ایمان داری و اخلاق ، رزق بے حساب۔۔فرزانہ افضل

میری ایک قدرے قیمتی گھڑی جس کی بیٹری تقریباً  دو سال پہلے میں نے یہاں برطانیہ کی ایک بہت قدیم اور مشہور دکان  ،جو گھڑیوں، ہینڈ بیگ، جوتوں اور بہت سی اشیاء کی مرمت کے ماہر ہیں، سے ڈلوائی تھی اور تقریباً  پچیس پاؤنڈ دے کر بیٹری کی لائف ٹائم وارنٹی بھی خریدی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی میں جب بھی بیٹری تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ کارڈ دکھا کر بیٹری مفت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اب کورونا کے گزشتہ دو سال میں جہاں پوری دنیا میں اتنی تبدیلی آ چکی تھی وہاں مجھے بھلا وارنٹی کارڈ کہاں سے ملتا۔ اور اس دوران مذکورہ گھڑی کی بیٹری بھی لاک ڈاؤن میں بیکار پڑے پڑے سست ہو چکی تھی۔ لہذا آج گھڑی کو لے کر  دکان  پر پہنچی اور دوکان پر موجود ایک خوش شکل نوجوان سٹاف ممبرکو مدعا بیان کیا ،اصول کے مطابق اس نے گارنٹی کارڈ یا رسید بھی مانگا جو میں نے بتایا کہ میں دونوں چیزیں ہی کھو چکی ہوں۔ اس نے بہت ہی اچھے طریقے سے کہا بہتر ہے کہ آپ گھر جا کر ڈھونڈ لیں پھر دوبارہ آجائیں۔ میں نے اس سے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ کارڈ مجھے ملے گا لہذا جو بھی قیمت ہے میں ادا کر دوں گی آپ بیٹری دوبارہ ڈال دیں۔ میں نے مزید اضافہ کیا کہ جب آپ گھڑی کھولیں گے تو شاید آپ پہچان سکیں گے کہ بیٹری آپ ہی کی دکان کی ہے۔ اب لائف ٹائم وارنٹی کے ساتھ بیٹری کی قیمت 30 پاؤنڈ ہو چکی تھی۔ میں اپنا بینک کارڈ ہاتھ میں لیے 30 پاؤنڈ کی ادائیگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ جونہی وہ خوبرو نوجوان گھڑی کی بیٹری تبدیل کرنے لگا تو اس نے یکدم کہا یہ بیٹری تو ہماری ہی دکان کی ہے۔ اس نے فوراً  بیٹری تبدیل کی اور مجھے کہا کہ وہ اس موقع پر مجھ سے کوئی فیس نہیں لے گا اور ساتھ میں نیا وارنٹی کارڈ بھی لکھ کر دیا اور مسکراتے ہوئے نصیحت کی کہ میں اب اس کو سنبھال کر رکھوں۔ میں اسٹاف ممبر کے اعلیٰ  اخلاق سے بے حد متاثر اور حیران بھی ہوئی کہ اس نے تیس پاؤنڈ کی رقم مجھے معاف کر دی۔ میں نے خوش ہو کر اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور اس کو دعا دی کہ اسکا ویک اینڈ بہت اچھا گزرے۔

گھر واپس آتے ہوئے ڈرائیونگ کے دوران میں یہ سوچ رہی تھی کہ کاش مغرب کا یہ کاروباری اخلاق ہمارے مادر وطن کے افراد بھی سیکھ لیں تو کیا وجہ ہے کہ ملک ترقی نہ کرے۔ ہمارے ہاں یہ اخلاق اور ایمانداری گاہک اور دکاندار دونوں کو اپنانا ہوگی۔

کاروباری اخلاقیات کا مفہوم اخلاقی قدروں کا کاروباری رویے میں اطلاق کرنا ہے۔ اخلاقیات کسی بھی کمپنی کی قانونی ضروریات یا اصولوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں مغرب میں کاروباری حضرات کے لیے ان کے گاہکوں کا اعتماد حاصل کرنا اور انہیں تسلی بخش سروس مہیا کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ ہر قسم کا کاروباری طبقہ چاہے وہ کسی سٹور کے مالک ہو ں یا دوکان دار یا کسی بھی طرح کے بزنس مین انہیں اپنے گاہکوں کے ساتھ غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے اور اخلاقیات پر سمجھوتا کیے بغیر گاہکوں کو مطمئن کرنا چاہیے، یہاں پر کمپنیاں اپنے ملازمین کو دوسری ٹریننگ کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ان کے بزنس کی اخلاقی تربیت بھی دیتی ہیں۔ جس کو یہاں پر کسٹمر سروسز کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔ اگر ہم سب ان اصولوں کو اپنی زندگی میں  اپنا لیں اور ایمانداری اور اخلاق کو اپنا شیوہ بنا لیں تو میرا ایمان ہے کہ وہ جو رزاق ہے بےحساب دیتا ہے۔

اللہ کو بھول گئے لوگ فکر ِ روزی میں
تلاش رزق کی ہے رزاق کا خیال ہی نہیں
( علامہ اقبال)

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تحریر لکھنے سے پہلے میں نے  دکان کی ویب سائٹ پر جا کر ان کا بے حد شکریہ ادا کیا اور بہت شاندار ریماکس لکھے۔ میری فیڈبیک کے جواب میں انہوں نے شکریہ کی ای میل بھیجی اور ساتھ میں دس پرسنٹ ڈسکاؤنٹ کا واؤچر بھیجا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply