انسانی حقوق کی تکرار اور خواتین۔۔سونیا پطرس

بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کسی بھی معاشر ے کی تشکیل اور ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور فلاحی ریاستیں اپنے شہریوں کی شخصی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں تاکہ سماجی و معاشرتی ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔اقوام کی محفوظ اور پُرامن زندگی کا انحصار بنیادی انسانی حقوق کی مساویانہ اور مسلسل فراہمی پر ہے،جو ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعداقوام متحدہ کاقیام اور کم وبیش دنیاکے تمام ممالک کا اسے تسلیم کرنا ایک طرح سے نئی دنیاکی شروعات تھی، جہاں جنگ و جدل کی روک تھام اور کم مراعات یافتہ طبقوں، ریاستوں کے لیے امداد اور تسلی کا سامان موجود ہوتا۔ انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے سے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک اور تشددکے خاتمے، بچوں کے حقوق، افراد باہم معذوری کے حقوق، نسلی، مذہبی، ثقافتی یا لسانی اقلیتوں کے حقوق سمیت معاشی، سیاسی، اور سماجی حقوق کی فراہمی کے اعلامیے جاری ہوئے،معاہدوں پر دستخط کیے گئے اور ان کی توثیق بھی کر دی گئی، تاہم عملدرآمد کے معاملے میں مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، اور افریقہ کے بہت سے ممالک آج بھی علاقائی، مذہبی، اور وسائل کی آڑ لے کر ان معاہدوں سے صرفِ نظر کرتے چلے آ رہے ہیں۔

پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو متعدد عالمی معاہدوں، کنونشن، اور قراردادوں کا نہ صرف دستخط کنندہ ہے بلکہ انکی توثیق کرنے والے اولین ممالک میں شامل رہاہے۔ جس میں مذکورہ بالا تمام معاہدے، اعلامیے اور کنونشن شامل ہیں۔ خاص طور پر مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم شہید بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے معاہدے Committee on the Elimination of All Forms of Discrimination against Women (CEDAW) کی توثیق کرنے کے فیصلے کی دنیا بھر میں ستائش کی گئی، تاہم خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے عملی اقدام وومن پروٹیکشن بل 2006کی صورت میں متعارف کروایا گیا، اور اب تک اس پر مکمل عملدرآمد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں خواتین دوست قوانین موجود ہیں، مگر ریاست وحکومت کو اس بات سے بھی بخوبی واقف ہونا چاہیے کہ صرف قانون بنا دینا ہی کافی نہیں، اُن پر عمل درآمد ہی اُس قانون کی اصل روح ہے۔ غور کیا جائے تو پاکستان میں خواتین کے حوالے سے جو قانون سازی ہوئی اس سے زبردستی شادی، ونی، اور دیگر مکروہ رسومات سمیت تشددکے واقعات کے خلاف رپورٹ کرنے کا شعور بھی بڑھ رہا ہے،لیکن وومن پولیس سٹیشن، وومن پولیس سٹاف کی کمی، عدالتی نظام کی سست روی اور جہالت زدہ سماج کی وجہ سے مجرم آزاد گھوم رہے ہیں اور خواتین کے خلاف جرائم میں بھی دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان HRCP، عورت فاؤنڈیشن اور عوام پاکستان کی طرف سے جاری کردہ کچھ اعداد و شمار کے مطابق ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کو صنف کی بنیاد پر امتیاز برتنے کی عالمی درجہ بندی میں 153 ممالک میں 151 ویں نمبر پر رپورٹ کیا ہے، جومرد کے مقابلے میں خواتین کے لیے پاکستانی معاشرے کو خطرناک حد تک متعصب ظاہر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مارچ سے نومبر 2020 کے درمیان غور کیا گیا کہ عالمی وباء کرونا کے دوران خواتین کے خطرات میں اضافہ ہواجس کہ نتیجہ میں گھریلو اور آن لائن تشدد کی شکایات میں اضافہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں بلکہ ہم روزانہ کی بنیاد پردیکھتے،پڑھتے اور سنتے ہیں کہ خواتین کے خلاف ہراسانی،جنسی زیادتی، گھریلو تشدد، ذہنی، جسمانی تشدد کے درجنوں واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔

کارل مارکس نے کہا تھا کہ اگر کسی معاشرے کے تہذیبی معیار کو پرکھنا مقصود ہے تو یہ دیکھو کہ اس معاشرے میں مرد کے مقابلے میں عورت کو کیا رتبہ دیا جاتا ہے، عالمی سطح پرخواتین پر تشددکے خاتمے اور تشدد سے پاک مستقبل کی ضرورت واہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 25 نومبر سے10 دسمبر تک 16 روزہ تقریبات منعقدکی جاتی ہیں، اس دوران نارنگی رنگ سے عمارتوں کو سجایا جاتا ہے، اس مہم کا مقصد صنفی تشدد کے بارے میں تازہ ترین اعدادوشمارکے ساتھ رپورٹس کا اجراء کیاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان گرلز گائیڈز ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر عوام پاکستان تنظیم بھی 16روز تک سکول و کالجز اور عوامی مقامات پر خواتین کے حقوق، اس ضمن میں وضع کیے گئے قوانین، تشددکی اقسام، رپورٹ کرنے کے طریقہ کار،عملدرآمد کرنے والے اور تحفظ فراہم کرنے والے متعلقہ اداروں سے متعلق آگاہی کا اہتمام کرتی ہے۔16 روزہ مہم کے دوران معلوم ہوا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدترکی طرف جارہے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں تنگ نظری اور عدم برداشت کا عروج پر ہونا بھی ہے، کیونکہ ہم میں سے اکثر حالات کی تلخی، مایوسی اور تنگدستی کی صورت میں دوسروں پر تشدد خاص طور پر خواتین کو مار پیٹ کر، اُن پر جملے بازی کر کے ذہنی وحشت کو کم کرنے کوشش کرتے ہیں۔ اس پر مستزادکہ ملک کا وزیراعظم ہی عالمی فورم پر بیٹھ کر کہے کہ خواتین کا پہناوا مردوں کو لُبھاتا ہے، اور اسی وجہ سے جنسی تشدد یاہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، ایسی صورت میں نام نہاد معاشرے کی اخلاقیات کہاں باقی رہتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ضمن میں دیکھا جائے توصرف موجودہ وزیر اعظم  ہی ایسی واحد مثال نہیں ہیں، بلکہ ہمارے اکثر لیڈر عدم برداشت اور تنگ نظری کے مرض میں مبتلا ہیں اس لیے وہ خواتین یااقلیتوں کے بارے میں بات کرنے سے پہلے سوچتے تک نہیں ہیں کہ وہ ایک ملک کے نمائندہ اور کروڑوں لوگوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔سابق صدر ڈکٹیٹرپرویز مشرف نے خواتین زیادتی کیسز رپورٹ ہونے پر کہہ رکھا ہے کہ خواتین  خود  ریپ کرواتی ہیں تا کہ وہ باہر کہ ملک میں جا سکی، آئی جی پولیس کا موٹر وے کیس پر بیان تو کل کی بات ہے کہ خواتین کو اکیلے سفر یا رات میں سفر نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے کے مختلف سیاسی، مذہبی شخصیات کی طرف سے ایسے بے شمار بیانات و واقعات موجود ہیں جن کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں صنفی امتیازات یا خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
حالانکہ موجودہ حالات کا تقاضاہے کہ صنفی، مذہبی، لسانی یا دیگر امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شراکتی اور شمولیتی معاشرے اور ریاست کے ماڈل کو مد نظر رکھا جائے اور دبے ہوئے کم مراعات یافتہ طبقات یعنی خواتین، افراد باہم معذوری اورمذہبی و نسلی اورلسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ترقی کے سفر میں ہم قدم کیاجائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply