سانحہ اے پی ایس، 7 سال بیت گئے، مگر زخم آج بھی تازہ

سات برس بیت گئے مگر زخم آج بھی تازہ ہیں، سانحہ اے پی ایس ایک ایسا اندوہناک واقعہ جو کبھی بھلایا نہ جا سکے گا۔

16 دسمبر دو ہزار چودہ کے تلخ ترین دن 6 بزدل دہشتگرد آرمی پبلک اسکول پشاور میں داخل ہوئے، عقبی دیوار پھلانگ کر داخل ہونے والے دہشتگردوں نے اسکول کے آڈیٹوریم ہال میں جاری فرسٹ ایڈ ورکشاپ میں شامل بچوں پر گولیوں کی اندھا دھند بوچھاڑ کردی۔

گولہ بارود اور خودکش جیکٹوں سے لیس درندہ صفت حملہ آوروں نے بچوں اور اساتذہ سمیت ایک سو انچاس افراد کو شہید کیا، قوم دہشتگردی کو شکست دینے کیلئے آج بھی پرعزم ہے ۔

اس دن ہر آنکھ اشکبار تھی، ملک سوگ میں ڈوب چکا تھا ہر طرف قیامت جیسا سناٹا تھا، اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے والے والدین اپنے بچوں کے ساتھ ان سارے خوابوں کو بھی دفن کرتے رہے، روتے بلکتے بس ایک ہی سوال پوچھتے رہے کہ آخر ان کے بچوں کا قصور کیا تھا ، خودانکا قصور کیا تھا۔

معصوم بچوں پرحملہ کرنے والے دہشت گردوں کو افواج پاکستان نے اسی وقت آپریشن میں جہنم واصل کردیا۔ جبکہ سہولت کار بعد میں پھانسی پر چڑھ گئے۔ لیکن 16 دسمبر کا وہ دن ملک کی تاریخ کا بھیانک خواب بن کررہ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والوں بچوں کے ماں باپ کا کہنا ہے کہ لواحقین کہتے ہیں اب دوسروں کے بچوں کا تحفظ یقینی بنانا ہی ان کی زندگی کا مشن ہے ۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply