سو کہانی ہے اک کہانی سے۔۔آغر ندیم سحرؔ

پانچویں کلاس کے بعد سراج الہدیٰ میں حفظ کی کلاس میں داخلہ ہو گیا، جہاں زندگی کا ایک بہترین وقت گزارا۔اڑھائی سال کے قلیل وقت میں دنیا کی سب سے عظیم کتاب کو اپنے سینے میں محفوظ کر کے والدہ کا دیرینہ خواب پورا کیا۔اب اگلا مرحلہ دنیاوی تعلیم کا تھا‘گھر والوں اور جامعہ کے اساتذہ کے اتفاق رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ مجھے مدرسے سے ہی چھٹی اور ساتویں کا امتحان ایک ساتھ دینا چاہیے۔کیوں کہ اس وقت علاقے میں جامعہ میں ہی ایسے اساتذہ میسر تھے جو انگریزی اور سائنس سے کماحقہ واقفیت رکھتے تھے۔اس زمانے میں سرکاری سکولوں میں بھی انگریزی سے پہلا تعارف چھٹی کلاس میں ہوتا تھا۔مغربی اداروں کا تصور محض بڑے شہروں تک محدود تھا جہاں انگریزی تعلیم و تربیت میسر تھی۔ہمارے گاؤں (میانوال رانجھا)میں کسی ایسے سکول کا تصور موجود نہیں تھا جس کو انگریزی میڈیم کہہ  سکتے لہٰذا پانچویں کے بعد جامعہ میں ہی چھٹی اور ساتویں کلاس کے امتحانات کی تیاری کرنا پڑی‘اسی دوران انگریزی سے واجبی سا تعلق قائم ہوا۔میٹرک مکمل کرنے کے بعد اگلا مسئلہ یہ تھا کہ انٹرمیڈیٹ کہاں سے کیا جائے کیوں کہ گاؤں میں کوئی سرکاری کالج نہیں تھا جہاں میٹرک کے بعد داخلہ لیا جاتا۔ق لیگ کے دور میں ایک گرلز کالج تعمیر ہوا تھا جو کم و بیش دس سال بند پڑا رہا اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بھنگیوں اور چرسیوں کا مرکز بن گیا‘اس کے تمام دروازے‘فرنیچر‘لوہا اور جنگلے تک بھنگیوں اور چرسیوں نے چوری کر کے فروخت کر دیے‘ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کالج جو کروڑوں کی لاگت سے تعمیر ہوا تھا‘کھنڈر بن گیا‘وہاں دن کو بھی جاتے ہوئے خوف آتا تھا۔گاؤں کے باسیوں کے مسلسل احتجاج کے بعد چند سال قبل اس عمارت کی از سرِ نو مرمت ہوئی اور اب سننے میں آیا ہے کہ اسے گرلزہائر سکینڈری سکول بنا دیا گیا ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کر چکا کہ میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھناایک اہم مسئلہ تھا کیوں کہ گاؤں میں لڑکوں کے لیے کوئی کالج نہیں تھا لہٰذا مجھے گاؤں سے تیس کلومیٹر دور کامرس کالج مونگ، منڈی بہاء الدین میں داخل کروا دیا گیا‘کامرس میں دل چسپی نہ ہونے کے باعث ایک سال بعد ہی اس ادارے کو خیر باد کہہ دیا اور تعلیم نامکمل چھوڑ کر شعر و ادب کی محافل میں وقت گزارنے لگا۔شہر میں حکیم ربط عثمانی مرحوم کی شاعری کا چرچا تھا‘مجھے بھی ایک دوست کے توسط سے ان کے مطب جانے کا موقع ملا‘ان سے درخواست کی کہ راقم کو بھی شاعری کا شوق ہے‘اسے اپنی اس ادبی بیٹھک(مطب) کا مستقل ممبر بنایا جائے‘ان کی شفقت کہ میں ان کے پاس مستقل بیٹھنے لگا‘اس دور میں حکیم صاحب سے بننے والا تعلق ان کی وفات تک(تقریباً سات سال) قائم رہا۔آپ کے مطب پر ہمہ وقت شہر کے اہم شاعروں اور صحافیوں کا ہجوم لگا رہتا‘نامور شاعر عبد المجید چراغؔ مرحو م اورلیاقت حسین لیاقتؔ مرحوم سے پہلا تعارف بھی اسی مطب پہ ہوا تھا‘ارد گرد شہروں سے بھی کئی اہم شعرا سے ملاقاتیں اور تعلق اسی بیٹھک کی وجہ سے قائم ہوا۔انٹر تو ادھورا چھوڑ دیا مگر اس زمانے میں شاعری سے بننے والا تعلق آج تک قائم ہے‘یہی وہ زمانہ تھا جب ایک علاقائی اخبار میں پہلا کالم دینے پہنچا‘یہ واقعہ بھی بڑا دل چسپ ہے۔

میں نے انتہائی محنت سے ایک کالم لکھا اور ایک علاقائی اخبار کے میٹرک پاس چیف ایڈیٹر کے پاس چلا گیا۔چیف ایڈیٹر کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے‘کہتے ہیں یہ چیف صاحب ایک زمانے میں اخبار کے ہاکر ہوا کرتے تھے‘ہاکری کرتے کرتے ایک سیاسی پارٹی (جو اس وقت عروج پہ تھی)کے رہنماؤں سے گہرے روابط قائم ہوگئے اوریوں ان سیاسی وڈیروں کے مشورے سے اپنا اخبار نکالنا شروع کر دیا۔فنڈنگ کا مسئلہ تھا اور نہ ہی سرکولیشن کا‘لہٰذا ان کا کام چل پڑا اور یہ اخبار آج تک جاری ہے۔میراس کالم دیکھ کر وہ چیف صاحب بولے:”کہ بھئی پہلے کالم لکھنا تو سیکھ لیں“یوں میرا کالم سامنے پڑے میز پر پھینکا اور سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے کسی سیاسی آدمی سے فون پر بات کرنے لگے‘دوران گفتگو مجھے آنکھوں سے چلے جانے کا اشارہ کیا اور یوں میں ان کے دفتر سے نکل آیا۔وہی کالم تھوڑی سی تراش خراش کے بعد ایک قومی اخبار کو بذریعہ ڈاک لاہور ارسال کر دیا‘ایک ماہ بعد یہ کالم اس قومی اخبار کے ادارتی صفحہ پر شائع ہو گیا اور یوں کالم نویس بننے کا دیرینہ خواب پورا ہوتا دکھائی دینے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اخبار کا پہلا لمس والد مرحوم کے توسط سے نصیب ہوا تھا‘جب تک والد صاحب زندہ رہے ہمارے گھر میں قومی اخبار لازمی آتا تھا۔انھیں جب معلوم ہوا کہ مجھے لکھنے کا بھی شوق ہے توبچوں کے کچھ اہم ادبی رسائل بھی لگوا دیے۔میں اخبار میں زیادہ تر ادارتی صفحہ دیکھتا تھا‘کچھ اخباروں میں بچوں کے رسائل بھی آتے تھے لہٰذا ادبِ اطفال سے تعارف بھی اسی دور میں قائم ہوا۔پیغام‘تعلیم و تربیت اوربزمِ قرآن سمیت کئی اہم رسائل کو تواتر سے پڑھنا اور ان میں لکھنا شروع کر دیا۔اسی دور میں میری پہلی کہانی”بادشاہ کا طوطا“ماہنامہ پیغام میں شائع ہوئی تھی جس پر میری خوشی دیدنی تھی۔عزیز و اقارب کو خط لکھ لکھ کر بتایا کہ میری کہانی شائع ہوئی ہے۔ خط سے یاد آیا اس زمانے میں خطوں کا بہت رواج تھا‘پی ٹی سی ایل(ٹیلی فون) گاؤں کے چند ایک گھروں میں تھا(جن میں ہمارا گھر بھی شامل ہے) مگر اسے عام کالز کے لیے استعمال کی اجازت نہیں ہوتی تھی‘وجہ یہی بتائی جاتی تھی کہ ٹیلی فون کا بل بہت زیادہ آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں بچوں کے رسائل اور اخبارات کے ایڈیٹرز کو بے تحاشا خطوط لکھے‘افسوس اپنے ریکارڈ میں کوئی خط بھی موجود نہیں۔مجھے خوب یاد ہے کہ اسی زمانے میں ایک خط معروف لکھاری طالب ہاشمی صاحب کو بھی لکھا تھا جس کا جواب بھی آیا تھا‘وہ جوابی خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ یہی وہ دور تھا جب لکھنے کا آغاز کیا‘کچھ علاقائی اخبارات میں اور کچھ بچوں کے رسائل میں‘بہت ساری تحریریں شائع ہوئیں مگر افسوس کچھ بھی محفوظ نہیں۔کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ان رسائل اور اخبارات سے گزارش کروں کہ وہ اپنے دس سے بارہ سال پرانے ریکارڈتک رسائی دیں‘شاید کچھ چیزیں میسر آ جائیں مگر یہ ایک محنت طلب کام ہے جو مجھ جیسے سست آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دوستو!میرے لکھنے کی یہی بے ربط کہانی ہے‘کوشش کروں گا کہ یہ کہانی سناتا رہوں کیوں کہ بقول نشور واحدی:
اک نظر کا فسانہ ہے دنیا
سوکہانی ہے اک کہانی سے

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply