چھپن چُھری الہٰ آباد والی۔۔انور اقبال

بیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ذکر ہے کہ اکبر الہٰ آبادی کی رہائش گاہ “عشرت منزل، الہٰ آباد” میں ایک محفلِ موسیقی برپا ہے۔ ایک مغنّیہ اپنی مدھر آواز میں کچھ یوں گا رہی ہے؛
“بھک بھک بھک دھوئیں کی گاڑی اُڑائے لیے جائے” اس گیت کے باقی اشعار کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ریل گاڑی مذہب و ملت اور ذات پات کی پرواہ کیے بغیر ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، امیر و غریب سب کو ہی ساتھ اُڑائے لیے جاتی ہے۔ اُس مغنّیہ کی آواز  میں ایسا اعجاز تھا کہ جو بھی سُنے وہ گرویدہ ہو جائے۔ یہ اُس زمانے کی اتنی ماہر و مقبول گانے والی تھی کہ عوامی گیتوں اور غزلوں کے علاوہ ٹُھمری، دادرا اور راگنیاں بھی اس درجہ کمال سے گاتی تھی کہ ان کے گراموفونک ریکارڈ گھر گھر سُنے جاتے تھے لیکن بدقسمتی سے بہ مثلِ کوئل وہ آواز کی تو ملکہ تھی مگر شکلاً انتہائی درجے کی بدصورت تھی۔ اس گائیکہ کا مکمل نام جانکی بائی عرف چھپن چھری الہٰ آباد والی تھا۔ موسیقی کی وہ محفل تمام ہوئی تو اکبر الہٰ آبادی خواجہ حسن نظامی کے ساتھ اپنی بیٹھک میں چلے گئے۔ اس اثناء میں زنان خانے سے آواز آئی کہ جانکی بائی آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی زنان خانے کی طرف چل دیے اور تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے اور خواجہ صاحب سے گویا ہوئے کہ جانکی بائی اپنی لکھی ہوئی غزل لے کر آئیں تھیں اور اصلاح کی فرمائش کر رہیں تھیں اور پھر فرمانے لگے کہ
“شاعری کا شوق اور نظر اور نذر کے تلفظ کا فرق نہیں جانتی۔ اب میں اس کو صحیح کیا کروں”
ان کی یہ بات سُن کر خواجہ صاحب نے کہا کہ
“گانے والی کی غزل میں صحیح زبان کی کس کو توقع ہو گی۔ آپ یوں ہی چھوڑ دیں”
یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ اکبر الہٰ آبادی ان کی شاعری اور کلام کی اصلاح کرتے رہے یا نہیں لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ جانکی بائی نے اپنی شاعری کا دیوان بھی چھپوایا تھا۔ افسوس کی  بات تو یہ ہے کہ باوجود سخت جدوجہد کے ہم جانکی بائی کا دیوان یا اس کے کلام کا کوئی حصہ حاصل نہ کر سکے۔

آخر یہ جانکی بائی کون تھیں؟ اب ہم آپ کو حیرتوں کے سمندر میں ایک اور ڈبکی لگواتے ہیں۔
آواز کی ملکہ جانکی بائی کے داغدار چہرے سے متعلق کئی کہانیاں زبان زدعام تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ جوانی میں کسی نے قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور ان کے چہرے پر چھپن زخم لگے جس سے ان کا چہرہ مسخ ہو کر دہشت انگیز ہو گیا تھا۔

جانکی بائی کا آبائی تعلق بنارس سے تھا۔ یہ پیدائشی طور پر کوئی طوائف زادی نہ تھیں۔ ان کے والد حلوائی تھے لیکن بدقسمتی سے جانکی بائی کے والدین میں علیحدگی ہو گئی اور ماں بیٹی دونوں بے یارومددگار رہ گئیں جس بنا پر یہ دونوں الہٰ آباد میں آکر مجبوری کی حالت میں طوائف کے پیشے سے منسلک ہو گئیں تھیں۔ یہیں پر انہوں نے رقص، موسیقی اور شاعری میں کمال حاصل کر کے شائقین سے خوب داد سمیٹی اور بےپناہ شہرت حاصل کی۔ اسی دوران انہوں نے انگریزی، سنسکرت اور فارسی زبان میں بھی عبور حاصل کر لیا اور اردو زبان میں شاعری کا ایک دیوان بھی شائع کروایا۔

ولیم گسبرگ جو گراموفون ریکارڈنگ کے ابتدائی زمانے کا ایک ماہر ریکارڈسٹ تھا۔ وہ نومبر 1902 میں ہندوستان آیا اور کلکتہ میں اُس زمانے کی دوسری مشہور گائیکہ گوہر جان کے ساتھ ساتھ جانکی بائی کی آواز میں بھی کلاسیکی گانے ریکارڈ کیے۔ گراموفون کمپنی کی بدولت ان کے گائے گئے ریکارڈڈ گیتوں نے انہیں سُپر اسٹار بنا دیا تھا۔ ان کی ہم عصر اور دوست گائیکہ گوہر جان کے علاوہ انہیں بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ سن 1911 میں متحدہ ہندوستان کے تمام شاہی خاندانوں کی موجودگی میں شہنشاہ جارج پنجم کی رسم تاجپوشی میں گانا گانے کے لیے منتخب  کیا گیا۔ انہوں نے خصوصی طور پر شہنشاہ کی تاجپوشی کی تقریب میں گیت “یہ جلسہ تاجپوشی کا مبارک ہو” گا کر سامعین سے خوب داد سمیٹی۔

1920 کی دہائی میں جانکی بائی اپنے فنی کیرئیر کے عروج پر تھیں۔ اس زمانے میں ان کی لائیو پرفارمنس کا معاوضہ دوہزار روپے تک پہنچ گیا تھا۔ اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیشِ نظر انہوں نے کمپنی سے مزید معاوضے کا مطالبہ بھی کیا جو بالآخر سخت مذاکرات کے بعد منظور کر لیا گیا۔ انہوں نے ابتدائی طور پر جارج والٹر اور رابرٹ ایڈورڈ بیکٹ جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ صوتی ریکارڈنگ ٹیکنالوجی کے تحت گیت ریکارڈ کروائے اور بعدازاں جیکٹ اور آرتھر جیمز ٹوائن کے ساتھ نئی الیکٹریکل ریکارڈنگ کو بھی اپنایا تھا۔

جانکی بائی نے اپنی محنت کے بل بوتے پر خوب شہرت و دولت کمائی۔ آپ نے الہٰ باد کے ایک وکیل شیخ عبدالحق سے شادی کی، شومئی قسمت یہ شادی کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ ان کے شوہر کی بےراہ روی تھی۔ کچھ ہی عرصے میں جب انہیں احساس ہوا کہ وہ آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں تو آپ نے فوراً ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر خود کو مکمل طور پر فلاحی کاموں کے لیے وقف کر دیا۔ اس حیثیت سے انہوں نے ایک خیراتی ٹرسٹ کی بنیاد بھی رکھی جو ابھی بھی الہٰ آباد (موجودہ نام پریاگ راج) میں موجود ہے۔ انہوں نے اپنی تمام جائیداد، ریکارڈ اور پرفارمنس کے ذریعے کمائی گئی بےپناہ دولت کو مستحق طلباء و طالبات کو مالی مدد فراہم کرنے، غریبوں میں کمبل تقسیم کرنے، مندروں اور مساجد کو عطیہ کرنے اور مفت کچن چلانے کی غرض سے اپنے ٹرسٹ کو عطیہ کر دی۔ ان کا انتقال 18 مئی 1934 کو الہٰ آباد میں ہی ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب فنونِ لطیفہ کے شعبے میں ظاہری شکل و صورت کو کامیابی کی پہلی سیڑھی تصور کیا جاتا تھا لیکن انہوں نے اپنی بدصورتی کے باوجود آواز کے بل بوتے پر شائقین کے دلوں کو فتح کر لیا۔ جانکی بائی کے ابتدائی زمانے کے بہت سے امر گیت نایاب یا تلف ہو چکے ہیں لیکن کچھ گیت ہم باآسانی انٹرنیٹ کی بدولت یوٹیوب پر سُن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر “اے سوز ہوشیار میری آنکھ تر نہ ہو”، “سیّاں ہمارے پوربہ میں جائے رے”، “رسیلی توری آنکھیاں”، “رم جھم بدروا برسے” نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply