• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نکاح متعہ و نکاح مسیار میں فرق او رپاکستان میں قانون سازی۔۔نرجس کاظمی

نکاح متعہ و نکاح مسیار میں فرق او رپاکستان میں قانون سازی۔۔نرجس کاظمی

فَمَااسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً”
(ترجمہ: تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو)؛ القرآن سورہ النساء آیت نمبر24
چند دن قبل تحریک انصاف کے رہنما اور پاکستان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے پریانتھا کمارا کے افسوسناک قتل پہ ایک بیان دیا جو کہ کافی متنازع  بھی رہا۔ مگر اپنے اسی متنازع  بیان میں انہوں نے سوشل میڈیا ایکٹیوٹس اور بلاگرز تک ایک پیغام بھی پہنچایا کہ آپ کے فالو رز آپ کی بات مانتے ہیں تو عوام میں اچھے بپرے کی تمیز اور مختلف حوالوں سے شعور بیدار کریں تاکہ مختلف نئے قوانین بنانے کے حوالے سے حکومت کا کام آسان ہو۔

وزیر دفاع کی بات کسی حد تک درست بھی ہے غیر جانبدار اور قوم کا درد دل میں رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹیوٹس چونکہ کسی چینل سے منسلک نہیں ہوتے اور نہ ہی ان پر ہر موضوع پہ بات نہ کرنے کی قدغن ہوتی ہے، اور نہ ہی وہ کسی سے پیسہ لے کر اپنی بات ہم تک پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں جو بھی افسوسناک واقعات یا دیگر مسائل پیش آتے ہیں تو اس حوالے سے نہ صرف خبر کو پلک جھپکتے ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دیتے ہیں، بلکہ پہلے ہی اپنا ردِ عمل بھی غیر جانبداری سے دکھا دیتے ہیں۔ اور خبر میڈیا تک پہنچنے سے پہلے ہی پوری دنیا میں پھیل چکی ہوتی ہے۔

اکثر سیاستدان و دیگر بھی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی طاقت سے واقف ہو چکے ہیں تو اکثر مختلف بیانیوں میں اس پلیٹ فارم سے درخواست یا ہدایات بھی جاری کرتے رہتے ہیں ۔

اب چونکہ خبر عوام تک پہلے پہنچانے کا سہرا سوشل میڈیا کے سر جاتا ہے تو آپ کو بتاتی چلوں کہ پاکستان میں نکاح مسیار یا متعہ کے حوالے سے نئے قوانین بنائے جانے کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں ۔ اور اس حوالے سے مختلف مسلم فرقوں کے مولوی صاحبان سے قرآن و احادیث کے حوالے سامنے لائے جانے اور انہیں مرتب کئے جانے کی ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ دیکھیے  اب یہ کام اور قانون کتنے عرصے میں لاگو ہوتا ہے۔

جب تک یہ قانون بنتا ہے چلیے  ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ، کہ اس قسم کے نکاح کے بارے میں ہم کتنی معلومات رکھتے ہیں ۔ اس کیلئے ہم پہلے نکاح متعہ و مسیار میں فرق دیکھتے ہیں۔

1- نکاح متعہ کا حکم قرآن پاک میں واضح طور پہ ملتا ہے اسی وجہ سے نکاح متعہ نبی پاک حضرت محمدﷺ  نے اپنی زندگی میں جاری کیا تھا۔ اور اپنی زندگی کے اختتام تک اس نکاح کی حرمت کی پاسبانی بھی کی۔اس حوالے سے احکامات آج بھی وہی ہیں جیسا کہ چودہ سوسال پہلے تھے۔
جبکہ نکاح مسیار نبی پاک ﷺ  کی رحلت کے بعد جاری کیا گیا ،ساتھ ہی نکاح متعہ کو باطل قرار دے دیا گیا۔ لفظ مسیار سیر سے نکلا ہے۔ جس کے معنی مسیار منکوحہ کے پاس آمد ورفت جاری رکھی جائے۔ وہ مکمل طور پر مرد کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ جہاں قیام پذیر ہے وہیں رہتے ہوئے اپنے مرد کی ضروریات پوری کرتی رہے۔
بات تو ایک ہی ہے دونوں نکاحوں میں عورت مرد ہی کی ملکیت ہے مگر حق مہر کے واضح فرق کیساتھ ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک عمل جو اللہ تعالیٰ  اور نبی پاک ﷺ  مستحسن قرار دیں اور اس کے جاری رکھنے کا حکم دیں۔ اسے بعد میں آنے والے باطل کیسے قرار دے سکتے ہیں ۔ یہ تو کھلم کھلا حکم عدولی اور گستاخی ہے۔

اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ چاہے متعہ کیا جائے یا نہیں اسے حلال سمجھا جائے جیسے حلالہ کو حلال سمجھا جاتا ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ کیا بھی جائے۔ اسی لیے اس کا اتنا رواج نہیں ہے ۔ متعہ نکاح کے کچھ ضروری احکام ہیں جو مختلف آیت اللہ اور مجتہدین کی ویب سائٹس پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

2- نکاح متعہ اور مسیار میں ایک واضح فرق مدت کا ہے نکاح متعہ میں مدت معین ہوتی ہے جبکہ مسیار میں مدت کی قید نہیں ہوتی۔

3- نکاح مسیار طلاق یا فسخ کے ذریعے ختم ہوتا ہے جبکہ نکاح متعہ مدت پوری ہونے کے بعد۔

4- نکاح مسیار ختم ہونے کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں رہتی جبکہ نکاح متعہ کی مدت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ البتہ دونوں ہی نکاحوں کو دائمی نکاح میں بدلا جا سکتا ہے۔ نکاح متعہ سے پیدا ہونے والی اولاد جائز ہے اور والدین کی طرف سے حقوق پورے کیے  جانے کی حقدار اور والد کی جائیداد میں بھی برابر کی حصہ دار کہلائی جائے گی (حلالہ کے حوالے سے نئے قوانین بھی لاگو کئے جا چکے ہیں جس میں واضح کر دیا گیا ہے کہ مرد طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر بھی اپنی منکوحہ سے رجوع کر سکتا ہے ۔ )

4- نکاح متعہ میں عورت مکمل طور پر مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ مخصوص حق مہر ہوتا ہے جو مرد نکاح کے بعد عورت کو ادا کرتا ہے۔ اس کا ماہانہ خرچ ، رہائش اور دیگر اخراجات مرد کے ذمہ ہوتے ہیں۔ جبکہ نکاح مسیار میں یہ مرد کی ذمہ داری نہیں۔ عورت اپنے گھر پہ ہی رہے ،مرد کا دل کرے تو خرچہ دے ،نہ کرے تو نہ دے۔ نکاح متعہ میں عورت کے نان نفقہ کے حوالے سے واضح و سخت ہدایات ہیں۔ جبکہ نکاح مسیار چونکہ سیر و تفریح سے نکلا ہے تو اس میں ایسی کوئی شرط لاگو نہیں ہوتی ،نہ  ہی عورت رضامندی کے بعد تقاضا  کر سکتی ہے۔ اس وقت نکاح مسیار متحدہ امارات، لبنان، مصر، افغانستان، سوڈان اور شام میں رائج ہو چکا ہے۔

5- نکاح متعہ میں کنواری خاتون کیلئے  ولی کی اجازت لازمی ہے ورنہ متعہ باطل قرار دیا جائے گا۔جبکہ کنواری خواتین کے حوالے سے نکاح مسیار میں ایسی واضح شرط نظر نہیں آتی ۔

آخر میں نکاح متعہ و مسیار کے بارے میں ایک بات واضح کردوں کہ دونوں نکاح ہی وقتی ہیں، اور کسی بھی وقت توڑے جا سکتے ہیں۔

نکاح متعہ و مسیار کی آخر ضرورت ہی کیا ہے ، جبکہ مرد پہلے سے ہی شادی شدہ ہے ؟ اس کے جواب میں یہ بات واضح ہے کہ عورتیں بال بچوں سمیت ہر وقت ہی اپنے مردوں کے ساتھ لگی نہیں رہ سکتیں۔بہت سے لوگ تعلیم کے حصول یا تجارت وغیرہ کی غرض سے اپنے گھروں سے دور سفر پر جاتے ہیں اور ان کا وہاں قیام طویل ہو جاتا ہے۔اور ایسے افراد بھی ہیں کہ جن کی بیویاں ،بیماری یا حمل کی وجہ سے حق زوجیت ادا نہیں کر پاتیں۔
بہت سے فوجی ایسے ہیں جو بارڈر کی حفاظت کے لیے یا کسی اور وجہ سے لمبی ڈیوٹی پر اپنے گھروں سے دور چلے جاتے ہیں۔ جبکہ بیوی بچوں سمیت ایسی جگہوں پہ قیام ناممکن ہوتا ہے۔
کچھ مردوں کا مزاج اپنی بیویوں کیساتھ لگاؤ  نہیں کھاتا، ایسے مرد اپنے خاندان اور بچوں کی وجہ سے مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنی خواتین کو برداشت کریں ،بجائے اس کے کہ گھر اجاڑ کر بیٹھ جائیں۔ نتیجے میں ان کا جھکاؤ  دوسری خواتین کی طرف ہو جاتا ہے۔
کچھ مرد بیوی کے علاوہ دوسری خواتین میں کشش محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسی خواتین کو جائز طریقے سے حاصل کریں چاہے وقتی طور پہ ہی ایسا ہو۔

آپ اور ہم ایسے ہزار ہا قصے دیکھ اور سن چکے ہیں،اور اس کیلئے ایک عام اصطلاح گرل فرینڈ ، بوائے فرینڈ استعمال کی جاتی ہے جبکہ یہ ناجائز ہے،زنا ہے گناہ ہے ، اگر اس رشتے کو شرعی رشتے میں بدل دیا جائے تو کیا حرج ہے۔؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں متعہ و مسیار کا جائزہ لینے کے بعد ان کی حرمت واضح ہو جاتی ہے ۔ اکثر سنی مرد و خواتین مجھ سے متعہ کے بارے میں رائے لیتے ہیں تو میں انہیں چند لنکس بھیج دیتی ہوں کہ مطالعہ کر لیں۔ زنا سے بہتر ہے کہ آپ اپنے رشتے کو نکاح کے صیغوں میں لے آئیں، بجائے زنا کو صیغہ راز میں رکھنے کے۔ اور آپ کیلئے یقیناً  یہ بات حیرت کا باعث ہو گی کہ سنی خواتین و حضرات کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی نکاح متعہ سے استفادہ کر رہی ہے مگر چونکہ اکثریت کے نزدیک یہ فعل حرام ہے تو اس کا کھلم کھلا اقرار کوئی بھی نہیں کرتا۔ مگر جیسے ہی قانون پاس ہوا تو یقیناً وہ بڑی تعداد نظر آنا بھی شروع ہو جائے گی۔ یہ تمام باتیں آپ کو بتانے کا ایک مقصد ہے۔۔
اگرچہ نہ تو میں نے کبھی متعہ یا مسیار کیا ،نہ ہی مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ ہے۔ کیونکہ ذاتی طور پر اپنے لئے میں اس رشتے کو نہ پہلے پسند کرتی تھی نہ اب کرتی ہوں۔ میں دائمی نکاح پہ یقین رکھتی ہوں ۔اسی لئے اپنے لئے اسی کو ہی فوقیت دی ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں دوسروں پہ بھی اسی رشتے کو اپنانے پر زور دوں۔ آج تک کوئی کسی کو زنا سے روک سکا ہے؟ زنا ایک فعل حرام ہے اس حوالے سے کسی کو اخلاقی درس تو دیا جاسکتا ہے مگر روکا نہیں جا سکتا تو بہتر یہ ہے کہ متعہ یا مسیار کا مشورہ دے کر اخلاقی اور شرعی مدد کر دی جائے ۔

آج کے دور کی مختلف نسل پہلے ایکدوسرے کو اچھے طریقے سے سمجھنا چاہتی ہے پھر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہتی ہے ۔ ایک تو ہر قسم کا جنسی مواد پہلے ہی ان کی دسترس میں ہے۔دوسرے شادی ایک مہنگی عیاشی ہے، گھر میں بڑے بہن بھائیوں کی اَن بیاہی فوج بیٹھی ہے تو جب تک ان کی شادی نہیں ہوجاتی اور شادی کے اخراجات پورے ہوں، تب ہی اپنی باری آنے پر ایسا ممکن ہے چاہے ادھیڑ عمر میں ہو۔ان حالات میں نوجوان نسل فرسٹریشن کا شکار ہو کر کہاں جائے ۔ تو میرے خیال میں انہیں اب نکاح مسیار یا متعہ کا حق حاصل ہونا ہی چاہیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حضرت علی ع کا بھی فرمان ہے کہ ” نئی نسل نئے زمانے کے لئے پیدا کی گئی ہے تو اس کی تربیت ان کے زمانے کے لحاظ سے کرو” اب نئی نسل ہماری طرح فرسٹریشن یا پابندی کے ماحول میں نہیں رہ سکتی تو ہماری طرف سے ان کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔ موبائل فونز اور انٹرنیٹ کی سہولت نے دنیا کہاں کی کہاں پہنچا دی  ہے اور آج کے دور میں جس طرح ہمارے ہاں زنا عام ہو چکا ہے تو آج کی نوجوان نسل کو اس گناہ کبیرہ سے بچاؤ کے حوالے سے ایک مخلصانہ مشورہ دیا جا سکتا ہے یعنی نکاح متعہ و مسیار کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply