کینسر (54) ۔ پیپ سمئیر/وہاراامباکر

کینسر کی پیدائش (کارسینوجینیسس) اگر رفتہ رفتہ ہوتی ہے۔ ابتدائی سٹیج سے لے کر باغی خلیوں کے مجمع تک کا سفر اگر ایک ایک قدم لے کر ہوتا ہے تو کیا اس پیدائش کو شروع میں روکا جا سکتا ہے؟ کیا کینسر کے بجائے “پری کینسر” پر حملہ آور ہوا جا سکتا ہے؟ یہ کینسر سے بچنے کی ایک اور حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔
کینسر کے خلیات کے اس سفر کو بہت تفصیل سے پڑھنے والے ایک سائنسدان جارج پپانیکولاوٗ تھے۔ ان کی تعلیم ماہرِ حیوانات اور میڈیسن کی تھی۔ اور 1913 میں کشتی پر مفلسی کی حالت میں نیویارک پہنچے تھے۔ جب تک انہیں میڈیکل لیبارٹری میں ملازمت نہیں ملی تھی، وہ قالین بیچنے کے سیلزمین کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ میڈیکل لیبارٹری میں انہیں جو موضوع ملا، وہ چوہوں کی ماہواری پر تحقیق تھی۔ وہ خوردبین کے نیچے شیشے کی سلائیڈز پر کیو ٹِپ کی مدد سے حاصل کئے گئے سروکیکل خلیے دیکھتے تھے۔ انہوں نے معلوم کیا کہ خلیے سائیکل میں اپنے شکل کس طرح تبدیل کرتے ہیں۔ خلیے کو دیکھ کر سائیکل کا وقت معلوم کیا جا سکتا ہے۔
اس تجربے کو وہ انسانوں پر لے آئے۔ اور یہاں پر بھی انہیں ایسا ہی ملا۔
لیکن یہ سب بے کار کی دریافت لگتی تھی۔ خوردبین کے نیچے خلیے دیکھ کر ماہواری کا وقت معلوم کرنا؟ اس معلومات کے لئے پپانیکولاوٗ کی دریافت کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے بہت زیادہ آسان طریقے موجود تھے۔
اس معلومات کا کیا کیا جائے؟ انہوں نے دس سال اس تحقیق میں گزارے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پپانیکولاوٗ کے ذہن میں خیال آیا کہ ان کی دریافت کا اصل فائدہ نارمل خلیے دیکھنے میں نہیں بلکہ بیماری کے وقت ان کا معائنہ کرنے میں ہے۔
اور انہوں نے ایسا کرنا شروع کیا۔ گائناکولوجی کی مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں سے اس کو اکٹھا کر کے معائنہ کرنے لگے۔
انہیں پتا لگا کہ سرویکل کینسر کے کیسز میں ان خلیات کی شکل عجیب ہو چکی ہوتی ہے۔ ان کے نیوکلئیس پھولے ہوتے ہیں، ممبرین ٹھیک نہیں ہوتی۔ سائیٹوپلازم سکڑا ہوتا ہے۔ یہ نارمل خلیات سے بہت الگ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کینسر کا ایک ٹیسٹ دریافت کر لیا تھا۔
ان کے 1928 میں اس کام پر لکھے پیپر پر توجہ نہیں دی گئی۔ اور اگلی دو دہائیوں تک وہ سائنس کے منظر سے غائب ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن پپانیکولاوٗ اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ خوردبین کے نیچے خلیات کا معائنہ کرنے کی روٹین چل رہی تھی۔ اور یہاں پر انہیں ایک خیال نے آن لیا۔ اگر سرویکس (cervix) کے خلیات ایک سائیکل پر آہستہ آہستہ تبدیل ہوتے ہیں تو کیا نارمل سے کینسر تک کا سفر بھی اسی طرح ایک ایک قدم کر کے ہوتا ہے؟
اور 1950 میں ایک محفل میں ایک نوجوان ڈاکٹر نے ان کے بنائے ٹیسٹ کے ٹھیک استعمال کی نشاندہی کی۔ ان کے ٹیسٹ کا اصل فائدہ کینسر کا پتا لگانا نہیں تھا بلکہ یہ پتا لگانا تھا کہ کہیں کینسر کے آثار تو نہیں؟ کہیں کینسر اپنا مارچ شروع کرنے کی تیاری میں تو نہیں؟
یہ پیپ سمئیر ہے۔ خواتین کے لئے ٹیسٹ جو بچاوٗ کے لئے اہم ہے اور آسان سا ایک ٹیسٹ کروانا اس بات کا امکان بہت کم کر دیتا ہے کہ کینسر بنے گا۔
ان کا یہ ٹیسٹ تشخیص کی گھڑی کو پیچھے لے گیا۔ پھیلے ہوئے ناقابلِ علاج مرض کے بجائے اسے قابلِ علاج اور ابتدائی حالت میں پکڑا جا سکتا تھا جب اس موذی کو مار دینا آسان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کو 1952 میں قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ اس پر ایک بڑا کلینکل ٹرائل چلایا جائے۔ ڈیڑھ لاکھ خواتین کا ٹیسٹ کیا گیا اور ان کو بعد میں فالو اپ کیا گیا۔ ان کو یونیورسٹی آف ٹینیسی کی بڑی فیسلٹی میں دیکھا جاتا۔ نارمل اور ایبنارمل کی مثالیں دکھائی گئی تھیں۔ تکنیک کار دن رات ان کا معائنہ کرتے۔
ان ڈیڑھ لاکھ میں سے 555 میں کینسر پھیلا ہوا تھا۔ لیکن ان کے اصول کا اصل ٹیسٹ ایک اور دریافت میں تھا۔ 557 کا بالکل ابتدائی سٹیج میں تھا جن کا ایک سادہ سرجیکل پروسیجر سے علاج کیا جا سکتا تھا۔ ان سب میں کوئی بھی علامت نمودار نہیں ہوئی تھی۔ اگر ان کا ٹیسٹ نہ ہوا ہوتا تو انہیں اس کا معلوم ہی نہ ہوتا۔
پری کینسر سٹیج کی خواتین کی عمر پھیلے ہوئے کینسر والی خواتین کے مقابلے میں اوسطاً بیس سال کم تھی۔ یہ ایک بار پھر دکھاتا تھا کہ کینسر کا جنم طویل عرصہ لیتا تھا۔ پیپ سمئیر ٹیسٹ نے اس کی شناخت بیس برس پہلے ہی کر لی تھی۔ اور ایک ناقابلِ علاج مرض کو قابلِ علاج میں بدل دیا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply