سٹی صدر روڈ جانا تھا، میرے دونوں دوست گھر پر ہی تھے انہیں ساتھ لے لیا۔ جاتے ہوئے کچہری چوک سے مریڑ حسن اور تیمور روڈ والا راستہ پکڑا۔
سر ِراہ میرے دوستوں نے اونچی خاردار تاروں والی چار دیواری کی کئی عمارتوں کے بارے میں پوچھا۔ بتایا یہ دفاع وطن کے مقاصد کے لیے ہیں۔ بہت خوش ہوئے۔ تحفظ کا احساس کسے بُرا لگتا ہے؟
واپسی پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کے سامنے سے گزرتے ہوئے لیاقت روڈ پر مڑے۔ نوجوان دوستوں کو بتایا کہ دائیں ہاتھ لیاقت باغ ہے جو ملک کے پہلے وزیر اعظم کی قتل گاہ بننے سے پہلے کمپنی باغ کہلاتا تھا۔ بعد میں وزیراعظم کا قصاص باغ کا نام بدل کر ادا کر دیا گیا۔

چند برس قبل باغ نے ایک اور وزیر اعظم کے خون کا خراج وصول کیا تو قصاص کے طور پر نام بدلنے کے لیے پاس کوئی باغ نہ بچا تھا۔ اس لیے سامنے مری روڈ پر ایک ہسپتال کا نام بدل کر انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے۔

میرے دوست تھوڑے پریشان نظر آئے کہ دفاع ِ وطن کی اتنی علامتوں والا شہر دو وزرائے اعظم کا خون پی گیا۔ اسی اثنا میں ہم مری روڈ پر دائیں جانب کو مڑ کر دوبارہ مریڑ حسن سے ہوتے ہوئے جم خانہ کلب کے سامنے سے گزرے۔ گھر واپسی کے لیے کچہری چوک سے جی ٹی روڈ پر جانے کی بجائے ایئر پورٹ روڈ پکڑا اور جناح پارک والے چوک سے دائیں مڑے۔

یہاں گاڑی آہستہ کرنی پڑی۔ اَن گِنت وکلا اور سائلین انصاف کی تلاش میں پرانی کچہری اور جناح پارک سے متصل کورٹ کمپلیکس کے درمیان آتے جاتے ہوئے پیدل سڑک عبور کر رہے تھے۔ دوستوں نے اس پارک کے بارے میں پوچھا کہ کتنا پرانا ہے؟ بتایا زیادہ پرانا نہیں، پہلے زنداں تھا۔ یہاں ایک اور وزیر اعظم قتل کیا گیا جس کے بعد یہ پارک بن گیا۔ لیکن یہاں پہلے وزیر اعظم کی طرح پارک کا نام مقتول وزیر اعظم کے نام پر نہیں رکھا گیا۔ کوتوال نے معلوم نہیں کیا سوچا کہ بندی خانے کو تفریحی پارک بنانے کے بعد اس مبارک مقام کو بانی پاکستان کا نام دے دیا۔

بات کرتے کرتے ہم کورٹ کمپلیکس عبور کر کے بائیں ہاتھ والی خاموش، قدرے سنسان لیکن خوب صورت سڑک پر مڑے۔ یہاں مسلح محافظ کھڑے تھے، بیریئر پڑے تھے۔ اکا دکا گاڑیاں ان بیریئرز کے بیچ سے زگ زیگ کر کے آہستہ آہستہ گزر رہی تھیں۔ جیسے احترام کے کسی تقاضے کا پاس رکھ رہی ہوں۔ پچھلی سڑکوں کی طرح ہارن کی آواز تک نہ تھی۔ میرے دوست اس ماحول کے رعب میں یا شاید پہلی بار یہ جان کر کہ ان کا شہر تین وزرائے اعظم کا مقتل بھی ہے، اب بالکل خاموش تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیریئرز عبور کیے تو ایک نے پوچھا، سابقہ جیل کے ساتھ یہ اتنا وسیع گھر کس کا ہے اور اس روڈ پر اتنا سکوت اور اتنے محافظ کیوں ہیں۔
بتایا یہ گھر محافظ اعظم کا ہے۔ سکوت اس لیے ہے کہ جہاں بڑے رہتے ہوں وہاں اونچی آواز نکالنا منع ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply