کینسر (55) ۔ سکریننگ/وہاراامباکر

ماہرینِ امراض بیماری کے بچاوٗ کو دو طریقے سے دیکھتے ہیں۔ پرائمری بچاوٗ میں بیماری کی وجہ پر قابو پایا جاتا ہے۔ مثلاً، پھیپھڑوں کے کینسر سے بچنا ہو تو سگریٹ کے دھویں سے دور رہا جائے۔ جگر کے کینسر سے بچنے کے لئے ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین لگوائی جائے۔ سیکنڈری بچاوٗ (جسے سکریننگ کہا جاتا ہے) میں بیماری کا پتا ابتدائی سٹیج میں لگایا جاتا ہے۔ پیپ سمئیر سرویکل کینسر سے سیکنڈری بچاوٗ کا طریقہ تھا۔ کیا یہ کسی اور کینسر پر بھی کام کر سکتا تھا؟

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برلن کے سرجن البرٹ سالومون کو 1913 چھاتی کے کینسرکے ٹشو کے معائنے اور تجزیے کا جنون ہوا تھا۔ اگلے برسوں میں ان کے ایکسرے روم میں نکالنے گئے تین ہزار کے قریب ٹشو تھے۔ کینسر ٹشو میں کیلشیم کے خوردبینی چھینٹے پھنسے تھے یا کینسر شدہ سخت خلیوں کے نشان تھے۔ انہوں نے اس معائنے سے کینسر کا خاکہ بنایا۔
اس سے اگلا قدم یہ ہو سکتا تھا کہ اس سب ڈیٹا کو آپریشن سے پہلے ایکسرے کر کے حاصل کیا جائے اور سکریننگ کا طریقہ بنایا جائے۔ لیکن برلن کی بدلتی سیاست نے ان کا کام اچانک روک دیا۔
نازی پارٹی نے ان کی یونیورسٹی میں ملازمت ختم کر دی۔ انہیں جان بچا کر بھاگ کر ایمسٹرڈیم جانا پڑا اور وہ زیرِ زمین چلے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کام بھی۔
ایکسرے کی مدد سے چھاتی کئے کینسر کا خاکہ تیار کر لینے کی سالومون کی بنائی گئی تکنیک میموگراف تھی۔ چونکہ ریڈیکل سرجری کی اس دنیا میں طریقہ کار زیادہ سے زیادہ ٹشو کو نکال دینا تھا، اس لئے میموگراف کی تکنیک اس وقت میں دلچسپ نہیں تھی۔
دو دہائیوں تک ایسا ہی رہا۔ 1960 کی دہائی کے وسط میں ریڈیکل سرجری پر سوال اٹھنے لگے تو میموگرافی دوبارہ کلینک میں داخل ہونے لگی۔ فلم، زاویہ، پوزیشن، ایکسپوژر کو ٹھیک کیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ چھاتی کے کینسر کو دیکھا جا سکتا تھا۔ کسی نے کہا کہ “یہ دیکھنے میں مکڑی کے مہین سے جالے کی طرح لگتا ہے”۔
لیکن کیا اس کے سائے کو میڈیکل سائنس کے بُنے ہوئے “مکڑی کے جال” میں پھنسایا جا سکتا تھا؟
ہیوسٹن سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ایگان سائنسدان بھی تھے اور فوٹوگرافر بھی۔ ان کا فن ایکسرے کی صورت میں اس جال کی تصویر کھینچنا تھا۔ ان کی بنائی تکنیک سے چند ملی میٹر کے سائز کے ٹیومر بھی پکڑے جاتے تھے۔
سوال یہ تھا کہ اگر خواتین میں ان کو جلد پکڑ لیا جائے اور سرجری سے نکال دیا جائے تو کیا جانیں بچائیں جا سکتی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔
سکرین کرنے کے ٹرائل کسی بھی اور کلینکل ٹرائل سے زیادہ دشوار ہیں۔ ان کو کرنا بہت مشکل ہے اور غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ وہ کیوں؟ اس کے لئے ہم سوچ کا تجربہ کرتے ہیں۔
فرض کیجئے کہ ایک ٹیسٹ ایجاد ہو گیا ہے جو ایک خاص طرح کے کینسر کو ابتدائی سٹیج میں پکڑ لیتا ہے۔ اس ٹیسٹ کا پہلا چیلنج ٹیکنیکل ہے۔ یہ دو قسم کی غلطیاں کر سکتا ہے۔ پہلی غلطی کہ یہ ضرورت سے زیادہ حساس ہو۔ ایک شخص کو کینسر نہ ہو لیکن یہ اسے کینسر تشخیص کر دے۔ یہ غلطی “غلط مثبت” کی ہے۔ ایسے افراد جن کو اس غلطی کا سامنا کرنا پڑے گا، وہ خود کو بے چینی، تشویش اور خوف میں پائیں گے اور اپنے عارضے سے نجات کے لئے کچھ بھی کر لینا چاہیں گے جو ان کو زندگی کو دشواری میں مبتلا کر دے گا۔
اس کا الٹ ضرورت سے کم حساس ٹیسٹ ہے۔ اس غلطی میں ایسے افراد کا نتیجہ صاف آئے گا، جن کو کینسر کی تشخیص ہو جانی چاہیے تھی۔ یہ “غلط منفی” کی غلطی ہے۔ یہ ٹیسٹ مریضوں کو غلط تسلی کروا دے گا کہ ان کو بیماری نہیں۔ اور جب انہیں اپنی بیماری کا اس وقت علم ہو گا جب پانی سر سے گزر چکا ہو گا اور علامات نمودار ہو چکی ہوں گی تو انہیں مایوسی، شاک اور دھوکہ دئے جانے کی کیفیت ہو گی۔
ٹیسٹ کا ضرورت سے زیادہ حساس یا ضرورت سے کم حساس ہونا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب سکریننگ ٹیسٹ یہ کوشش کرے کہ یہ ضرورت سے زیادہ حساس نہ ہو اور غلط مثبت نہ دے تو اس کو جو قیمت چکانا پڑتی ہے وہ غلط منفی کے تناسب میں اضافہ ہے۔ کیونکہ یہ درمیان کے گرے علاقے کو چھوڑ جاتے ہیں۔
ایگان کے استعارے کا سہارا لیتے ہوئے: مکڑی ایک جالا بن رہی ہے جو مکھی کو پکڑ لے۔ اگر اس کی کثافت بڑھا دیتی ہے تو اس میں مکھیوں (درست مثبت) کے علاوہ ہوا میں تیرتا دوسرا جھاڑ جھنکار (غلط مثبت) بھی پکڑے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے ریشے دور کر دیتی ہے تو کئی اصل مکھیاں بھی قابو نہیں آتیں۔ لیکن جب بھی کوئی چیز پکڑی جاتی ہے تو اس کا اب اچھا امکان ہے کہ وہ اصل مکھی ہی ہو گی۔
کینسر کے سکریننگ ٹیسٹ میں غلط مثبت اور غلط منفی کی بھاری قیمت ہے۔ یہ ایک ناممکن توازن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر کینسر ٹیسٹ کی رپورٹ پرفیکٹ حساس ہو۔ لیکن سکریننگ ٹیکنالوجی پرفیکٹ نہیں۔ سکریننگ ٹیسٹ ناکام ہوتے ہیں۔ غلط مثبت اور غلط منفی کا تناسب کم نہیں۔
لیکن فرض کریں کہ ہمارا نیا ٹیسٹ یہ پہلا مرحلہ طے کر لیتا ہے۔ غلط مثبت اور غلط منفی کی شرح قابلِ قبول رینج میں آ چکی ہے۔ جو لوگ یہ ٹیسٹ کروانا چاہتے ہیں، ان کے لئے یہ دستیاب ہے۔ ڈاکٹر اب ابتدائی سٹیج میں بیماری کو پکڑنے لگے ہیں۔ اس وقت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا جب یہ جارحانہ اور تیزی سے پھیلتا ٹیومر نہ بن جائے۔ کیا یہ ٹیسٹ کامیاب ہو گیا؟
نہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف تشخیص کر لینا کافی نہیں۔ کینسر بہت قسم کا رویہ رکھتا ہے۔ کئی ٹیومر بے ضرر رہتے ہیں۔ کبھی بھی خطرناک حالت تک نہیں پہنچتے۔ جبکہ کئی ابتدائی سے ہی جارحانہ ہوتے ہیں اور ابتدائی سٹیج میں علامات نمودار ہونے سے پہلے بھی تشخیص کچھ کام نہیں آتی۔ سکریننگ ٹیسٹ کو آگے بڑھنا ہو گا۔ مقصد زندگی بڑھانے کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب فرض کریں کہ ہم نے اس کے لئے ایک ٹرائل بنایا ہے جس میں یہ پیمائش کی جانی ہے کہ سکریننگ ٹیسٹ کی مدد سے سروائیول کتنی بڑھ جاتی ہے۔ فرض کریں کہ دو جڑواں بہنوں پر یہ تجربہ کیا گیا۔ الف نے سکریننگ ٹیسٹ کروایا۔ بے نے انکار کر دیا۔
الف اور بے اس سے لاعلم تھیں کہ ان دونوں میں یکساں کینسر پچھلے پانچ سال سے پنپ رہا ہے۔
الف کا ٹیومر سکریننگ ٹیسٹ سے 2005 میں پکڑا گیا۔ انہوں نے سرجری اور کیموتھراپی کروائی۔ پانچ سال تک سب ٹھیک رہا لیکن پھر کینسر واپس آ گیا اور ان کا انتقال 2010 میں ہو گیا۔
دوسری طرف بے کو اپنے کینسر کا علم ہی 2009 میں ہوا۔ انہوں نے بھی علاج کروایا۔ زیادہ فائدہ نہیں ہوا اور ان کا انتقال بھی 2010 میں اسی روز ہوا جب الف کا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں کے مشترک جنازے پر الف اور بے کے ڈاکٹروں کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ الف کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان کے کینسر کی سروائیول پانچ سال تھی۔ 2005 میں تشخیص ہوئی تھی جبکہ 2010 میں انتقال۔ بے کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے کینسر کی سروائیول ایک سال تھی۔ 2009 میں تشخیص ہوئی اور 2010 میں انتقال۔ لیکن دونوں بیک وقت درست نہیں ہو سکتے۔ دونوں بہنیں کی موت کی وجہ ایک ہی ٹیومر تھا اور ایک ہی سال میں وفات پائی۔
اس بظاہر نظر آنے والے تضاد کی وجہ فوراً واضح ہو جاتی ہے۔ اسے لیڈ ٹائم بائیس کہا جاتا ہے۔ سکریننگ سے سروائیول کے سال گننا شروع کر دینا غلط پیمائش ہے۔ کیونکہ ابتدا میں تشخیص ہو جانا خود ہی سروائیول بڑھا دے گا۔ اگرچہ مریض کو اس سے فائدہ نہیں ہوا۔
ہمارے ٹیسٹ کو یہ دوسری رکاوٹ پار کرنی ہے۔ اس کو سروائیول نہیں بلکہ mortality کو بہتر بنانا ہے۔ اگر الف 2020 تک زندہ رہی ہوتیں تو ہی ہم کہہ سکتے تھے کہ اس سکریننگ ٹیسٹ نے ان کی زندگی میں دس سال کا اضافہ کیا۔
سکریننگ ٹیسٹ کی کامیابی طے کرنے کا راستہ غیرمتوقع طور پر پتلا اور لمبا ہے۔ اس کو غلط مثبت اور غلط منفی کم سے کم رکھنے ہیں۔ اور اس کو ابتدائی تشخیص کو کامیابی کہہ لینے سے گریز کرنا ہے۔ سروائیول ٹھیک معیار نہیں۔ اور ہر قدم پر اس کو ٹیسٹ کرنے والوں کے تعصبات سے بچنا ہے اور رینڈمائزیشن کرنا ہر قدم پر لازمی ہے۔
صرف ایسا ٹیسٹ جو یہ تمام معیار پاس کرے اور ٹھیک طریقے سے کئے گئے رینڈم ٹیسٹ میں زندگی میں اضافے کا سبب بنے، صرف اسے ہی کامیاب سکریننگ ٹیسٹ کہا جا سکتا ہے۔ اس قدر دشواریوں کے سبب، ایسے ٹیسٹ زیادہ نہیں جو اتنے طاقتور ہیں کہ اس سکروٹنی سے گزر کر، کینسر کے بچاوٗ میں ٹھیک طرح سے فائدہ پہنچاتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply