کینسر (53) ۔ معدے کا بیکٹیریا اور پاگل سائنسدان/وہاراامباکر

کارسنوجن میں سب سے عجیب دریافت وائرس یا کیمیکل نہیں بلکہ ایک خلیاتی جاندار تھا، جو کہ ایک بیکٹیریا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیری مارشل اور رابن ولیم آسٹریلیا کے رائل پرتھ ہسپتال میں پیٹ کی سوزش، گیسٹرائٹس پر تحقیق کر رہے تھے۔ اس سے بڑھ کر السر اور پھر معدے کا کینسر بن سکتا ہے۔
صدیوں سے گیسٹرائٹس کا تعلق سٹریس اور نیوروسس سے سمجھا جاتا تھا۔ لیکن وارن کا خیال تھا کہ ایسا نہیں۔ اس کا تعلق کسی نامعلوم بیکٹیریا کے ساتھ ہے۔ اس وقت کے راسخ خیالات کے مطابق ایسا ہونا ناممکن تھا۔ معدے کی تیزابیت والے ماحول میں بیکٹیریا؟ وارن لکھتے ہیں، “ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ معدے میں بیکٹیریا نہیں اگتے۔ یہ ایک “معلوم فیکٹ” سمجھاتا جاتا تھا۔ لیکن یہ ویسا تھا جیسے ہر کوئی سمجھے کہ زمین چپٹی ہے”۔
وارن کی نظر میں معدے کی سوزش کی رائج تھیوری بے تکی تھی۔ جب وہ السر یا گیسٹرائٹس کے مریضوں کی بائیوپسی دیکھتے تھے تو السر میں ایک دھندلی نیلی تہہ نظر آتی تھی اور جب اس کو بہت غور سے دیکھا جائے تو اس میں چکردار جراثیم بھرے پڑے ہوتے تھے۔
وارن اس کے قائل تھے کہ یہ جاندار بیکٹیریا کی نئی نوع ہیں اور گیسٹرائٹس اور السر ان کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اس کو کسی پلیٹ یا کلچر میں الگ نہیں کر سکے تھے۔
دوسرے اسے دیکھ نہیں سکتے تھے۔ وارن اسے اگا نہیں سکتے تھے۔ وارن کی پوری تھیوری، نامعلوم جانداروں کی نیلی دھند میں سائنس فکشن لگتی تھی۔
بیری مارشل کو وارن کا خیال بھایا تھا۔ انہوں نے مریضوں کے السر کے مواد کو لیبارٹری ڈش میں اکٹھا کرنا شروع کیا۔ انہیں امید تھی کہ اس میں بیکٹیریا بڑھا سکیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہفتوں پر ہفتے گزرتے گئے۔ ڈشوں کے ڈھیر لگتے گئے جن کو چند روز کے معائنے کے بعد پھینک دیا جاتا۔
لیکن پھر غیرمتوقع واقعہ ہو گیا۔ 1982 میں ایسٹر کی چھٹیوں میں ہسپتال میں مریضوں کا رش تھا۔ مارشل کو سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ ان ڈشوں کا معائنہ کرنا یاد نہیں رہا۔ جب یاد آیا تو انہوں نے دیکھا کہ بیکٹیریا کے چھوٹی کالونیوں کے گروپ اگ چکے ہیں۔ طویل انکوبیشن کا انتظار ضروری تھا۔ یہ سست رفتاری سے بڑھنے والے نازک جاندار تھے۔ ایسے چکردار دم والے بیکٹیریا پہلی بار دریافت ہوئے تھے۔ وارن اور مارشل نے اس کا نام ہیلیکوبیکٹر پائیلوری رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ان کا موجود ہونا کافی نہیں تھا۔ ان کا السر کے ساتھ موجود ہونا بھی کافی نہیں تھا۔ یہ ثبوت درکار تھا کہ ان کیوجہ سے گیسٹرائٹس ہوتا ہے۔ کوک کے تیسرے پوسچولیٹ کے مطابق یہ دکھایا جانا ضروری تھا کہ اس کو اگر دوسرے ہوسٹ میں لے جایا جائے تو بیماری بھی منتقل ہو جاتی ہے۔
مارشل اور وارن نے یہ تجربہ سور پر کیا اور ان کی اینڈوسکوپی (جو خاصا مشکل کام تھا) سے السر معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں ملے۔ انسانوں پر یہ تجربہ کرنا اخلاقی طور پر ناممکن تھا۔ اس کا جواز کیسے دیا جا سکتا تھا کہ ایک انسان کو نئے اور نامعلوم بیکٹیریا سے انفیکٹ کیا جا رہا ہے تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس سے گیسٹرائٹس ہوتا ہے جو کہ کینسر کا موجب بھی ہو سکتا ہے؟
جولائی 1984 تک تجربات رک چکے تھے اور اس کے مزید جاری رہنے کے لئے گرانٹ خطرے میں تھی۔ اس وقت مارشل کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا۔
تجربے کے روز صبح انہوں نے ناشتہ نہیں کیا۔ دو گھنٹے بعد مارشل نے چار روز سے اگائی جانے والی ہیلیکوبیکٹر کلچر پلیٹ لی۔ اس کے بیکٹیریا کو الکلائین پیٹون واٹر میں ڈالا (یہ گوشت کی یخنی کی طرح ہے جس میں بیکٹیریا زندہ رہتے ہیں۔ صبح دس بجے، گدلے بھورے رنگ کی مائع کا یہ گلاس ایک ہی سانس میں پی گئے۔
خود اپنے آپ کو تجربہ گاہ بنا لینے کا یہ انوکھا کام تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو نگل جانے کے چند روز میں مارشل شدید بیمار تھے۔ متلی، قے، رات کو پسینے، سردی لگنا۔ ان کے ایک ساتھی ان کی بار بار بائیوپسی کرتے رہے تا کہ اس کا ریکارڈ بنایا جائے کہ ان میں کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ انہیں بہت ایکٹو گیسٹرائٹس نے آن لیا تھا۔ ان کے معدے میں بیکٹیریا کی موٹی تہہ تھی اور اس کے نیچے السر کے گڑھے بن گئے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے وارن کو اپنے مریضوں میں نظر آئے تھے۔
جولائی کے آخر میں مارشل نے اپنی کیس رپورٹ میڈیکل جرنل آف آسٹریلیا میں شائع ہونے بھیج دی۔
نقاد خاموش ہو گئے۔ بلاشبہ، ہیلیکوبیکٹر پائیلوری ہی معدے کی سوزش کا سبب تھا۔
مارش اور وارن نے اینٹی بائیوٹک تکنیک بنائی جو اس کی انفیکشن کا طاقتور علاج تھی۔ اس کے ٹرائل مغربی جاپان میں کئے گئے جہاں یہ سب سے زیادہ عام تھا۔ ان ٹرائلز سے معلوم ہوا کہ اس علاج سے السر اور گیسٹرائٹس کم ہو جاتے ہیں۔
اور اس کا کینسر پر اثر؟ یہ زیادہ پیچیدہ تھا۔ ایچ پائیلوری کو نوجوانوں میں ختم کرنے سے معدے کے کینسر کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ زیادہ عمر کے مریض، جن میں دائمی گیسٹرائٹس دہائیوں سے موجود ہے، پر خاص اثر نہیں ہوتا۔ کینسر سے بچاوٗ کے لئے اس کا مارچ جلد روکنا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی چیز سے بچنے کے لئے طاقتور حکمتِ عملی بنانے کے لئے اس کے ہونے کی وجہ کی گہری سمجھ درکار ہے۔ کارسنوجن کی شناخت اس بارے میں صرف پہلا قدم ہے۔ کامیاب حکمتِ عملی کے لئے نہ صرف یہ جاننا ہے کہ کارسنوجن ہے کیا بلکہ یہ بھی کہ یہ کرتا کیا ہے۔
ریڈی ایشن، ایسبسٹوس، ڈی ای ایس، ہیپاٹائٹس کا وائرس اور معدے کا بیکٹیریا ۔۔۔ یہ سب پیتھولوجی کی ایک حالت کی طرف لے جاتے ہیں۔ لیکن کیوں؟ اور الگ اعضاء میں کیوں؟ اور الگ آبادیوں میں اثرات کا فرق کیوں؟ کینسر کا موجب بننے والے ایجنٹ کی فہرست لمبی بھی ہو رہی تھی اور عجیب بھی۔
کسی اور بیماری کے ساتھ ایسا نہیں کہ اس میں اسباب کی اس قدر طویل اور متنوع فہرست ہو۔ ذیابیطس پیچیدہ بیماری ہے لیکن بنیادی طور پر یہ انسولین کے سگنل کی خرابی ہے۔ دل کی کرونری بیماری اس وقت ہوتی ہے جب ایک پلاک کی وجہ سے نالی بند ہونے کی وجہ سے خون کا لوتھڑا اس کا بہاوٗ بند کر دیتا ہے۔ لیکن کینسر کے پیچھے ایک مشترک مکینزم ابھی نامعلوم تھا۔ آخر کیوں خلیاتی تقسیم کی خرابی کینسر کے پیچھے کارفرما پیتھوفزیولوجیکل مکینزم ہے؟
اس سوال کا جواب لینے کے لئے کینسر بائیولوجسٹ کو کینسر کی پیدائش کی طرف واپس جانا تھا۔ خلیے کی خرابی کے پہلے اقدام کی طرف۔ کارسنوجینسس یعنی کینسر کی پیدائش کا معلوم کیا جانا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply