کینسر (56) ۔ میموگرافی/وہاراامباکر

کیا میموگرافی کی سکریننگ کی مدد سے خواتین کو چھاتی کے کینسر سے بچایا جا سکتا ہے؟ اس کو ٹیسٹ کرنے کا بیڑا تین لوگوں نے اٹھایا۔ لوئی وینیٹ جو ایک سرجن تھے۔ سام شاپیرو جو ماہرِ شماریات تھے اور فلپ سٹراکس جنہوں نے اپنی بیوی کو چھاتی کے کینسر کے ہاتھوں کھویا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وینیٹ، سٹراکس اور شاپیرو کی مہارت کلینکل ٹرائل تھے۔ انہیں احساس تھا کہ اس کے لئے رینڈمائزڈ ٹرائل کی ضرورت ہے جو زندگی کی طوالت کو معیار بنائے۔ کچھ اس نوعیت کا جس طرح ڈول اور ہل نے سگریٹ نوشی کے کئے تھے۔ لیکن یہ ہو گا کیسے؟ ڈول اور ہل کو خوش قسمتی سے برطانیہ میں صحت کے نظام کو قومیا جانے کے نتیجے میں بننے والی نیشنل ہیلتھ سروس کی “ایڈرس بک” مل گئی تھی۔ جبکہ میموگرافی کے ٹیسٹ کو اس سے الٹ سمت میں صحت کے نظام کی امریکہ میں جنگ کے بعد نجکاری کے نتیجے میں صحت کی انشورنس کے پروگرام سے یہ مدد مل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جنگِ عظیم، تارکینِ وطن کی آمد اور کسادبازاری ۔۔۔ یہ تین وجوہات نیویارک میں خواتین کو ملازمت کی طرف رخ کرنے کا باعث تھیں۔ ان ملازمت پیشہ خواتین کو صحت کی انشورنس درکار تھی۔ اور اس سے ہیلتھ انشورنس پلان کی سکیم وجود میں آئی تھی۔ 1960 کی دہائی تک اس پلان میں تین لاکھ سے زیادہ ممبران تھے جس میں اسی ہزار خواتین تھیں۔
سٹراکس، شاپیرو اور وینیٹ نے اس کی اہمیت کا پتا لگا لیا تھا۔ ان خواتین کو سکرین کیا جا سکتا تھا اور طویل عرصے تک اس کو فالو اپ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ٹرائل جان کر سادہ رکھا گیا۔ چالیس سے چونسٹھ سال کی خواتین کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ ایک کی میموگراف سکریننگ کی گئی، جبکہ دوسرے کی نہیں۔ اور دونوں گروپس میں شامل خواتین کا فالو اپ کیا گیا۔
یہ ٹرائل دسمبر 1963 میں شروع ہوا اور اس کا کیا جانا ایک مصیبت بن گیا۔ میموگرافی کی مشین ایک بھینسے کے سائز کی تھی۔ فوٹوگرافک پلیٹیں چھوٹی کھڑکی جتنی تھیں۔ اندھیرے کمرے میں ان پلیٹوں کو صاف کرنے کی تکنیک ایکسرے کلینک میں بہترین کام کرتی تھی۔ لیکن خواتین کو کلینک میں آنے کے قائل کرنا مشکل تھا۔ سٹراکس اور وینیٹ نے ایک موبائل وین میں ایکسرے مشین نصب کر لی اور اس کو شہر کے بزنس سنٹر میں لے گئے۔ لنچ کی بریک میں خواتین کو سٹڈی کے لئے یہاں آنا آسان تھا۔
سٹراکس نے خواتین رضاکاروں کو اس تجربے کے لئے بھرتی کرنے کی زبردست مہم شروع کی۔ جب کوئی انکار کرتی تو اس کو پھر دوبارہ فون کرتے، خط لکھتے اور پھر فون کرتے۔
زور و شور سے کام شروع ہو گیا۔
پانچ سٹیشن، ایک گھنٹے میں بارہ خواتین۔ کپڑے بدلنے کی ایک جگہ۔ چونسٹھ لاکر۔ پردے اٹھتے اور گرتے۔ الماریاں کھلتی اور بند ہوتیں۔ خواتین آتی اور جاتیں۔ سارا دن یہ کام جاری رہتا۔ اپنے انتظامات میں پریسیژن سے صرف چھ سال میں ان تینوں نے وہ کام کر دیا جسے مکمل ہونے میں عام طور پر بیس سال درکار تھے۔
اگر میموگرافی سے کسی کا ٹیومر پکڑا جاتا تو اس وقت کی دستیاب روایتی ٹیکنالوجی سے علاج ہوتا۔ سرجری اور پھر ریڈی ایشن۔ جب ایک بار یہ سائیکل مکمل ہو جاتا تو سٹراکس، وینیٹ اور شاپیرو اس تجربے کو اپنے سامنے رونما ہوتے دیکھ سکتے تھے۔ ان خواتین کے ساتھ بھی جن کو سکرین کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ بھی جن کو سکرین نہیں کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تحقیق کے شروع ہونے کے آٹھ سال بعد 1971 میں سٹراکس، وینیٹ اور شاپیرو نے اپنے ابتدائی نتائج جاری کئے۔ پہلی نظر میں سکریننگ بڑی کامیابی لگتی تھی۔ باسٹھ ہزار خواتین نے ٹرائل میں حصہ لیا تھا۔ نصف نے میموگراف کروایا تھا۔ سکریننگ کروانے والے گروپ میں 31 اموات ہوئی تھیں جبکہ کنٹرول گروپ میں 52۔ یہ چالیس فیصد کمی تھی اور سٹراکس بہت خوش تھے۔ “ریڈیولوجسٹ جانیں بچا سکتا ہے”۔
ان نتائج کا میموگرافی پر بہت اثر ہوا۔ اگلے پانچ سال میں اس کو عام قبولیت ملنے لگی۔ امریکن کینسر سوسائٹی کے چیف میڈیکل آفیسر نے اعلان کیا۔ “وقت آ گیا کہ اس بارے میں بڑی قومی مہم شروع کی جائے”۔
کینسر انسٹیٹویٹ کی طرف سے چلائی گئی مہم میں اگلے سال میں اڑھائی لاکھ خواتین کی سکریننگ کی گئی۔ تمام کینسر تنظیموں نے اس کی حمایت کی۔ میموگرافی “نظرانداز کیا گیا پروسیجر” تھا۔ یہ مین سٹریم میں آ گیا۔
۔۔۔۔۔
لیکن پہلے ٹرائل میں شماریاتی تکنیک میں سقم تھے۔ اپنے نتائج میں شاپیرو نے ان کا تذکرہ کیا تھا۔ 1976 سے 1992 کے درمیان نئے اور بڑے ٹرائل شروع ہوئے۔ سکاٹ لینڈ کے ایڈنبرا ٹرائل اور کینیڈا ٹرائل جس طریقے سے کئے گئے، وہ غیرتسلی بخش تھا۔ لیکن سویڈن میں مالمو ٹرائلز تھے جنہوں نے بارہ سال تک جاری رہنے کے بعد 1988 میں پہلے نتائج جاری کئے۔ جبکہ 2002 میں سویڈن میں کی گئی تمام سٹڈی کے نتائج جاری ہوئے۔
ان میں 247000 خواتین شامل تھیں۔ اور ان سے جو نتیجہ نکلا تھا، وہ یہ کہ میموگرافی پچپن سے ستر سالہ خواتین میں بیس سے تیس فیصد مورٹیلیٹی کم کرتی ہے۔ جبکہ پچپن سال سے کم عمر میں خواتین میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ یہ نتائج شماریاتی لحاظ سے مضبوط بنیادوں پر اور بہت تفصیل اور باریکی سے اکٹھے کئے گئے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply