ہمارا قاتل کون ہے؟ ۔۔علی انوار بنگڑ

ہمارا قاتل کون ہے؟ ۔۔علی انوار بنگڑ/رات تین بجے کا وقت تھا، اس وقت شہر میں ہر طرف سناٹا تھا۔ صرف شیر محمد کی دھڑکنیں بے ترتیب ہورہی تھیں۔ وہ بے چینی کے عالم میں ہسپتال کے برآمدے میں چکر کاٹ رہا تھا اس کے من میں خوشی اور اندیشوں سے ملے جلے خیالات کا ایک شور برپا تھا جب اس کے کانوں میں بچے کی رونے کی آواز پڑی۔ پہلی بار جب شیر محمد نے اسے دیکھا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ خوشی ایسی تھی کہ اس کا دل کررہا تھا کہ وہ وہاں بچوں کی طرح چیخے ، بھاگتا پھرے، جھومے گاۓ اور ہر ایک کو بتاۓ کہ آج اس کی دنیا پوری ہوگئی۔

بچے کے چھوٹے چھوٹے مخملی ہاتھ تھے جن کی اس نے مٹھی بنائی ہوئی تھی۔ وہ اس بند مٹھی کو کھول کر اس کی ہتھیلی پر اپنی انگلی رکھتا اور وہ ننھا منا پھول پھر سے بند کرلیتا۔ وہ بڑی دیر تک اس کی  نازک انگلیوں کی پوروں کا لمس محسوس کرتا رہتا۔ کام والی جگہ شیر محمد کا دل نہیں لگتا تھا ،بار بار اسے بچے کے خیال آتے تھے۔ وہ جلدی سے کام نبٹا کر واپس اس کے پاس پہنچ جاتا۔ دونوں میاں بیوی کو وہ بچہ پھول کی طرح لگتا تھا، اس لیے انہوں نے اس کا نام گُل رکھا۔

شیر محمد اور وجیہہ شیر وہ لمحہ کبھی نہیں بھولے جب اس نے پہلی بار ماما بابا کہا۔ وہ گھنٹوں اس کی بلائیں لیتے رہے۔ شیر محمد گھنٹوں   اس ننھے سے پھول کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ کبھی اس کے لیے گھوڑا بنتا، کبھی کندھوں پر بٹھا کر اسے سیر کراتا، اس کی ہنسی دیکھنے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا۔

شیر محمد اور وجیہہ دونوں گُل کی یادوں کو سنبھال رہے تھے اس کا پہلی بار بیٹھنا، پہلا قدم چلنا، پہلا لفظ بولنا اور پہلا دانت نکالنا۔ پہلی بار کب وہ سکول گیا۔ وہ سب لمحے ان کی یادداشتوں میں حسین یادوں کی صورت میں محفوظ ہوتے جارہے تھے۔ وقت گزرتا رہا۔ جیسے شگوفہ کِھل کر پھول بنتا ہے۔ ایسے ہی ان کا بیٹا گزرتے وقت کے ساتھ گلاب کے شگوفہ کی مانند کِھل رہا تھا۔

16 دسمبر2014 کا وہ آسیب زدہ دن جب وہ کلاس میں اپنے دوست احمد کے ساتھ بیٹھا تھا وہ اسے اپنی نئی سائیکل کے بارے بتا رہا تھا جو اس کے پاپا اس کے لیے لے کر آئے تھے اور آج اس کے پاپا اسے شام میں سائیکل سکھانے والے تھے۔ جب اس نے دھماکوں کی آواز سنی۔ اس نے احمد کو کہا ،لگتا ہے  ادھر بھی کسی کی شادی ہے ہمارے محلے میں بھی ایک انکل کی شادی پر ایسے ہی پٹاخے چلاۓ گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد دھڑام سے دروازہ کھلا اور ایک انکل اندر آۓ۔ ان کے ہاتھ میں ایک بندوق تھی بالکل ویسی جو گل نے عید پر لی تھی۔ انکل والی بندوق ذرا بڑی تھی۔ انکل نے اللہ کا نام لے کر گولیاں چلانی شروع کردیں ۔ لیکن پاپا تو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں پھر یہ انکل کیوں ہمیں اللہ میاں کے نام پر مار رہے ہیں؟ اس کے سارے دوست خون میں لت پت کلاس کے فرش پر گر رہے تھے۔ اس کے پیٹ اور سینے میں دو گولیاں لگی تھیں۔ وہ درد کی شدت سے کلبلا رہا تھا۔ وہ چیخ کر اپنی ماما اور پاپا کو بلانا چاہتا تھا لیکن اس سے چیخا بھی نہیں جارہا تھا۔ اس کی حالت اس چھوٹے پرندے کی طرح تھی جو گھونسلے سے گر جاتا ہے اور کوئی جنگلی جانور اسے کھانے کو اس کے سر پر کھڑا ہوتا ہے۔ ارد گرد اس کے دوست ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے۔ ان کے خون سے فرش سرخ ہوچکا  تھا۔

وہ پوچھنا چاہ رہا تھا یہ قیامت ہمارے ہی اوپر کیوں ٹوٹی ہے؟ وہ کونسا گناہ تھا جس کی یہ سزا مل رہی ہے؟ آہستہ آہستہ اس کا ہوش ختم ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے آخری بار اس کے ماں باپ کی تصویر چل رہی تھی۔ پھر اس نے آنکھیں موند لیں ، ہمیشہ کے لیے جیسے وہ اس دنیا سے روٹھ گیا ہو ۔ اس کی تکلیف ختم ہو گئی تھی ہمیشہ کے لیے۔

آج شیر محمد کو گھر جلدی جانا تھا کیوں کہ وہ گل سے وعدہ کرکے آیا تھا کہ وہ اسے آج سائیکل چلانا سکھاۓ گا جب ٹی وی پر اس نے گل کے سکول پر حملے کی خبر دیکھی۔ ایک لمحے کو لگا جیسے وہ ایک خوفناک خواب دیکھ رہا ہے۔ اس کا دل پھٹنے کو کررہا تھا۔ وہ وہاں سے بھاگم بھاگ سکول پہنچا۔ تب تک وہاں فوجی آپریشن مکمل ہوچکا تھا۔ اور وہاں سے زخمی بچوں اور مردہ بچوں کے لاشے نکال رہے تھے۔ ایک امید لیے وہ ایمبولینسوں کو چیک کر رہا تھا شاید اس کے جگر کا ٹکڑا زخمیوں میں ہو ۔ وہ آدھا گھنٹہ اس پر ایک عذاب کی طرح گزرا۔ ایک ایسے  عذاب کی طرح جس کے بعد ایک روگ منہ کھولے کھڑا تھا۔ جب شیر محمد کو اس  کی  لاش ملی تب تک اس کے آنسو خشک ہوچکے تھے۔ اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم کا کوئی حصہ کٹ گیا۔ جیسے کسی شگوفے کو کھلنے سے پہلے کسی نے مسل دیا ہو۔ وہ رونا چاہتا تھا وہ رو نہیں پارہا تھا۔ جب وہ اپنے بچے کے مردہ جسم کو گھر لے کر گیا اس کی ماں پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی   ۔ وہ بار بار بے ہوش ہو رہی تھی۔ گل چپ چاپ لیٹا تھا۔ وہ اٹھ کر دونوں کو چپ کروانا چاہتا تھا لیکن اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ شیر محمد آج پھر بار بار اس کے ہاتھوں کو پکڑ رہا تھا جیسے اس کے لمس کو اپنی یادداشت میں محفوظ کر رہا ہو ۔ جب شیر محمد اسے لحد میں اتا رہا تھا اسے اس کی چھوٹی انگلیوں کی پوروں کا لمس یاد آرہا تھا۔

وقت گزرتا گیا تسلیاں دینے والے ختم ہوگئے۔ وہ دونوں اور ان جیسے اور والدین آج بھی اپنے بچے کے قاتلوں کو پکڑنے کی فریاد کررہے ہیں   ،لوگ کہتے تھے وقت کے ساتھ زخم بھر جاۓ گا۔ لیکن ان کا دکھ تو ختم ہی نہیں ہورہا وہ کبھی کبھار سوچتے ہیں کہ ہم کیوں نہیں مرگئے گل کے ساتھ۔ ان کو ایسے لگتا جیسے گل روز آکر ان سے پوچھتا ہے میں ہی کیوں؟

وہ اور ان جیسے اور بدنصیب والدین ریاست کے مالکوں سے ہر روز پوچھ رہے ہیں ہمارے ہی بچے کیوں؟ کون تھے ہمارے بچوں کے قاتل؟ بچوں کے قاتلوں کو چھوڑنے والے کون ہیں؟ کن کی نااہلی کے سبب یہ قیامت برپا ہوئی؟

لیکن ریاست تو ان کے ساتھ بھونڈے مذاق کررہی ہے کوئی نمرود اٹھتا ہے تو پیسے دینے کا اعلان کرتا ہے۔ کوئی فرعون اٹھتا ہے تو کہتا ہے اور بچے کیوں نہیں پیدا کرتے۔ کوئی بچوں کے قاتلوں کو پناہ دیتے ہیں تو کوئی انہیں جیل سے فرار کرنے میں مدد کررہا ہے۔ تو کوئی ان سے صلح کرنے کی باتیں کررہا ہے۔ تو کوئی انہیں عظیم مجاہدین کا خطاب دے رہا۔ کوئی کہتا افغانستان والے اچھے ہیں اور یہ برے۔ بعد میں انہی ناسوروں سے صلح کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی میرے بچوں کو جنگ کا مجاہد کہتا ہے۔ کونسی جنگ؟ ہم نے تو بچوں کو سکول پڑھنے بھیجا تھا کسی جنگ پر نہیں۔ اور یہ کیسی جنگ ہے جن سے ہم لڑ رہے ہیں وہ ہی ہمارے ہیروز بھی بنا دیے جاتے ہیں۔ ہم کس کے ہاتھ اپنے بچوں کا لہو تلاش کریں؟ کہاں سے ان کے قاتلوں کو ڈھونڈیں ؟ کیسے پتا لگائیں  ان کے قاتل کون تھے؟ کیا میرے اپنے ہی میرے بچوں کے قاتل ہیں؟ ہمیں جواب دینے کی بجائے پیسے دینے کا اعلان کیا جاتا ہے، ہمارے ساتھ فوٹو سیشن کرکے انسانیت کا چیمپئن بنا جاتا ہے لیکن کوئی مجرموں کا نہیں بتاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے مجرم وہ بھی ہیں جو ان قاتلوں کی حمایت کرتے ہیں۔ مجھے تو ریاست کے کرتا دھرتا اور اپنے ہم وطنوں کے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے خون کی بدبو آرہی ہے۔ اور اب اس بدبو سے میرا جینا محال ہے۔
اور کتنے سانحات کی ضرورت ہے اس ریاست کو قائم رہنے کے لیے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply