محکمہ پولیس اور خوشگوار حیرت۔۔ رضوان ظفر گورمانی

دس بارہ دن پہلے کی بات ہے۔صبح صبح ایمل کو بائیک پہ چکر لگوایا اور بائیک کو بیٹھک والی سائیڈ پہ ٹھہرا کر ایمل کو گھر لے آیا۔دس منٹ بعد باہر نکلا تو بائیک ندارد۔ادھر ادھر سے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا کالونی کی مسجد والی سائیڈ سے اک مشکوک اجنبی آتا دکھائی دیا تھا۔
ون فائیو پہ کال کی تو اگلے چند منٹوں میں ڈولفن اہلکار فاروق احمد موقع پہ پہنچ گئے۔ملک خرم کھر کی ٹیم جس میں فاروق مہر اصغر مہر آصف اور شاہد نیاز شامل ہیں نوجوانوں پہ مشتمل ہے اور یہ نوجوان آئے روز کارنامے سر انجام دیتے رہتے ہیں اک دو معاملات کا تو میں عینی شاہد ہوں اور انہی صفحات پہ ان معاملات کا تذکرہ بھی ہو چکا ہے۔

خیر اسی دوران ایس ایچ او ملک خرم کھر کی کال بھی آ گئی انہوں نے مجھ سے بائیک کے پیپتز منگوائے۔اگلے اک گھنٹے میں میری بائیک چوری کی ایف آئی آر درج ہو چکی تھی۔
اس وقت تک میرا ایس ایچ او سے نہ باقاعدہ تعارف ہوا تھا نہ ہی کوئی ملاقات ہوئی تھی۔
میری بائیک میں پیٹرول کم تھا یہ بات میں نے پولیس کو بتائی انہوں نے میرے گھر کے نزدیک والے پیٹرول پمپ سے تفتیش کا آغاز کیا۔سی سی ٹی وی کھنگالے اور مجھے تسلی دی کہ آپ تسلی رکھیں انشاءاللہ چور پکڑ لیں گے۔
سچی بات یہ ہے کہ مجھے اعتبار نہیں آیا اور اپنے تئیں میں اپنی بائیک پہ فاتحہ پڑھ چکا تھا۔
لیکن مجھے اس وقت خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا جب پولیس سٹیشن سے خبر ملی کہ ایس ایچ او سٹی ملک خرم کھر نے میری بائیک سمیت دیگر کئی لوگوں کی بائیکس چوری میں ملوث گروہ کو گرفتار کر لیا ہے۔

اس کیس کے سلسلے میں تھانے آنا جانا رہا اس دوران خاموشی سے ایس ایچ او سٹی ملک خرم کھر کے کام،لوگوں سے ان کے رویے معاملات کی نزاکت کو پرکھنے اور فیصلہ سازی کا مشاہدہ کرتا رہا۔
یار کیا شاندار شخصیت ہے ملک خرم کھر۔ناولوں میں لکھے گئے ہیروز کے حلیے طرح سرخ و سپید رنگت بھاری مونچھیں لمبا قد اور گھمبیر لہجہ۔متحرک ذہین اور معاملہ فہم۔
کوٹ ادو میں بڑھتے جرائم کی وجہ سے ڈی پی او مظفرگڑھ حسن اقبال محمد صاحب نے اپنا کرائم فائیٹر ایس ایچ او کوٹ ادو بھیجا اور انہوں نے آتے ہی اپنے انتخاب کو سچ کر دکھایا۔تعیناتی کے اگلے ہی روز پولیس اہلکار کے قتل میں ملوث اشتہاری کو کیفر کردار تک پہنچایا۔پھر اک اور پولیس مقابلے میں جس میں دو تین تھانوں کی پولیس شریک تھی فرنٹ سے لیڈ کیا۔

کم عرصے میں پانچ پانچ ماہ پہلے چوری ہوئے موٹر سائیکل چور پکڑ کر بائیکس برامد کیں کل اک صاحب ملے جن کی بائیک پرزہ جات کی صورت میں بک چکی تھی ملک خرم کھر ان کی بائیک کا انجن تک برامد کرا لائے۔
اس دوران میرا ان سے بطور جرنلسٹ تعارف بھی ہوا مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ بطور عام شہری بھی ان کا رویہ دوستانہ تھا اور تعارف کے بعد بھی انہوں نے سابقہ روش برقرار رکھی ورنہ میں توقع کر رہا تھا کہ اور نہیں تو اپنے کارنامے تو ضرور گنوائیں گے۔

دیگر شہریوں اور میرے ساتھ ہونے والی گفتگو سے پتا چلا کہ اک اچھی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں باشعور تعلیم یافتہ اور نئے دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ملک خرم کھر کا پیشن ہے یہ جاب۔وہ فرض کی ادائیگی میں لاپروائی کی حد تک انوالو ہو جاتے ہیں جہاں دوسرے پولیس افسر احتیاط سے کام لیتے ہیں وہاں یہ بے باکی سے کام لیتے ہیں۔کافی عرصے بعد میں نے سچ میں کسی بہادر انسان کو دیکھا ہے ورنہ بہادری صرف قصے کہانیوں اور فلموں تک محدود ہو چکی ہے۔


پھر ان کی اک اور بات جو مجھے اچھی لگی وہ یہ کہ خواتین کے معاملے میں یہ بہت باادب ہیں یہ صرف اور صرف اچھی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔کام سے آنے والی خواتین سے عزت و احترام سے پیش آنا ترجیح بنیادوں پہ کام کرنا اور خواتین کے احترام کے حوالے کوئی کمپرومائز نہ کرنا۔
اک صاحب اک دودھ والے کے سفارشی بن کے تشریف لائے معاملہ پورا سننے پہ علم ہوا کہ دودھ والے صاحب محلے میں دودھ دینے کے بہانے خواتین کو کریکٹر سرٹیفکیٹ بانٹتے پھرتے تھے۔ملک خرم کھر نے سفارشی صاحب کے سامنے ہی دودھ والے کو ایسا آئینہ دکھایا کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گا ملزم کے خلاف فوری قانونی کاروائی کا آغاز کیا۔تھانوں میں سیاسی کلچر عام ہے اور میں نے اس بات کو خاص طور پہ نوٹ کیا کہ سیاستدانوں کو ڈیو ریسپیکٹ دیتے ہوئے معاملے کی صورت حال سے آگاہ کرتے اور جو میرٹ بن رہا ہوتا وہی کرتے۔ان کے بقول سیاستدان میرٹ کرنے پہ خفا نہیں ہوتے بلکہ مسائیل وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں پولیس پیسہ لے کر وہی کام کر دیتی ہے جس کام کے لیے وہ سیاستدان کو پہلے انکار کر چکے ہوتے ہیں چلیں اللہ کرے ان کی خوش فہمی قائم رہے ورنہ سیانے کہہ گئے ہیں کہ سیاستدان کسی کے سگے نہیں ہوتے اسی لیے تو بھائی بھائی کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہوتا ہے بیٹا باپ کے خلاف۔
قصہ مختصر کل تھانہ کوٹ ادو میں اک مختصر سی پریس کانفرنس کے بعد میڈیا ڈی ایس پی کوٹ ادو اور متعلقہ ایم پی اے کی موجودگی میں 30 کے قریب مالکان کو بائیکس کی چابیاں حوالے کیں اور اک بار پھر بائیک دینے کا آغاز خواتین مدعیان سے کیا۔راقم بھی ان مالکان میں شامل تھا۔
سچ بات یہ ہے کہ میں نے زندگی میں پہلی بار بذات خود پولیس کمپلین درج کرائی اور دس دن کے قلیل عرصے میں میری بھرپائی بھی ہو گئی۔
موٹر سائیکل مالکان میں کئی لوگ ایسے تھے جن کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایس ایچ اوز کے پاس چکر لگا لگا کر تھک چکے تھے اور اب وہ امید چھوڑ چکے تھے اچانک پولیس سٹیشن سے ان کو کال کر کے عزت سے بلا کر بغیر کسی رقم کے تقاضوں کے ان کی بائیکس ان کے حوالے کی گئیں۔یہ ان کے لیے بھی اک خوشگوار تجربہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملک خرم کھر نے جن ملزمان کو گرفتار کیا ان میں ثنااللہ عرف سنی رڈ تنویر میراثی اور عابد وغیرہ شامل ہیں۔

Facebook Comments

رضوان گورمانی
سرائیکی وسیب سے ایک توانا اور نوجوان آواز، کالم نگار روزنامہ خبریں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply