• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن(1)۔۔ میجر جنرل (ر)خادم حسین راجہ /ترجمہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ

مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن(1)۔۔ میجر جنرل (ر)خادم حسین راجہ /ترجمہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ

میجر جنرل خادم حسین راجہ ( 1922-1999) مارچ 1971میں جی ۔ او ۔ سی ڈھاکہ تھے ۔ مشرقی پاکستان کس طرح بنگلہ دیش بنا اس کے وہ چشم دید گواہ تھے ۔ 26۔ مارچ 1971کو جو فوجی ایکشن ہوا ، اس کا منصوبہ ا ن کے بقول انھوں نے میجر جنرل راؤ فرمان علی کے اشتراک سے تیار کیا تھا ۔ ذیل میں ان کی کتاب’’ اے سٹرینجر ان مائی اون کنٹری‘‘ کے ایک باب کا ترجمہ ہم قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں ۔ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہماری فوجی اشرافیہ کی سوچ کیا تھی۔ میجرجنرل راجہ نے اسے بڑی مہارت اور صاف گوئی سے بیان کیا ہے (ادارہ )۔۔

جنرل ٹکا خان ان ایکشن

مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل یعقوب علی خان نے مارچ 1971 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تو صدر جنرل یحییٰ خان نے ان کے متبادل کے طور پرلیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو منتخب کیا تھا ۔ میدان جنگ میں متعدد کامیابیاں حاصل کرنے کی بنا پر جنرل ٹکا خان فوج میں خاصے مقبول تھے ۔ انھوں نے بلوچ قبائلیوں کے خلاف فوجی ایکشن کرکے انھیں ہتھیار ڈالنے یا ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا ۔ جب بھارتی افواج نے پاکستان کے علاقے رن آف کچھ میں دراندازی کرتے ہوئے کچھ علاقے پر قبضہ جما لیا تھا تو یہ جنرل ٹکا خان ہی تھے جنھوں نے سرعت سے کاروائی کی اورجارح بھارتی فوج کو شکست دے کر اسے پاکستان کی سر زمین سے نکال باہر کیا تھا ۔
بعد ازاں ستمبر 1965کی جنگ میں انتہائی نازک مرحلے پر انھوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پاک فوج کے دستوں کی کمان سنبھالی تھی ۔ بطور کمانڈر انھوں نے صورت حال کو سنبھالا اور دشمن پر جوابی حملہ کرتے ہوئے بہت سا پاکستانی علاقہ جس پر بھارتی فوج قابض تھی، اس سے واگذار کروالیا تھا ۔اس فوجی پس منظر کے حامل ٹکا خان کے بارے میں فوج میں عام تاثر یہ تھا کہ وہ ’ وہ کم الفاظ اور زیادہ ایکشن‘ پر یقین رکھنے والے فوجی افسر ہیں ۔ان کی بطو ر کمانڈر ایسٹرن کمانڈ تقرری صدر یحییٰ خان کی طرف سے مشرقی پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت کے لئے صلح یا دوستی کا پیغام نہ تھا ۔ یہ تقرری اس بات کا اشارہ تھی کہ صدر نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی اور ترجیحات تبدیل کر لی تھیں۔ وہ مشرقی پاکستان میں ’ فاختاؤں ‘ کی بجائے ’عقابوں ‘پر انحصار کی پالیسی اپنا رہے تھے ۔
لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان 7مارچ 1971کو انتہائی خاموشی سے شام چار بجے میجر جنرل راؤ فرمان علی کی ہمراہی میں ڈھاکہ ایر پورٹ پر اترے ۔راؤ فرمان علی صدر یحییٰ سے ملا قات کی خاطراولپنڈی گئے تھے تاکہ موجود بحران میں سمجھوتے کی کوئی صورت نکل سکے لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ میں اور جنرل یعقو ب علی خان ان کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ پر موجود تھے ۔جب ہم جہاز سے دور کھڑی گاڑیوں کی طرف جانے لگے تو جنرل ٹکا خان نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’ خادم ! تمہارا ڈویژن اس تمام عرصے میں یہاں کیا کرتا رہا ہے ‘؟۔’ یہاں تو صورت حال انتہائی مخدوش اور خراب ہے ‘۔میں نے جنرل ٹکا خان کے ان ریمارکس جو موجود صورت حال سے عدم واقفیت کے غماز اور کرختگی کا پہلو لئے ہوئے تھے، کا برا منایا تھا ۔ میں نے بھی سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا ’ اب آپ یہاں آگئے ہیں ،بہت جلد آپ کو صورت حال کا پتہ چل جائے گا‘۔
نئے باس اور میرے ما بین یہ کوئی خوش گوار آغاز نہیں تھا ۔ائیر پورٹ سے روانہ ہونے سے قبل یہ طے ہوا کہ لیفٹیننٹ جنرل یعقوب علی خان 8 مارچ کی شام ڈھاکہ سے راولپنڈی کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ میں نے وہاں(ائیر پورٹ پر) موجود سبھی احباب کو اپنی رہائش گا پر جنرل یعقوب علی خان کے اعزاز میں اگلے دن شام کو’ خاموش‘ الوداعی کھانے کی دعوت دی ۔جنرل ٹکاخان نے میری بات کاٹتے ہوئے سختی سے کہا کہ الوداعی دعوت آپ کی رہائش گاہ کی بجائے گورنر ہاؤ س میں ہوگی ۔میں نے شائستگی سے ان سے کہا کہ گورنر ہاؤس میں دعوت کا اہتمام کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوگا ۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ وہ اپنی تجویز سے پیچھے ہٹنے کو تیا ر نہیں ہیں تو میں نے یہ کہہ کر اپنی دعوت واپس لے لی کہ آپ اپنے مجوزہ پروگرام پر بخوشی عمل در آمد کریں ۔ میر ے لئے اُ ن کا یہ پروگرام باعث مسرت ہوگا لیکن میری رہائش گا ہ پر ’ دال روٹی ‘ پھر بھی تیار ہوگی اور اگر وہ مناسب خیال کریں تو تشریف لا سکتے ہیں۔
اگلے دن جنرل ٹکا خان کو معلوم ہو ا کہ مشرقی پاکستان کے چیف جسٹس بی ۔اے صدیقی نے بغیر کسی لگی لپٹی کے انھیں گورنر کے عہدے کا حلف دلانے سے انکار کر دیاتھا ۔چیف جسٹس کا موقف تھا کہ مشرقی پاکستان میں تعینات ہم (مغربی پاکستانی فوجی افسران) تو محو پرواز پرندے تھے جب کہ نہ صرف انھیں بلکہ ان کی آئندہ نسل کو بھی اُسی سرزمین پررہنا تھا ۔ جنرل ٹکا خان کو یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں کمانڈ ہاؤس میں رہائش رکھنا ہوگی کیونکہ گورنر ہاؤس کا تمام اسٹاف اور ملازمین چھوڑ کر جاچکے تھے ۔ یہ کہنے کی ضرور ت نہیں کہ بالا خر ہم سب نے اُ سی ’دال روٹی ‘ پر گذارا کیا جس کی دعوت میں نے ابتدائی طور پر دی تھی ۔
جی ایچ کیو میں موجود بہت سے دیگر سنیئر افسروں کی طرح جنرل ٹکا خان بھی مشرقی پاکستان کے زمینی حقائق سے یا تو بے خبر تھے یا پھر ان کی معلومات بہت کم تھیں۔ انھوں نے اپنے فوجی کیرئیر میں کبھی بھی مشرقی پاکستان میں خدمات سر انجام نہیں دی تھیں ۔
یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ مشرقی پاکستان کے بارے میں ان کا علم انتہائی سطحی تھا۔ جنرل ٹکا خان جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے تھے ۔ انھوں نے اس حیثیت میں مشرقی پاکستان کے وقتاً فوقتاً جو دورے کئے تھے اور ان دوروں کے دوران انھیں فوجی اور سویلین افسر جو بریفنگ دیا کرتے تھے ،پاکستان کے اس صوبے کے بارے میں ان کی معلومات انہی تک محدود تھیں۔ یہ بات تو روز اول سے ہی واضح تھی کہ ہم جو اس وقت مشرقی پاکستان میں اعلی عہدوں پر فائز تھے ، کے بارے میں ان کا رویہ منفی تھا۔میں نہیں سمجھتا کہ انھیں اس امر کا ادراک تھا کہ اس دفعہ انھیں جو مشن سونپا گیا تھا وہ ناممکن تھا ۔ان کے پاس سیاسی مینڈیٹ نہیں تھا جب کہ مسئلے کی نوعیت بنیادی طور پر سیاسی تھی اور اس کا حل بھی فو جی نہیں سیاسی تھا ۔ یہ خام خیال تھا کہ اس سیاسی مسئلے کو فوجی طریقے سے حل کیا جاسکتا تھا ۔
بنگالی عوام اس مرتبہ اپنے ناقابل تنسیخ حقوق حاصل کرنے کے لئے پر عزم تھے ۔اور موجود صورت حال سے بخوبی واضح ہورہا تھا کہ اگر انھیں اُن کے یہ حقوق نہ دئیے گئے تو وہ آزادی سے کم کسی بات پر راضی نہ ہوں گے ۔ برسر اقتدار افراد کو متعدد مواقع ایسے ملے جنھیں استعمال کرتے ہوئے موجود دگرگوں سیاسی اور انتظامی صورت حال میں بہتری لا ئی جاسکتی تھی لیکن فیصلہ ساز قوتوں کا رحجان مذاکرات اور سمجھوتے کی بجائے طاقت کے استعمال کی طرف تھا ۔ طاقت کے استعمال کی اس اپروچ کا اختتام ناکامی پر ہونا طے تھا۔
جنرل ٹکا خان کے ماتحت دیگر افراد کے علاوہ دو اشخاص بہت اہم تھے ۔ ایک میں جو فوجی دستوں کا کمانڈر تھا دوسرے میجر جنرل راؤ فرمان علی جن کے ذمے سول انتطامی امور تھے ۔ بریگیڈئیر محمد حسین انصاری لاجسٹکس کے ذمہ دار تھے۔ جنگ میں مصروف فوجی دستوں کے لاجسٹکس کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری تھی ۔ہم چار وں کا تعلق فوج کی آرٹلری رجمنٹ سے تھا اور ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ہمار ا آغا ز اتنا اچھا نہیں تھا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا تاہم واقعات اتنی تیزی سے رونما ہورہے تھے کہ ہم وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ۔ ایک ہفتے کے اندر اندر ہم نے اپنے باہمی اختلافات پر قابو پا لیا تھا اور ہم چاروں ایک موثر اور باہم تعاون کرنے والی ٹیم میں ڈھل گئے تھے ۔ہمارے مابین اختلافات تو یقیناًموجود تھے لیکن ان کی نوعیت شخصی اور تعصب پر مبنی نہیں تھی بلکہ صورت حال کے دیانت دارانہ تجزیے پر مبنی ہوتی تھی ۔
ہم ان اختلافات کے مختلف پہلووں پر باقاعدگی سے ہونے والے اجلاسوں اور کانفرنسوں میں کھل کر بات چیت اور بحث و تمحیص کیا کرتے تھے ۔بلا شبہ آخری فیصلہ باس ہی کا ہوا کرتا تھا جسے ہم سب کھلے دل سے قبول کرتے تھے ۔ بعض اوقات ہم سمجھتے تھے کہ باس نے جو حل، حکمت عملی یا راہ عمل تجویز کی ہے وہ نامناسب اور قابل عمل نہیں لیکن اس کے باوجود ہم سر تسلیم خم کرتے تھے۔ ہمارے غیر مشروط باہمی تعاون کی بدولت ہمیں تیزی سے فوجی کامیاب میسر آئی لیکن مجھے یہ بیا ن کرتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ہماری کامیابیوں کی نوعیت عارضی تھی اورحقیقی مسائل جن کی نوعیت سیاسی تھی، کو حل کرنے میں ہماری یہ فوجی پیش قدمی موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی تھی اور یہ حل طلب سیاسی مسائل ہی تھے جن کی بدولت ہم بطور قوم تقسیم ہوگئے ۔
مارچ 1971کے ابتدائی دنوں میں مغربی پاکستان سے فوجی دستوں کی ہوائی جہازوں کے ذریعے ڈھاکہ آمد جاری تھی۔پی آئی اے کے بوئنگ طیارے فوجیوں کو مشرقی پاکستان پہنچارہے تھے۔بھارت نے پاکستانی طیاروں کو اپنی فصائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ میں نے اس امر کی پیشین گوئی کئی ماہ قبل کردی تھی اور فوج کے کمانڈر انچیف جنرل عبد الحمید خان کو بھی اس بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ کوئٹہ میں میجر جنرل نذر حسین شاہ کی کمان میں موجود 9۔ڈویژن اور کھاریاں میں میجر جنرل شوکت رضا کی سربراہی میں 17۔ڈویژن کو ڈھاکہ بھجوایا جارہا تھا ۔ذرائع آمد و رفت کی ہماری صلاحیت محدود تھی ۔ مشرقی پاکستان کی یکطرفہ فلائیٹ آٹھ گھنٹوں پر محیط تھی چنانچہ مارچ کا پورا مہینہ اور اپریل کا کچھ حصہ فوجی دستوں کو ڈھاکہ پہنچانے میں لگ گیا تھا ۔مزید برآں جہازوں میں صرف سپاہی اور ہلکا فوجی اسلحہ ہی مشرقی پاکستان پہنچ سکا تھا ۔ دسمبر 1971 میں جب بھارت نے براہ راست مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا تو بھاری اور مناسب مقدار میں جنگی سازو سامان کی عدم دستیابی نے ہمارے فوجی دستوں کی لڑاکا صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا تھا ۔
جب ٹکا خان کو مشرقی کمان کا سربراہ بنایا گیا تو آغاز میں صدر یحییٰ کی پالیسی یہ تھی کہ فوج حتی الامکان فوجی چھاؤنیوں تک محدود رہے گی اور کوئی ایسا قدام نہیں کیا جائے گا جس سے صورت حال خراب ہو اور عوام میں اشتعال پھیلے ۔سٹیٹ بنک، ریڈیو پاکستان اور ڈھاکہ ٹیلی ویژن کی عمارتوں کی حفاظت پر چھوٹے چھوٹے فوجی دستے تعینا ت کئے گئے تھے جب کہ باقی ماندہ فوج کو بیرکوں تک محدود کر دیا گیا تھا۔جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے سول انتظامیہ نے فوج کی مدد کرنے سے مکمل طور پر انکار کردیا تھا ۔ حتی کہ ملٹری انجئینرنگ سروس اور کنٹونمنٹ بورڈ کی انتظامیہ نے بھی کام کر نا بند کر دیا تھا ۔فوجی دستوں کو خشک راشن پر گذارہ کرنا پڑ رہا تھا جو کہ بہت ہی مشکل تھا۔ہر طرف مختلف النوع کی افواہوں کا زور تھا ۔
اس ساری صورت حال کا سب سے مایوس کن اور تکلف دہ پہلو یہ تھا کہ بنگالی فوجی دستوں میں بغاوت تیزی سے پھیل رہی تھی اور بڑے پیمانے پر بغاوت آس پاس منڈ لا رہی تھی ۔ خانہ جنگی کا خطرہ تھا کہ دروازے پر دستک دے رہا تھا لیکن ہم ہر صورت اس سے بچنا چاہتے تھے ۔چنانچہ اس صورت حال میں ، میں نے جلد از جلد زیادہ سے زیادہ سے فوجی چھاؤنیوں کے دورے کرنے کا فیصلہ کیا ۔ان دوروں کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے دونوں بازوں سے تعلق رکھنے والوں فوجی جوانوں کے مابین اعتماد کی فضاپیدا کی جائے ۔چنانچہ اپنے اس منصوبے کے پہلے مرحلے پر میں نے ڈھاکہ کے نواح میں تعینات 2۔ایسٹ بنگال رجمنٹ کے سنٹر کا دورہ کیا ۔
اس رجمنٹ کے بارے میں خبر تھی کہ اس میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ میرے خدشات درست ثابت ہورہے تھے ۔ جونہی میرے ہیلی کاپٹر نے زمین کو چھوا تورجمنٹ سنٹر سے متصل بازار سے عوام کا ایک بڑا ہجو م وہاں جمع ہوگیا ۔قائم مقام کمانڈنگ آفیسر نے میرا استقبال کیا اور ہم آفیسرز میس میں اکٹھے ہوئے جہاں میں نے بٹالین کے افسروں سے خطاب کیا ۔تیزی سے پھیلتی ہوئی افواہوں کا توڑ کرنے اوربنگالی فوجی افسروں اور جوانوں کے ذہنوں میں جنم لینے والے خدشات اور وسوسوں کو دور کرنے کے لئے میں نے موجود صورت حال کے مختلف پہلووں کی وضاحت کی ۔بعد ازاں میں نے فوجی دستوں کا معائنہ کیا جو ماضی کے ایک ہندو راجہ کے محل کے سامنے واقع کھلی گراؤ نڈ میں انفرادی ٹریننگ میں مصروف تھے ۔جب میں اپنی ٹیم کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ میں فوجی دستوں کا معائنہ کر رہا تھا اُ س دوران گراؤنڈ کے کناروں پر لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہو چکا تھا جو مسلسل تضحیک آمیز اشارے بازی میں مصروف تھا ۔میں نے یہ تاثر دینے کو کوشش کی کہ میں اُن کی موجودگی سے بے خبر ہوں کیونکہ صورت حال کا یہی تقاضا تھا ۔ لوگوں کا ہجوم گراؤنڈ کے کناروں پر کھڑا رہا لیکن فوجی دستوں نے انھیں وہاں سے بھگانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ رجمنٹ سنٹر کا دورہ اور فوجی دستوں کا معائنہ کرنے بعد میں ڈھاکہ لوٹ آیا۔ا یسٹ بنگال رجمنٹ سنٹر کے ا س دورے سے میں اس بات کا مزید قائل ہوگیا کہ بنگالی فوجی بغاوت کے دھانے پر کھڑے اور ہم بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
میں نے صوبے کی دیگر فوجی چھاؤنیوں کے طوفانی دوروں کا پروگرام بنایا ۔ اپنے اس پروگرام کے تحت میں نے جیسور، کومیلا ،چٹاگانگ، سلہٹ اور رنگ پور کی فوجی چھاؤنیوں کے دورے کئے اور وہاں فوجی افسروں اور جوانوں سے خطاب کیا ۔میر ا خیال ہے کہ ان دوروں کی بدولت میں جزوی طور پراُن (بنگالی افسروں اور جوانوں ) کے خدشات اور پریشانیوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوا تھا ۔ یہ ان دوروں ہی کا نتیجہ تھا کہ میری کمان میں کوئی دراڑ اُس وقت تک نہ آئی جب تک خود ہم نے پہل کرتے ہوئے ٹریگر نہیں دبا یا تھا ۔25مارچ سے قبل حکم عدولی اور بغاوت کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے لیکن ہیجان اور پریشانی ہر چہرے سے ہویدا تھی ۔بنگالی فوجیوں میں بھگوڑا ہونے کے متعدد واقعات ہوئے بالخصوص سگنل بٹالین سے تعلق ر کھنے والے ایک صوبے دار اور اُس کے اردلی کا واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ۔
جنرل ٹکا خان کو ڈھاکہ آئے ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ صدر یحییٰ خان 15 مارچ کو بنفس نفیس ڈھاکہ آپہنچے ۔ صدر کے وفد میں ان کے مشیروں اور کچھ دیگر افراد کے علاوہ بری فوج کے سربراہ جنرل عبدالحمید خان بھی شامل تھے۔صدر جس شام ڈھاکہ پہنچے اُسی شام انھوں نے کانفرنس بلائی تھی ۔میں اس کانفرنس میں موجود تھا اور میں نے مشرقی پاکستان کی موجود صورت حال اور اس کی مختلف جہتوں کے بارے میں شر کاء کوتفصیلی بریفینگ دی تھی ۔کانفرنس میں شریک زیادہ تر لوگوں نے بحث و تمحیص میں حصہ نہیں لیا تھا گو کہ چند ایک حضرات کی طرف سے کچھ تبصرے ہوئے اور کچھ نے مختلف امور کے بارے میں تجاویز دی تھیں۔
میرے بعد ائیر کموڈور مسعود آئے جو مشرقی پاکستان میں ائیر فورس کے چیف تھے ، انھوں نے پر زور انداز میں فوجی ایکشن کو بطور حل تجویز کرنے والوں کی مخالفت کی تھی ۔ ان کا موقف تھا کہ فوجی ایکشن کوئی حل نہیں تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان میں بہاری مہاجروں اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے اور فوجی ایکشن کے نتیجے میں ان کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔ ان لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری صدر پاکستان پر عائد ہوتی تھی ۔ائیر کموڈور مسعو دکی گفتگو کا لب وہ لہجہ جوش و جذبہ سے بھرپور اور جذبات سے معمور تھا ۔ان کی تقریر کے دوران کانفرنس میں مکمل خاموشی چھائی رہی ۔ بالآ خر صدر نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ تمام تر صورت حال کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے انھوں نے عجلت میں کانفرنس ختم کردی ۔

اس واقعہ کے چند دنوں بعد ائیر کموڈور مسعود کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا دیا گیا اور ان کی جگہ ائیر کموڈور ( بعد ازاں ائیر مارشل ) انعام الحق کو مشرقی پاکستان بھیج دیا گیاتھا ۔واپس مغربی پاکستان آنے کے چند ہفتوں بعد ائیر کموڈور مسعود کو قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا تھا ۔ایک بے مثال ہوا باز کے شاندار کیر ئیر کا یہ افسوس ناک انجام تھا ۔ ائیر کموڈور مسعود نہ صرف پاکستان ائیر فورس کے حلقوں میں مقبول تھے بلکہ ہم جیسے افراد بھی جنھوں نے ان کے ساتھ کام کیا تھا ، ان کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کے مداح تھے ۔
سولہ مارچ کو صدر نے شیخ مجیب سے مذاکرات کا آغاز کیا ۔ شیخ مجیب کی معاونت عوامی لیگ کے اقتصادی اور آئینی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم کر رہی تھی۔ جیسا کہ ایسے مو قعوں پر ہوتا ہے ،ان مذاکرات کے حوالے سے اگلے دن کے اخبارات میں جو بیان شائع ہوا وہ توقع کے عین مطابق گول مول سا تھا ۔ اسی دن سہ پہر کو میں جنرل ٹکا خان سے ملا اور ان سے جاری مذاکرات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے انتہائی سادگی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اتنا ہی جانتے ہیں جتنا اخبارا ت میں چھپ چکا تھا ۔ان کے جواب سے میں حیران ہوا اور میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایوان صدر جائیں اور نہ صرف جاری مذاکرات بلکہ دیگر امور کے بارے میں بھی خود کو باخبر رکھیں ۔
میں نے زور دے کر کہا کہ موجودہ صورت حال سے نبٹنے کے لئے ہمارے پاس کوئی ہنگامی پلان نہیں ہے ۔ میں نے اُن سے کہا کہ ہنگامی صورت حال میں فوجی دستوں تک پیغام رسانی اور ایک مربوط فوجی ایکشن کے لئے مجھے اچھا خاصا وقت چاہیے ہوگا کیونکہ ہمارے فوجی دستے کسی ایک شہر یا علاقے میں نہیں بلکہ پورے صوبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ جنرل یعقوب علی خان اور ایڈمرل احسن نے مجھے فردا فردا بتایا تھا کہ صدر یحییٰ خان مشرقی پاکستان کی صورت حال کے بارے میں ان سے ہم مشورہ ہونے کی بجائے اپنے مشیروں پر زیادہ انحصار کرتے تھے ۔ یہ عجیب و غریب صورت حال تھی کہ صدر مشرقی پاکستان میں موجود اپنے اعلی ترین عہدیداروں کی بجائے اپنی کچن کیبنٹ کے ارکان کے مشوروں پر زیادہ اعتماد کرتے تھے ۔
سترہ مارچ کو رات تقریبا دس بجے مجھے لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان نے ٹیلی فون کیا اور کہا کہ میں میجر جنرل راؤ فرمان علی کو ہمراہ لے کر ان سے ملاقات کے لئے کمانڈ ہاؤس آؤں۔چند روز قبل فرمان اور ان کی اہلیہ گورنر ہاؤس چھوڑ چکے تھے اور ان دنوں ہمارے ساتھ چھاؤنی میں رہ رہے تھے ۔ہم دونوں جب ایسٹرن کمان کے ہیڈ کوارٹر پہنچے تو دیکھا کہ جنرل عبدا لحمید خان بھی وہاں موجود تھے ۔جنرل ٹکا خان نے مطلع کیا کہ شیخ مجیب کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے ،لہذا صدر چاہتے ہیں کہ ہم دونوں فوجی ایکشن کے لئے تیاری اور منصوبہ بندی کریں۔مزید زبانی یاتحریری ہدایات اس ضمن میں ہمیں نہیں دی گئی تھیں۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ ہم دونوں مل کر فوجی ایکشن کی منصوبہ بندی کریں اور 18 مارچ کی شام اپنے تیارکردہ پلان کے مختلف پہلووں کے بارے میں فوج کے اعلی ترین عہدیداروں ۔۔ کمانڈر انچیف جنرل عبدا لحمید خان اور سپریم کمانڈر جنرل یحییٰ خان سے صلاح مشورہ کریں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply