افسانہ/تنہائی یکجائی(1)۔۔شاہین کمال

میرا نام عبدل سمیع ہے۔ میری زندگی نہ پوچھیے، گویا تنہائی کی تصویر و تفسیر تھی ،مجھے لوگوں سے بہت گھبراہٹ ہوتی تھی ۔
نہیں نہیں میں آدم بےزار نہیں!
پر جانے کیوں دوسرے لوگوں سے connect نہیں کر پاتا ، آغاز گفتگو کے ہنر سے نا آشنا اور تکلم کے تسلسل کو قائم رکھنے سے بھی بےبہرہ ۔
مجھے لطیفوں پر ہنسی بھی نہیں آتی تھی اور سیاست سے تو مجھے دلی نفرت ہے۔ ادب سے ضرور لگاؤ تھا مگر میں دیر تک کتابیں پڑھنے سے قاصر کہ میری آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگتے تھے اور میں کسی بھی چیز پر دیر تک توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتا ۔

میں کراچی یونیورسٹی میں فزیکل کیمسٹری پڑھاتا تھا۔ مجھے دیکھ کر میرے طالب علموں کا آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کرنا اور زیر لب مسکرانا مجھے اچھی طرح سے یاد ہے۔ یہ صرف ایک یاد نہیں بلکہ ایک تکلیف دہ یاد ہے۔
مجھے ان کی معنی خیز ہنسی بری تو نہیں لگتی تھی پر ہاں تکلیف ضرور ہوتی تھی، اور میں ہر پل دعا گو رہتا ہوں کہ “جو کچھ میں نے دیکھا اور سہا ہے وہ اب دنیا کا کوئی ذی روح نہ سہے اور ہر انسان اس    عذا ب سے محفوظ رہے۔ ”
میری بد حالی  ،میرے دو رنگ کے موزے اور میرا گم سم انداز صرف میرے طلبہ ہی کے لیے نہیں بلکہ میرے کولیگز کے لیے بھی باعث تفنن    تھا۔
انہیں کیا معلوم جب زندگی سے رنگ نچڑتا ہے تو انسان صرف بدحواس ہی نہیں بلکہ بےحس بھی ہوجاتا ہے۔
1971 کے سقوط مشرقی پاکستان میں، میں نے اپنا پورا خاندان کھو دیا تھا۔ سب کے سب سید پور میں بےدردی سے شہید کر دیے گئے تھے۔
اس سانحے کے بعد میری آنکھوں پر گویا لال چادر تن گئی تھی ۔
میں اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنا تھیسس مکمل کر کے جمع کرانے گیا تھا اور میرے پیچھے میرا سارا کنبہ سید پور میں قتل کر دیا گیا۔
امی ابا، سلیم، عفت (میری چھوٹی بہن) اور میری بیوی بلقیس اور میرا ننھا چھ ماہ کا حسنین۔۔۔ سب کے سب ایک پل میں نفرت کی جنون کی زد میں آ کر اس صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔
آرمی کریک ڈاؤن کے وقت میں بھی بختیار بھیا جو کہ میرے چچازاد بھائی تھے اور پاک فوج میں میجر تھے۔ ان کی وجہ سے آرمی والوں کے ساتھ اپنے گھر والوں کی کھوج میں سید پور گیا۔
پورا شہر ویرانہ تھا! سنسان!
کتے بھی لاشیں بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر آسودہ اور بدمست ہو کر ادھر اُدھر پڑے ہوئے تھے۔
وہ شہر کب تھا؟
وہ تو ایک لٹا پٹا جلا ہوا تعفن زدہ کھنڈر تھا۔

میں اپنے جلے ہوئے گھر کی دہلیز پر بے ہوش ہو کر گر پڑا تھا۔ بختیار بھیا ہی نے گھر والوں کی  باقیات اکٹھی  کیں ، اور ان کی تدفین کی۔ عفت اور بلقیس کی لاشیں گھر سے نہیں بلکہ قریبی جنگل سے برہنہ ملیں ۔ میرا  چھ ماہ کا حسنین بھی لخت لخت اپنی دادی کی لاش کے نیچے دبا پڑا تھا۔
اس دن کے بعد سے میں شاید کبھی پھر ہوش میں آیا ہی نہیں ۔بختیار بھیا کے ساتھ ہی میں بھیPOWہوا اور سنہ 74  میں شکستہ دل اور لٹا پٹا انڈیا سے کراچی پہنچا۔ مختلف کالجوں سے ہوتے   کب کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہوا کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔ عجیب میکانکی انداز میں دن بسر ہو رہے تھے۔ سانس لینے کی حد تک تو میں یقیناً زندہ تھا مگر مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس زندگی کے ساتھ کروں کیا؟
اس کو کیسے برتوں؟
دن تو جیسے تیسے یونیورسٹی میں گزر جاتے تھے پر گھر واپسی کا خیال ہی سوہان روح ہوتا۔ اپنے یوسف پلازہ کے فلیٹ میں واپسی کا سوچ کر مجھے موت پڑتی تھی کیوں کہ ہر رات ستمگر تھی،ہر رات قیامت تھی۔ہرشب کرب و بلا ، ہر رات میرا فلیٹ پرچھائیوں اور آہ و بکا سے بھرا جاتا اور ساری رات میں بھی ان کے ساتھ ماتم کناں رہتا۔
جتنی سانسیں لکھنے والے نے لکھی تھیں  سو تو پوری کرنی ہی تھیں  کہ اس کا “کُن” لمحہ مقرر سے ایک پل بھی ادھر ادھر نہیں ہو سکتا۔
میری زندگی جمود کا شکار تھی۔
نہ اس میں انتظار تھا اور نہ رنگ۔
میرے عزیزوں رشتہ داروں نے مجھے دوبارہ شادی پر راضی کرنے کی بہت کوشش کی اور تنہائی کے مضمرات سے آگہی بھی دی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے بھی دوسراہٹ چاہی تو ضرور مگر مجھے لگتا تھا کہ میں آنے والی کے ساتھ انصاف نہیں کر پاؤں گا۔ اس لیے میں یہ قدم اٹھانے سے باز ہی رہا۔ میری تو جیسی تیسی گزر ہی رہی تھی کسی دوسرے کی زندگی کیا برباد کرتا۔
میں رات گئے تک چائے خانے پر بیٹھا رہتا کہ گھر مجھے ڈستا تھا اور مجھے پرچھائیوں کے بین سے خوف آتا تھا۔

پچھلے دنوں شدید سردی تھی۔ کراچی میں خیر سردی کہاں مگر جب جب کوئٹہ کی ہوا چلتی ہے تو رگوں میں لہو جما دیتی ہے۔ اس رات کھانا کھانے کے بعد میں منہ سر لپیٹے ڈھابے سے واپس فلیٹ کی طرف آ رہا تھا کہ اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں کے کونے پر مجھے کپکپاتا ہوا ایک بلونگڑا ملا۔ اس نے جیسے ہی مجھے دیکھا میری ٹانگوں سے اپنے آپ کو رگڑنے لگا۔ وہ نہایت نحیف و نزار تھا۔ اس کے بڑے بڑے سفید اور کالے بال اور ہری ہری خوبصورت آنکھیں   تھیں  ۔ ایک لمحے کو تو میرا دل پسیجا اور چاہا کہ اسے اٹھا لوں۔ پھر دوسرا خیال آیا کہ میں کہاں یہ درد سری پالتا پھروں گا۔ میں اپنے پیروں کو جھٹک کر اس سے جان چھڑا کر سرعت سے سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ میرے پیروں کے جھٹکے سے وہ گر گیا اور میاؤں میاؤں کرنے لگا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا وہ سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش میں لڑھک لڑھک کر نیچےگر رہا تھا۔
میں فلیٹ میں آنے کو آ تو گیا مگر طبیعت  عجب سی ہوگئی ،بے کیفی و اضطراری طاری تھی۔ نہ لیٹتے چین تھا اور نہ  بیٹھتے   اور میں دل سے مجبور و بےاختیار ہو کر آدھ گھنٹے بعد ہی دوبارہ سیڑھیاں اتر رہا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی وہ پھر سے میاؤں میاؤں کرتا ہوا بےقراری سے آگے لپکا۔ اس کی آنکھوں کی چمک غماز تھی کہ وہ ابھی بھی انسانیت سے مایوس نہیں ہے، جیسے اس کے معصوم سے دل میں میرے لوٹ آنے کا یقین زندہ ہو۔
میں نے آہستگی سے اس کپکپاتے بلونگڑے کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور تیزی سے سیڑھیاں طے کرتا ہوا اوپر اپنے فلیٹ میں آ گیا۔ جلدی سے ایک جوتے کے ڈبے کو خالی کر کے اس میں پہلے اخبار اور اس کے اوپر پرانا تولیہ بچھایا۔ اس ڈبے میں بلونگڑے کو رکھ کر اس ڈبے کو ہیٹر کے قریب رکھ دیا پھر باورچی خانے جاکر اس کے لیے تھوڑا سا دودھ گرم کیا۔ دودھ غٹا غٹ پی کر بھرے پیٹ اور ہیٹر کی گرمائش سے آسودہ ہو کر اس کی آنکھیں بند ہونے لگی۔ بس مجھے ایک فکر تھی کہ جانے یہ کہاں کہاں گندگی کرتا پھرے گا؟
بہرحال اب جو ہو سو ہو۔ میں پلنگ پر آلتی پالتی مارے رضائی اوڑھے کافی دیر تک اسے تکتا رہا۔ اپنے دونوں پنجوں میں اس نے اپنی گلابی ناک دبوچی ہوئی تھی اور سانس کے زیرو بم سے اس کا ننھا سا جسم دھڑک رہا تھا۔ بہت زمانے بعد میں نے دل سے خوشی محسوس کی تھی۔

جانے کب میری آنکھ لگ گئی؟

شاید میں بیٹھے بیٹھے ہی بستر پر لڑھک گیا تھا۔ فضا فجر کی اذان سے گونج رہی تھی۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہوتے ہی میرا ذہن آج کے دن کا مکمل پلان بنا چکا تھا۔ میری کھٹر پٹر سے بلونگڑے کی آنکھیں بھی کھل گئی۔ اسے اٹھا کر غسل خانے میں نالی کے پاس رکھا اور میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے اسے تھوڑی ہی دیر میں نالی پر فارغ ہوتے دیکھا۔ فراغت کے بعد معصومیت سے منہ اٹھا مجھے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو
” کیوں جناب ناشتے کا کیا انتظام ہے؟ ”

مجھے ہنسی آ گئی اور میں اپنی ہنسی کی بازگشت پر خود ہی چونک گیا (جانے میں کتنے زمانوں بعد ہنسا تھا)۔ میں نے اپنی دودھ پتی میں سے تھوڑا سا دودھ نکال کر اسے طشتری میں ڈال کر دیا۔ اس نے بڑی رغبت سے پیا۔ پھر میں نے چائے میں بھیگے پاپے کے دو تین ٹکڑے اس کی طشتری میں ڈالے اور وہ انہیں بھی ترنت ہی چٹ کر گیا پھر بڑے آرام سے بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کرنے لگا۔ صفائی کے بعد اپنی الماس رنگ آنکھوں سے گویا مجھ سے داد طلب کی اور میرے ذہن میں جیسےجھماکا سا ہوا اور میں نے کہا”سنو میاں! تمہارا نام جیڈ jade ہے”
اس نے بری متانت سے میاؤں کی، گویا اسے میرا دیا ہوا نام قبول ہے۔
ناشتے سے فارغ ہوتے ہی میں نے دس دنوں کی چھٹی کی درخواست لکھی اور یونیورسٹی روانہ ہوا۔ ڈین صاحب میری چھٹی کی درخواست پر ششدر تھے کہ میں نے آج تک ایک بھی چھٹی نہیں کی تھی۔ سوکھا ہو، ساون ہو کہ باڑھ ہو میں ہر حال میں یونیورسٹی میں موجود ہوتا تھا۔ انہوں نے ایک لفظ بھی پوچھے بغیر درخواست پر دستخط کر دیئے اور میں خوشی خوشی الٹے پیروں فلیٹ پر واپس آ گیا۔ واپسی پر بازار سے اس کے لیے پنگ پانگ کی گیند لینا نہیں بھولا تھا ۔
ان دنوں میری صرف ایک ہی مصروفیت تھی۔۔جیڈ(jade) کو کھیلتے دیکھنا، اسے کھلانا، اس کے پیالے میں تازہ پانی بھر کر رکھنا اور اس کے بالوں میں برش کرنا۔ اب جیڈ کی صحت بہت اچھی ہو گئی تھی،اور شرارتیں کئی گنا بڑھ چلی تھیں۔ میں اب رات میں اسے اپنے ساتھ رحمت کے ڈھابے پر بھی لے جاتا تھا۔ وہاں وہ بڑے مزے سے میری گرم چادر میں گول ہو کر بیٹھا رہتا جب اسلم کھانا ٹیبل پر چنتا تو یہ چادر کی بکل سے اچھل کر ٹیبل پر آ جاتا اور میں گوشت اور روٹی مسل مسل کر اسے لقمہ ڈالتا جاتا۔ رحمت کو اس کا نام نہیں سمجھ میں آتا تھا سو وہ اسے جیڈی پکارتا تھا۔ رفتہ رفتہ سارے ہوٹل والے اسے جیڈی کہنے لگے اور جیڈ بھی سب سے ہل مل گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply