ہم شرمندہ ہیں۔۔ ڈاکٹر اظہر وحید

ہم اپنے بچوں سے شرمندہ ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں‘ اپنے طالب علموں سے ٗ اسکول کالج اور یونیورسٹی کے بچوں سے ‘ مدارس اور مساجد میں پڑھنے والے بچوں سے ۔ ہم شرمندہ ہیں‘ اپنی قوم سے ، ہم شرمندہ ہیں‘ اقوامِ عالم سے!

ہم اپنے بچوں کے سامنے شرمندہ ہیں کہ ہم انہیں تعلیم نہیں دے سکے ، جنہیں تعلیم دے پائے ‘ انہیں تربیت نہیں دے سکے۔ ہم اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے بچوں کو فقط ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی تعلیم دیتے رہے، مقابلے کے امتحان کی تیاری ہی کرواتے رہے۔دَھن میں آگے بڑھنے کی اِس دُھن میں ہم بہت کچھ پیچھے چھوڑ آئے، انہیں قطعاً نہیں بتا سکے کہ ان کا دینی اور روحانی ورثہ کیا ہے۔ ہم انہیں محبت، ایثار اور احسان کی تعلیم نہ دے سکے۔ہم اپنی انفرادی نااہلی کو نظام کی ناکامی کی آڑ میں چھپاتے رہے، ہم یہ بھول گئے کہ محبت ، احسان اور ایثار کی تعلیم کے لیے کسی ادارے ، کسی نظام کی ضرورت نہ تھی بلکہ یہ فرد سے فرد تک منتقل ہونے والا ایک ذاتی جوہرتھا۔ اس کے لیے ہمیں خود مثال بننا تھا، لیکن کسی جگہ مثال بننے کی بجائے ہم کامیابی کی تتلی کے پیچھے دوڑ پڑے، اور اپنی جگہ چھوڑتے رہے۔ کیا ایک فوجی اپنا مورچہ چھوڑ سکتا ہے‘ خواہ اُس کی دیواریں شکستہ اور سیلن زدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اہل لوگ اپنے جوہر کی ناقدری کا رونا روتے رہے ، اپنے حالات سدھانے کے لیے اُن ممالک کو سدھار گئے ‘ جہاں اُن کے جوہر کی قدر ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی مثال اُس گاؤں کی طرح ہو گئی‘ جس کا ہر پڑھا لکھا بچہ شہر میں جا کر گھر بنا لیتا ہے اور گاؤں کی گلیاں اور بازار پہلے کی طرح ویرانی اور اداسی سے اَٹے رہتے ہیں۔

ہم مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو اپنا نہیں سکے‘ انہیں own نہیں کر سکے ،ہم انہیں عصر حاضر کی تعلیم نہ دے سکے۔ مساجد اور مدارس کے لیے ہم نے معاشرے کا کمزور ترین طبقہ منتخب کیا۔ غربت اور کسمپرسی ہی یہاں داخلے کا میرٹ ٹھہرا۔ اہلِ ثروت نے اپنے بچوں کے لیے ماڈرن گرامر اسکولوں کا انتخاب کیا اور غریبوں کے بچوں کو مدرسوں کی راہ دکھائی۔ دین اور دینی تعلیم جیسے ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہ تھی ۔ ایسے میں مدرسوں نے اُن کی کفالت قبول کی، انہیں کھانا کھلایا ، رہائش دی اور دینی تعلیم بھی دی۔ یہ الگ بات کہ ازاں بعد قوم کو اِس کفالت کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہمارے مدارس کے بچے دینی جماعتوں کے سیاسی ورکر بن گئے۔ جس طرح ایک جاگیردار اپنے مزارعوں سے ووٹ لیتا ہے‘ ایسے ہی دینی جماعتوں نے اپنے زیرِ کفالت پلنے والے مدارس کے بچوں سے سیاسی بیگار لینا شروع کردی۔ ہم نے اِن بچوں سے سوال کرنے کی سرشت چھین لی، انہیں جاننے کے شوق اور ماننے کے ذوق دونوں سے دُور کر دیا، روبوٹک ذہنوں میں چند جذباتی نعرے فیڈ کردیے۔ عصرِ حاضر کے تقاضوں سے بے خبر یہ لوگ دین کے نادان دوست اور ناکام وکیل ثابت ہوئے۔ انہیں اسلام صرف دوسروں پر نافذ کرنے کی تعلیم دی گئی۔ دوسروں کے مسلک اور مکتب کو خارج از اسلام قرار دینا ان کی کل تعلیم ٹھہری ۔ ہم شرمندہ ہیں‘ ہم انہیں یہ نہیں بتا سکے کہ ایک کلمہ گو کسی دوسرے کلمہ گو کے کلمے پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ ہم یہ بتانا بھول گئے‘ ہم سب دسترخوانِ محمدی ؐ پر مہمان ہیں،اور کسی مہمان کے لیے روا نہیں کہ وہ کسی دوسرے مہمان کو دسترخوان سے اُٹھا دے۔

کلمہ ٔوحدت نے ہمیں ایک ہجوم کو قوم بنانے کی ذمہ داری عنایت کی تھی، لیکن ہم نے سیاسی اور مسلکی فوائد سمیٹنے کے لیے قوم کو ایک بے ہنگم ہجوم میں بدل دیا۔ ہم اسلام کی تبلیغ کے نام پر اپنے فرقے اور مکتبِ فکر کی تعلیم دینے میں مصروف رہے۔ ہم یہی بتاتے رہے کہ فلاں اور فلاں عقیدہ خراب ہے ، اور فلاں اور فلاں نظریہ فاسد ہے۔۔ہم یہ نہیں بتا سکے کہ کون سا اخلاق اور کردار اسلامی ہے۔ ہم اپنے سامعین کو یہ تو بتاتے رہے کہ یہ اور یہ عقیدہ رکھنے والا منکر ، کافر ، گستاخ اور منافق ہوتا ہے۔۔ لیکن کون سے اخلاق کریما نہ ہیں، کون سی سرشت مومنانہ‘ یہ بتانے میں ہم صریح غفلت کا شکار رہے۔ اِسلام اور ایمان کی شرائط گنوانے اور بتانے والے یہ نہیں بتا سکے کہ ’’وہ شخص مسلمان نہیں‘جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہیں‘‘۔ہم یہ تو بتاتے رہے کہ نماز اور زکوٰۃ چھوڑ دی تو مسلمان نہ رہو گے لیکن ایک عامی کو یہ نہیں بتا پائے کہ اگر تمہارے زبان اور ہاتھ سے کوئی ظلم بپا ہوا ٗ تو تمہارا اسلام میں رہنا مشکوک ہو جائے گا کیونکہ اسلام سلامتی کا دین ہے۔ ہم رسولِ رحمت ؐ کی یہ بات اپنی عوام کو نہیں بتا سکے کہ ’’جس میں عہد کی پاسداری نہیں‘ اُس کا کوئی دین نہیں، جس میں امانت داری نہیں‘ اُس کا کوئی ایمان نہیں‘‘۔گویا دینداری کا تعلق وعدے پورے کرنے کی خوبی کے ساتھ ہے اور ایمان کی صحت امانت داری کے ساتھ متعلق ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ “تم میں سے جو لوگ اسلام لانے سے پہلے اچھے انسان تھے ٗ وہ اسلام لانے کے بعد اچھے مسلمان ثابت ہوئے ” ۔ مراد یہ کہ مسلمان ہونے سے پہلے اچھا انسان ہونا لازم ہے۔ جس دین کی بنیاد اچھے اخلاق پر اٹھائی گئی ہےٗ اُس دین کی تعلیم و تبلیغ بنیادی انسانی اخلاقیات کے اسباق کے بغیر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتی۔

ہم اوراق اور عمارات کی تقدیس پر پہرہ دیتے رہے‘ حالانکہ سب سے بڑی مقدس عمارت کعبہ مشرفہ کے بارے میں ہادئ برحق نے فرما دیا تھا ’’اے کعبہ ! تُو کس قدر حُرمت کا حامل ہے، لیکن ایک مسلمان کی جان، مال اور عزت کی حُرمت تجھ سے بھی زیادہ ہے‘‘۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انسان کی حرمت کو عبادت گاہوں پر فوقیت دی گئی۔ ہم شرمندہ ہیں‘ ہم رسولِ رحمتﷺ کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں ‘لیکن اقوامِ عالم تک آپؐ کا اندازِ رحمت ہم نہیں پہنچا سکے۔ ہم اقومِ عالم سے شرمندہ ہیں‘ ہمیں روح ِ انسانیت کی پیاس بجھانے والا ایک آبِ حیات دیا گیا تھا لیکن ہم اس پر غاصب بن بیٹھے۔ اس آفاقی پیغام کو اپنا آبائی ورثہ سمجھ بیٹھے، اِس چشمہ ٔ حیات سے نہ تو خود فایدہ اُٹھایا اور نہ کسی اور ہی کو مستفید ہونے دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم دارِ عقبیٰ میں ثواب سمیٹنے کے لیے دن رات کوشاں رہے‘ عبادت کے ذریعے، پندو نصائح اور تبلیغ کے ذریعے … لیکن یہ بھول گئے کہ جس میزانِ عمل کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں‘ اُس کے بارے میں رسولِ کریم ؐ نے واضح فرما دیا ہے کہ’’میزانِ عمل میں سب سے بھاری چیز حسنِ اخلاق ہوگی‘‘۔ ہمیں جس محبوب ہستیؐ سے محبت کا دعویٰ ہے‘ اُس ہستیؐ نے اپنا مقصدِ بعثت بتلا دیا کہ ’’ مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا‘‘۔ ہم صرف چہرے پر سنت ِ رسولؐ سجانا کافی سمجھتے ہیں‘ اپنے ہاتھ اور زبان کو سنت میں ٹھہرانا قبول کیوں نہیں کرتے!! ہم فقط عبادت کی تبلیغ کرتے رہے اور خدمت کی ترویج کرنا بھول گئے۔ عبادات میں آگے اور معاملات میں پیچھے رہ جانے والے دین میں ترقی کر سکےٗ نہ دنیا میں۔ بنیادی انسانی اخلاقیات سے بے بہرہ ہو کر آخر ہم کون سا دین سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ہمارے قول و فعل میں اس قدر تضاد آ چکا ہے کہ ڈر لگتا ہے‘ کہیں ہم سے یہ پاکیزہ قول چھین نہ لیا جائے، ہم سے کلمہ واپس نہ لے لیا جائے۔ اگر مسلمان ہی اسلام پر بوجھ بن گئے ، اگر کلمہ گو ہی دنیا کو کلمے سے دُور کرنے کا سبب بن گئے تو کلمے والے اپنے کلمے کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ وہ ایک قوم کو دوسری قوم سے تبدیل کرتا رہتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ دیکھ لینا! کہیں ایسا نہ ہو‘ یہ کلمہ تم سے چھین کر چین والوں کو دے دیا جائے ۔ آپؒ نے ایک بار جمعہ کی محفل میں دعائیہ انداز میں فرمایا ’’یااللہ! اسلام کو مسلمانوں سے بچا‘‘ ایک درویش کے دل سے نکلی ہوئی دعا کسی وقت بھی قبول ہو سکتی ہے!! آج کے حالات میں یہ پیش گوئی نوشتۂ دیوار بنتی جا رہی ہے، اللہ‘ ربّ المسلمین نہیں‘ ربّ العالمین ہے اور اُس کے حبیبؐ فقط رحمت المسلمین نہیں‘ رحمت اللعالمین ہیں۔ رحمت اللعالمین ؐکے پیرو اگر عالمین میں رحمت کے سفیر نہیں بنتے تو کس منہ سے رسولِ رحمتؐ کا اُمتی ہونے کا دعویٰ کریں گے؟؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply