افسانہ/تنہائی یکجائی(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

جیڈ کو میرے پاس اب سال سے اوپر ہو چلا تھا۔ جولائی کے مہینے کی بات ہے یونیورسٹی میں گرمیوں کی تعطیلات تھیں ۔میں اپنے کپڑے استری کر رہا تھا اور جیڈ مسلسل باوجود میرے منع کرنے کے استری کی ہلتی تار سے کھیل رہا تھا۔ میں ایک دم زور سے چیخا
“حسنین مت کرو ایسے”
میں ساکت ہو گیا!
یہ کس نام سے پکارا میں نے جیڈ کو؟
پھر جو میں جیڈ کو گلے لگا کر زارو قطار رویا ہوں کہ مت پوچھیے، جانے کب کب کے رُکے ہوئے آنسو بہا دیے۔ شام تک کہیں جا کر طبیعت بحال ہوئی مگر دل اتنا ہلکا ہو گیا جیسے بارش کے بعد فضا خوشگوار ہو جاتی ہے۔
میں جیڈ سے اپنے گھر والوں کی، اپنے دوستوں کی اور اپنے بچپن کی باتیں کرتا رہتا اور وہ معصومیت سے منہ اٹھا کر سنتا سنتا جانے کب سو جاتا۔
اب مجھ میں جینے کی امنگ جاگ رہی تھی۔
اس بات کا اندازہ مجھے یوں ہوا کہ میں اپنی کپڑوں کی الماری ٹھیک کر رہا تھا تو مجھے اپنے کپڑے اتنے پرانے اور بوسیدہ لگے کہ میں حیران رہ گیا
میں اب تک یہ پہنتا آیا ہوں؟
دوسری شام میں صدر گیا اور اپنے لیے چھ ریڈی میڈ شرٹس اور چار پینٹ کے کپڑے لیے اور واپسی پر واٹر پمپ میں درزی کو پینٹ سینے کے لیے دیتا ہوا آیا۔ واٹر پمپ کے بازار ہی میں سروس کی دکان سے ایک جوڑا جوتے کا اور ایک جوڑا کالی سینڈلوں کا مول لیا۔ چار عدد بیڈشیٹ اور کچھ پلیٹیں اور چائے کے مگ بھی خریدے۔ مجھے اب گھر کی ہر چیز اس قدر آوٹ ڈیٹڈ( out dated) اور بد رنگی لگنے لگی تھی کہ مجھے اپنے آپ پر حیرت ہونے لگی تھی کہ آخر میں کس طرح رہ رہا تھا؟
میں اب اپنے آپ کو محسوس کرنے لگا تھا اور مجھ پر موسم بھی اثر انداز ہونے لگے تھے۔ میں اسٹاف روم میں روز مرہ کی گفتگو میں شریک ہونے لگا تھا مگر سیاست کے موضوع سے اب بھی کوسوں دور بھاگتا تھا۔
میرا بیسٹ فرینڈ اب بھی صرف جیڈ ہی تھا۔
بس جیڈ کی ایک عادت ناپسند تھی وہ یہ کہ بچپن کی طرح وہ اب بھی میری گردن سے لگ کر سوتا تھا۔ اب وہ بلونگڑہ تو تھا نہیں چار سال کا صحت مند بلا تھا اور خاصہ وزنی بھی لاکھ میں اسے ہٹاتا پر تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر میری گردن میں گھسا خرخر کر رہا ہوتا۔

اب جیڈ صبح ہی صبح میرے ساتھ نکل جاتا اور محلے میں ادھر ادھر مارے کھکھیڑے پھرنے کے بعد دن میں رحمت کے ہوٹل میں جا کر سو جاتا۔ میں جیسے ہی یونیورسٹی سے واپسی پر بس اسٹاپ پر اترتا وہ بھی گلی کے نکڑ پر آ جاتا اور ہم دونوں اکٹھے گھر واپس آتے۔ ایک بری بات یہ ہوئی کہ باہر رہنے کی وجہ سے جیڈ اب خاصا آوارہ اور لڑاکا ہو چلا تھا۔ آئے دن دوسرے بلوں سے لڑائی کر کے زخمی ہوتا۔ میں نے چاہا بھی کہ  بچپن کی طرح اسے فلیٹ میں بند کر کے ہی یونیورسٹی جاؤں مگر اس کی بےچینی اور اداسی آڑے آ جاتی تھی ۔

ہم دونوں کے دن مزے سے گزر رہے تھے اور میں احسان مند تھا جیڈ کا جس نے مجھے دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔ اب بھی اکثر راتوں میں گھر میں پرچھائیاں آتی تھیں پر اب وہ بین نہیں کرتی  تھیں بلکہ ان سےایسے گپ شپ ہوتی تھی جیسے ہم لوگ سید پور میں شام کے وقت آنگن میں بیٹھ کر کیا کرتے تھے اور اب مجھے وحشت نہیں ہوتی تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اب مجھے کچھ کچھ تنہائی بھی ستانے لگی تھی مگر کہتا تو کس سے کہتا؟
سب عزیز رشتے دار شادی کے لیے اسرار کر کر کے ہار گئے تھے اور میری” نہ ” ہاں میں نہ بدلی تھی ۔
اب کہتا تو کیا کہتا اور کس منہ سے کہتا؟
کولیگز سے میری اس قدر بےتکلفی نہیں تھی کہ ان سے اس قدر ذاتی مسئلہ ڈسکس کرتا۔ سوچ بچار کے بعد میں نے اپنی مسجد کے امام صاحب سے بات کرنے کی ٹھانی اور ایک دن عشاء کی نماز کے بعد تنہائی میں ان کے سامنے اپنا سوال رکھ دیا۔
امام صاحب کے بشرے سے حیرانی ظاہر تھی پر انہوں وعدہ کیا کہ وہ ضرور میرے رشتے کے سلسلے میں کوشش کرینگے۔ شرم تو مجھے بھی آ رہی تھی کہ بھلا چھپن سال بھی کوئی عمر ہے شادی کی  ؟ مجبوری یہ تھی کہ جیڈ کے باوجود اب تنہائی محسوس ہونے لگے تھی۔ میں بولتے بولتے تھک چکا تھا۔ اب دو طرفہ مکالمے کی شدید آرزو تھی۔
میں نے امام صاحب پر زور دیا کہ کوئی مطالقہ یا بیوہ ہی خاتون ہوں ۔
مہینے گزر گئے امام صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ میں انہیں یاد دہانی کی ہمت اپنے اندر نہ پاتا تھا۔ شاید اس تنہائی ہی کے سبب میرے مزاج میں رنجیدگی اور چڑچڑا پن بڑھ چلا تھا۔
جیڈ نے یہ تبدیلی نوٹ کر لی تھی اور اپنا پیار مزید بڑھا دیا تھا پر طبیعت کی یاسیت برقرار رہی کہ اب دل کا مطالبہ کچھ اور تھا۔ ایک رات میں اگلے دن کا لیکچر تیار کر کے، کپڑے وغیرہ پریس کر کے بس لیٹنے ہی لگا تھا کہ قریباً گیارہ بجے دروازے کی گھنٹی بجی۔
الہی کون؟
دروازہ کھولا تو امام صاحب کھڑے تھے۔
انہیں دیکھ کر دل خوشی سے دھڑک اٹھا۔ انہیں عزت سے بیٹھک میں بیٹھایا اور چائے کا پوچھا تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے قریب بیٹھا لیا اور کہنے لگے کہ میاں اپنے طور پر تو میں نے بہت تلاشا، سمجھ دار و ذمہ دار لوگوں سے ذکر بھی کیا پر باتیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ میں دل ہی دل میں سخت شرمندگی محسوس کر رہا تھا اور ہمت نہ ہوتی تھی کہ آپ کو ٹکا سا جواب دوں۔ میں نے اپنی بیوی سے ذکر کیا تو وہ خوب   ہنسی  اور کہنے لگیں لو بغل میں بچہ اور شہر بھر میں ڈھونڈرا  ۔۔
میں پوچھا “کیا مطلب نیک بخت؟”
کہنے لگیں “امام صاحب اپنی رفعت کی اردو کی استانی ہاجرہ میں کیا برائی ہے؟”
میں تو اچھل ہی پڑا۔
کہا نیک بخت یہ تو بہت ہی معقول جوڑ ہے۔
دونوں ہی اہل زبان ہیں اور ہم پیشہ بھی اور سب سے بڑی بات کہ زخم خوردہ بھی۔
“بی بی تم ہاجرہ کا عندیہ تو لو۔”
تو آج میں عشاء پڑھا کر جو گھر گیا تو زوجہ نے بتایا کہ اس دکھیاری کو بھلا کیا اعتراض۔۔
اس کا جگر پہلے ہی بھابی کے طعنوں تشنوں سے چھلنی ہے۔ اگر جو کہیں آسرا مل جائے تو فبیہا۔
بس میاں میں تو بھاگا بھاگا تمہارے در پہ  آ گیا۔
پر کچھ بھی کہنے سے پہلے ہاجرہ کی بپتا سن لو۔
عمر اس کی کوئی انچاس پچاس کے قریب ہو گی۔ اکہرے بدن اور شکل و صورت کی معقول، سبھاؤ میں اعلیٰ۔ میرے گھر اس کا برابر آنا جانا رہتا ہے اور میری زوجہ کی چھوٹی بہنوں جیسی ہے۔ سرکاری اسکول میں استانی ہے۔
ہے مگر کم نصیب۔ شادی کے چوتھے سال ہی طلاق ہو گئی تھی وجہ اس کا بانجھ پن ہے۔ بھائی بھاوج کے ساتھ رہتی ہے، بھاوج آدھی سے زیادہ تنخواہ بھی اینٹھ لیتی ہیں اور جی بھر کے اس بد نصیب کا کلیجہ بھی جلاتی ہیں۔
تم ملنا چاہو تو میرے گھر پر اس کا انتظام ہو سکتا ہے کہ شریعت میں اس کی اجازت ہے۔
میری تو خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا۔
میں نے کہا نہیں ملنے کی ضرورت نہیں مجھے رشتہ منظور ہے۔
امام صاحب میری بےتابی پر مسکرا دیئے۔
ٹھیک ہے میاں پھر چاند کی چودھویں کو بعد مغرب نکاح رکھ لیتے ہیں۔ بارہ دن ہیں تمہارے کنے تیاری کر لیجئو ۔ اس بیچ میں ہاجرہ کے بھائی اسلام سے بات کر لیتا ہوں اور اپنے ہی گھر پر تمہاری اور اسلام کی ملاقات کروا دیتا ہوں۔ اسلام کی بیوی کو جتنی دیر سے اس معاملے کی خبر ہو اتنا ہی دونوں پارٹیوں کے لیے بہتر ہے۔

ٹھیک ہے میاں تم تیاری پکڑو۔
امام صاحب جب دروازے سے نکلنے لگے تو میں نے   جھجھکتے  ہوئے کہا امام  صاحب   بس ایک بات ان سے ضرور معلوم کر لیجئے گا کہ انہیں بلی پر تو کوئی اعتراض نہیں؟
کہ میں جیڈ کو نہیں چھوڑ سکتا!
اگر وہ ہم دونوں کو قبول کرتی ہیں تو میں دل و جان سے حاضر ہوں۔
امام صاحب خوب ہنسے اور کہنے لگے میاں! بےفکر رہو وہ دکھیا تو جانوروں پر اپنی ممتا لٹاتی پھرتی ہے، تمہارا جیڈی بالکل محفوظ رہے گا۔
“کیوں میاں جیڈی شہ بالا بنو گے اپنے مالک کے؟”
امام صاحب یہ کہتے ہوئے ہنستے ہوئے سیڑھیاں اتر گئے۔
دو دن بعد میری اسلام صاحب سے امام صاحب کے گھر ملاقات ہوئی اور سارے معاملات طے پا گئے۔ یہ طے ہوا کہ  ہاجرہ کا نکاح امام صاحب کے گھر پر ہو گا اور وہاں صرف اسلام صاحب اور ہاجرہ ہونگے۔ نکاح کے بعد رخصتی ہو جائے گی اور ولیمہ میری مرضی پر منحصر ہے کہ میں جب اور جہاں چاہےکروں اور چاہے جتنے افراد بلاؤں۔
بس جناب خیر سے نکاح ہو گیا۔
چھوٹے پیمانے پر گلی میں شامیانہ لگا کر ولیمہ بھی کر لیا۔ ہاجرہ کی بھابھی خوب چیخی چلائی پر اب کیا ہو سکتا تھا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔

ہاجرہ نہایت سادہ اور بہترین سبھاؤ کی خاتون ہیں۔ مجھے ان کے پہلے میاں کی کم نصیبی پر افسوس ہوتا ہے کہ کیسا ناقدرا شخص تھا۔ کیا ہوتا جو وہ بے اولادی کو مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کر لیتا اور ان کی قدر کرتا۔ جانے انسان سارے فیصلے اپنے ہاتھوں میں کیوں رکھنا چاہتا ہے؟
اتنا فرعون کیوں بن جاتا ہے انسان؟
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری زندگی میں اتنے خوشگوار دن بھی آ سکتے ہیں۔ عرصے دراز بعد مجھے گھر کی آسودگی اور سہولت میسر آئی تھی۔ ہاجرہ بہترین شریک حیات ثابت ہو رہی تھیں اور میں اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر بجا لاتا کم تھا۔

یہ جیڈ کا مجھ پر احسان ہے کہ وہ دوبارہ مجھے زندگی کی طرف لے آیا۔ کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کسی کی زندگی میں بہتری اور بدلاؤ لانے کے لیے بعض اوقات اللہ تعالیٰ جانور کو بھی چن لیتے ہیں۔
واقعی رب کے بھید رب جانے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ہیپی اسٹوری کا صرف ایک پہلو ذرا دردناک ہے اور وہ یہ کہ اب جیڈ میاں مجھ سے زیادہ ہاجرہ سے پیار کرنے لگے ہیں۔ کیسا طوطا چشم نکلا یہ جیڈ بھی۔
اور ہاجرہ! ہاجرہ کا تو پوچھئے ہی مت جیڈ سے یوں دلار کرتی ہیں کہ کیا کوئی اپنی اولاد سے کرتا ہو گا۔
مگر ہم تینوں بہت خوش ہیں اور یہ مثلث   ایک دوسرے کی سنگت سے بہت محظوظ ہوتی ہے۔
میں اب کھل کر ہنستا ہوں اور لوگوں سے بڑی آسانی سے گفتگو میں پہل بھی کر لیتا ہوں ۔
سچ ہےخوشی انسان کا اندرون بیرون سب بدل دیتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply