رشیدہ منہاس سے راشد منہاس تک۔۔زاہد یعقوب عامر

یہ عظیم ماں آج انتقال کر گئی  ہیں۔
عظیم مائیں ہی  عظیم بیٹوں کو جنم دیتی ہیں۔ راشد منہاس کی والدہ محترمہ رشیدہ بیگم انتقال کر گئی  ہیں۔ وہی ماں جو راشد منہاس کی شہادت کے وقت گھر میں اس کی پسند کا کھانا بنا کر اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ آج ماں بیٹا آپس میں آن ملے ہیں۔ ماں نے بیٹے کو ملنے کے لیے پچاس سال انتظار کیا۔ اس ماں کے پچاس سال کیسے گزرے وہ تمام لوگ جانتے ہیں جو راشدہ بیگم کے قریب رہے ہیں۔ وہ واقعی بلند حوصلہ ماں تھیں۔ وہ شہید راشد منہاس کی یادوں سے جڑی وہ ماں تھیں جن کے لئے دوسرے بچے بھی نہایت اہم تھے مگر راشد سب سے منفرد تھا۔ تین بڑی بہنوں کے بعد پیدا ہونے والا راشد بہنوں اور ماں کی آنکھ کا تارہ تھا۔ والد محترم عبدالمجید منہاس ملٹری انجینئرنگ سروسز میں تھے اور پیشہ ورانہ مصروفیات میں مگن رہتے۔ والدہ ہی تمام بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کوشاں رہتیں۔ والدہ کی شفقت راشد کے حصے میں اس طرح آئی  کہ وہ شہادت پا گیا مگر ماں کے سب سے قریب رہا۔ راشد سے وابستہ ہر چیز, ہر انسان ان کے لئے اوّلین تھا۔ سب سے بڑی ترجیح تھا۔ آج راشد کے پاس ہوں گی , دونوں ماں بیٹا آپس میں خوب باتیں, گلے شکوے کر رہے ہوں گے۔

راشد منہاس رسال پور کی تربیت کے بعد کراچی آئے تو ماں نے نہائیت اطمینان محسوس کیا۔ وہ کبھی گھر سے دور نہیں رہا تھا۔ راشد کے انداز و اطوار بالکل مختلف تھے۔ وہ ہمیشہ سے محنتی تھا مگر اس میں بڑوں کی طرح گفتگو اور رویے کی جھلک تھی۔ ماؤں کو ہمیشہ بچے کم سن اور چھوٹے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ مگر انہوں نے پہلی مرتبہ راشد کو بڑا بنتے, بڑا ہوتے اور بڑی بڑی باتیں کرتے سنا۔ وہ اپنی زندگی کا ہر راز اپنی ماں سے شیئر کرنے کے عادی تھے۔ ماں کی سماعتیں بھی اپنے بیٹے کی باتوں کو سننے پر تسکین محسوس کرتی تھیں۔

میں ایک روز اپنی اہلیہ کے ہمراہ راشد منہاس شہید کی والدہ محترمہ, راشدہ بیگم صاحبہ سے ملنے گیا تو وہ بیمار تھیں اور بستر پر دراز تھیں۔ گفتگو کرنے میں شدید دِقت تھی۔ انجم منہاس بھائی  نے والدہ کو کہا کہ اماں۔۔۔ راشد کے بیس سے زاہد آپ سے ملنے آئے ہیں۔ میں ان سے کئی  سال قبل جب ملا تھا تو وہ صحت مند اور خوش گوار انداز میں گفتگو کرتی رہیں۔ اس بار تکلیف میں تھیں۔ مگر اپنی نرس کو کہا کہ یہ میرے راشد کے ائر فورس بیس سے آئے ہیں انہیں کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دینا۔ مجھ سے اصرار کیا کہ اگلی مرتبہ میں اپنی بیٹیوں کو  بھی ہمراہ لاؤں۔ نوے, اکانوے سال کی عمر میں بھی راشد ہی ان کے دل کا ٹکڑا, سکون کا سبب اور ممتا نچھاور کرنے کے قابل ہستی تھی ۔ راشد سے وابستہ ہر شخص سے محبت کرتی رہیں۔ راشد کی ائر فورس سے آئے بیٹے میں اپنا راشد ڈھونڈتی رہیں۔ جب چل پھر سکتی تھیں تو ان کی وردی میں آویزاں تصویر کو دن میں کئی  کئی  مرتبہ صاف کرتیں۔ دیکھتیں اور شہید بیٹے کو محسوس کرتیں۔

راشد منہاس کے کورس میٹس ویسے تو اس خاندان کے بہت قریب تھے۔ ان کے ہی کورس میٹ ائر چیف مارشل کلیم سعادت, چیف آف دی ائر سٹاف بنے۔ گزشتہ کئی سالوں سے تقریباً ہر ائر چیف ان کے گھر جانا اور اس عظیم ماں کی قدم بوسی کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ آپ کو انٹرنیٹ پر ایسی متعدد تصاویر نظر آئیں گی جہاں یہ عظیم ماں دوسروں سے اپنے راشد کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتی نظر آئیں گی۔ راشد سے محبت کرنے والوں سے مل کر خوشی ان کے چہرے سے پھوٹتی تھی۔ نوے سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لاغر ہو گئی تھیں۔ ہم نے چند سال قبل تک انہیں ہمیشہ باوقار, وضعدار دیکھا۔ چہرے پر شہید بیٹے کی ماں ہونے کی چمک ہمیشہ رہی۔ اطمینان رہا۔ یہ بلاشبہ وہ ماں ہے جس نے اپنا حق نبھا دیا۔ زندہ رہیں تو دھرتی ماں پر بیٹا وار کر زندہ رہیں۔۔ انتقال ہوا تو اطمینان کے ساتھ چار نسلوں کی خوشیاں دیکھ کر رخصت ہوئیں۔

ایک گزشتہ ملاقات میں بتایا کہ میں راشد منہاس کی شہادت کے روز پریشان تھی کہ اس کا فون نہیں آیا۔ راشد ماڑی پور (مسرور) ائر بیس کراچی کے نمبر 2 اسکواڈرن میں تعینات تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ لازمی روزانہ فون کرتے تھے۔ آج ان کا فون نہیں آیا تھا۔ والدہ نے اپنی بے چینی کا ذکر ان کے والد محترم سے کیا۔ والد صاحب نے کہا کہ کہیں مصروف ہوں گے۔ رات پریشانی میں گزری۔ ان کے دوستوں نے بھی کچھ نہ بتایا۔ ماں کے دل سے جڑی پریشانی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ وہ برداشت بھی کررہی تھیں مگر چبھن کا احساس تھا۔ کچھ مختلف ہو چکا تھا۔ انہیں خبر ملی کہ ائرفورس کے لوگ ان کے گھر آ رہے ہیں۔ وہ اس صورتحال سے مزید پریشان تھیں۔ بیٹے کی شہادت کا معلوم ہوا ,سب نے سلامی پیش کی۔ دل کٹا, آنسو بہے, تکلیف کا سمندر تھا مگر پھر وقت نے انہیں سنبھالا دیا۔ وہ سب جو سمجھتے تھے کہ ماں کو کیسے سکون ملے گا انہوں نے دنیا کی سب سے پرسکون ماں کو دیکھا۔ نو دہائیوں تک دوسروں کا احساس کرتے دیکھا۔ انہوں نے بخوبی دیکھا کہ راشد منہاس کو بہادر بیٹا بنانے والی ماں کا حوصلہ کیسا تھا۔ پھر نہ آنکھ سے اشک رواں ،نہ ہونٹوں اور ہاتھوں پر لرزہ ،نہ سینہ کوبی کی۔ بس اپنے بیٹے کو یاد کیا۔ اسے دوسروں میں ڈھونڈا۔ اس کا ذکر سن کر اطمینان سمیٹا۔
سترہ فروری 1951 کو رشیدہ بیگم کے ہاں راشد منہاس کی ولادت ہوئی۔ راشد منہاس پی اے ایف بیس فیصل کے ہسپتال میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب نے کہا کہ “رشیدہ بیگم, میں اپنے پہلے بیٹے کا نام تم سے ملتا جلتا رکھوں گا۔ “انہوں نے راشد کو تمام عمر ماں اور ماں کو بیٹے کے نام سے جوڑ دیا۔ آج بھی دنیا کے لیے تو وہ اپنی آنکھیں موند گئیں مگر راشد اور رشیدہ اکھٹے ہیں۔ نشان حیدر کے اعزاز سے ممتاز ہونے والا سب سے کم عمر ہیرو, آج آگے بڑھ کر ماں کو خوش آمدید کہے گا۔

راشدمنہاس نے لوئر ٹوپہ کے بعد رسالپور کی فلائنگ کی تربیت مکمل کی اور اس کے بعد پی اے ایف بیس مسرور (ماڑی پور) میں اپنی پیشہ تربیت کے لئے پہنچے۔
یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا چرچا تھا, حالات دگرگوں اور سنگین تھے۔ بنگالی افسر واپس جانا چاہتے تھے۔ ان کی ہمدردیاں اپنے خطے کے لیے تھیں۔ انہیں واپس جانے کے لیے قانونی لحاظ سے روکا نہیں جاسکتا تھا مگر اس وقت تک تقسیم کے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے۔ پاکستان کے دو ٹکڑوں کا زخم کسی دل کے لئے بھی قابل قبول نہ تھا۔ پاکستان کے استحکام اور حفاظت کے لئے ہر پاکستانی تشویش اور دکھ و کرب کا شکار تھا۔ مشرقی پاکستان میں جو مجموعی پاکستان کی بات کرتا وہ مجرم ٹھہرتا, مغربی پاکستان میں ہر سچے پاکستانی کے لئے تکلیف اور تشویش بڑھ رہی تھی۔

اگست 1971 یعنی مشرقی پاکستان کے سانحہ سے محض چار ماہ قبل کے ان حالات میں فلائیٹ لیفٹیننٹ مطیع  الرحمٰن نے ایک چال چلی۔ وہ پاک فضائیہ کے ائر بیس پر فلائیٹ سیفٹی افسر تھا۔ اس نے طیارے کو پائلٹ سمیت بھارت لیجانے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے وہ وقت چنا جس میں راشد منہاس کی پہلی سولو فلائٹ یعنی اکیلے, خودمختار فلائیٹ تھی۔ ماں منتظر تھیں کہ راشد اپنی پہلی سولو فلائٹ کے بعد گھر آئے گا۔ اس کی پسند کا کھانا تیار تھا۔ والد محترم اسے مسرور بیس سے واپس گھر لانے کے لئے منتظر تھے راشد منہاس انہیں کال کر دیں۔ والدہ محترمہ نے اپنے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا کہ اس روز میرا دل بہت بے چین تھا۔ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ منفرد ہونے والا ہے۔

راشد منہاس نے عسکری تاریخ کا ایک منفرد کارنامہ سر انجام دیا۔ ان کے فلائیٹ سیفٹی آفیسر مطیع  الرحمٰن نے ٹیکسی ٹریک پر جہاز میں کسی ممکنہ ہنگامی صورتحال کا اشارہ کیا۔ زیر تربیت (ٹرینی) پائلٹ آفیسر نے جہاز روکا۔ وہ انسٹرکٹر پائلٹ فوراً سوار ہو گیا۔ ہاتھ میں تھاما کلوروفارم کا رومال راشد کے منہ پر رکھا, مزاحمت کی صورت ہاتھ میں تھامے آہنی اوزار سے وار کیا ,راشد پر کلوروفارم کے سبب بے ہوشی طاری تھی اور لمحوں میں جہاز نیچی پرواز کرتے ٹھٹھہ کی طرف محو پرواز تھا۔ اسی دوران راشد منہاس ہوش میں آتے ہیں۔ حالات کا جائزہ لیا تو عقبی کاک پٹ میں بیٹھا انسٹرکٹر پائلٹ جہاز کا کنٹرول تھامے انہیں موقع نہیں دے رہا تھا۔ منہ سے نقاہت بھری آواز نکلتی ہے, “بلیو برڈ بی انگ ہائی  جیک, بلیو برڈ بی انگ ہائی  جیک۔”

جہاز کے دوسرے کاک پٹ میں بیٹھا مطیع الرحمان اس جہاز کے تمام فنکشن, عوامل, مہارت سے واقف ہے۔ وہ جہاز کو کم بلندی پر رکھے ہوئے ہے تاکہ ریڈار پر نہ دیکھا جا سکے۔ چند ناٹیکل میل کا فاصلہ اور اس کم سن شہباز کا تاریخی فیصلہ۔۔۔ جہاز کا رخ زمین کی طرف کر دیا جاتا ہے۔ جہاز میں موجود دشمنِ پاکستان مطیع الرحمان ,اہم نقشے, ہوائی  اڈوں اور اسلحہ خانوں کے راز اس شہید وطن کے ساتھ ہی مٹی کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

ممکن ہے یہ جہاز انڈیا سے واپس لے لیا جاتا۔ مطیع الرحمان بھی بنگلہ دیش چلا جاتا, مگر راشد منہاس کو گوارا نہیں تھا کہ اس کے ملک کا جہاز پاک فضائیہ کے پاس رکھے انڈین نیٹ جہاز کی طرح ان کی “وار ٹرافی” بن جاتا۔ دنیا کہتی کہ یہ ہے وہ پاکستانی جہاز جس کے پائلٹ کو جہاز سمیت اغوا کر لیا گیا۔ یہ ہے وہ کور آل جو اس نے پہنا ہوا تھا۔۔۔ اسے فوجی زبان میں کہا جاتا ہے
“Death before Disgrace”

Advertisements
julia rana solicitors london

راشد منہاس اس بات کو نبھا گیا۔ سبکی و شرمندگی سے قبل موت ہی ہماری شان ہے۔ یہی ہماری غیرت و حمیت کا تقاضا ہے۔ یہی ہے وہ درس جو راشد منہاس آنے والی نسلوں کو پڑھا گیا۔
راشد کی تربیت اس آغوش محبت میں ہوئی  تھی جس نے بہادر کا درس دیا۔ بہادری دکھائی۔ پچاس سالوں تک بیٹے کا دکھ لئے فخر سے جیتی رہیں۔
نوے سال کی عمر میں بھی راشد ہی ان کے دل کا ٹکڑا, سکون کا سبب اور ممتا نچھاور کرنے کی قابل ہستی تھا۔ راشد سے وابستہ ہر شخص سے محبت کرتی تھیں۔ راشد کی ائر فورس سے آئے بیٹے میں اپنا راشد ڈھونڈتی تھیں۔ راشد تو دھرتی ماں کا بیٹا تھا, وہ دھرتی ماں کی عزت و وقار کا محافظ بن کر اسی دھرتی ماں کی آغوش میں سو گیا۔ آج ماں بھی وہیں موجود ہیں جہاں بیٹا اپنی ممتا کا منتظر تھا۔ قوم کے اس کم سن شہید اور بہادر ماں کے لئے سلام عقیدت۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply