• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جمہوریت امریکی مفادات کے سائے میں۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

جمہوریت امریکی مفادات کے سائے میں۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی انتظامیہ کے واضح طور پر بھارت کی طرفداری کرنے، بائیڈن کے وزیراعظم کو کال نہ کرنے اور افغانستان میں ہماری مدد پر شکریہ کی بجائے شکوہ کرنے پر پاکستان نے امریکہ کو سفارتی لحاظ سے بڑا اچھا جواب دیا ہے۔ پاکستان کی پالیسی بڑی واضح ہے، جو امریکہ کو نظر آجانی چاہیئے کہ اب ہم نئی سرد جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور کسی ایک گروپ کو بھی اختیار نہیں کرینگے۔ وزیراعظم پاکستان نے وضاحت کر دی ہے کہ جس طرح ہم نے ماضی میں چین اور امریکہ کے درمیان رابطہ کرایا تھا، اب بھی اسی طرح کا کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر ہم کسی گروپ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ لیں جی اب تو جمہوریت کھیلوں تک بھی پہنچ چکی ہے، امریکہ اور آسٹریلیا نے چین میں ہونیوالے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ امریکہ اور یورپ چین سے تجارت و دفاع کیساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی شکست کھا رہے ہیں۔

دنیا میں مختلف اوقات میں مختلف نظام رائج رہے ہیں، زیادہ تر وقت آمرانہ طرز کی بادشاہتوں نے دنیا کے بڑے حصے پر حکمرانی کی ہے۔ اب جمہورت کا زمانہ آچکا ہے اور انسانوں کی بڑی تعداد نے اسے ایک بہتر نظام کے طور پر قبول کیا ہے۔ امریکہ اور یورپ اب جمہوریت کے بڑے پروموٹر ہیں اور دنیا بھر میں اس کی تبلیغ و نشر و اشاعت کرتے ہیں۔ ہر سال غیر جمہوری ممالک کی فہرستیں مرتب کی جاتی ہیں اور ان پر پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں بسنے والی عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم اقوام کو آمرانہ نظاموں سے نجات دلانے کی اپنی قدر پر کام کر رہے ہیں۔ کیا حقیقت میں ایسا ہوتا ہے؟ قارئین کرام امریکہ کو ہر اس جگہ جمہوریت یاد آتی ہے، جہاں اس کے مفاد کو زک پہنچائی جا رہی ہوتی ہے، ورنہ سعودی عرب سے لے کر عرب امارات، بحرین اور قطر میں کونسا نظام حاکم ہے؟ مگر امریکہ کے تعلقات دیکھیں دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور بقول صدر ٹرمپ کے سعودی تجارت سے ہمارے اسلحہ کی فیکٹریاں چل رہی ہیں اور امریکیوں کو روزگار مل رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہم ٹریلینز آف ڈالرز کو لے رہے ہیں، اس لیے وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق کی دیویاں داخل نہ ہونے دینا ہمارے مفاد میں ہے، اس لیے وہاں جمہوریت کی بات نہیں ہوگی۔

امریکہ اور یورپ نے دنیا میں آزاد تجارت کے تصور کو عام کیا اور اسے ایک ایسی قدر کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی کہ جسے ہر ملک تسلیم کرنے پر مجبور ہو۔امریکہ اور یورپ کے ماہرین اور سرمایہ دار یہ سمجھتے تھے کہ اس سے دنیا بھر میں ان کی اشیاء بغیر ٹیکس کے فروخت ہوں گی اور دنیا کی کوئی مارکیٹ ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گی، اس طرح دنیا بھر کی مارکیٹس پر ان کا قبضہ ہو جائے گا اور وہ بے تاج بادشاہ ہوں گے۔ یورپ نے مشرق کو نظر انداز کیا، اس نے فقط یہاں کے انسانوں کو بڑی مارکیٹ کے طور پر ہی دیکھا، اس نے یہاں کی انسانی ترقی اور مستقبل کے امکانات کو نظرانداز کیا۔ وہ چین جس کا وفد ساٹھ کی دہائی میں کراچی آیا تو حبیب بنک کی بلڈنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا اور پاکستان سے منصوبہ سازی اور مالی تعاون کا خواستگار تھا، اس نے پچھلے تیس سال میں اتنی ترقی کی کہ ایشیاء کی منڈیوں کو تو چھوڑیں، یہاں تو جائے نماز سے لے کر اسلحہ کی تجارت تک ہر چیز میڈ ان چائینہ ہے، اس نے یورپ کی مارکیٹ پر بھی سستی اشیاء کی یلغار کر دی۔

بات چھوٹی چھوٹی موٹی اشیاء تک محدود رہتی تو بھی خیر تھی، چین تو ٹیکنالوجی کی نقل سے تعارف کروا کر فائیو جی اور مصنوعی ذہانت میں لیڈنگ فورس بن گیا۔ اس نے خود امریکی منڈیوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور چین کی سرمایہ کاری نے امریکی معیشت پر قبضہ کا خطرہ پیدا کر دیا۔ ان حالات میں یورپ اور امریکہ کی اجارہ دار کو چیلنج درپیش ہوگیا اور خطرہ پیدا ہوا کہ اگر چائنہ ہاتھی کی طرح یونہی خاموشی سے آگے بڑھتا رہا تو جلد عالمی نظام کے فیصلے واشنگٹن سے بیجنگ منتقل ہو جائیں گے۔ اب انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا نظریہ دیا گیا ہے۔ اس میں پہلے برطانیہ کو یورپ سے الگ کرکے اس سابق بین الاقوامی استعمار کو مکمل طور پر ساتھ ملایا گیا، پھر آسٹریلیا اور انڈیا کو لالچ دے کر ساتھ کر لیا گیا۔ اب انڈیا خطے میں براہ راست امریکی مفادات کا نگران ہوگا، پچھلے ایک دو سال میں ہونے والے اقدامات کو اسی پیمانے میں دیکھیں گے تو بین الاقوامی تناظر کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

چین نے اپنے ماضی کے ایک بحری رہنماء کی دوستی اور رابطے کی خارجہ پالیسی کے نظریہ کو زندہ کیا اور دنیا بھر میں رابطے کے ذرائع کی تعمیر میں لگ گیا۔ چین نے خود کو کیموزم کی اندھیر وادی میں غرق نہیں کیا بلکہ اس سے متحریک انتظامیہ کا تصور لے کر باقی سرمایہ دارانہ نظام کو بھی جگہ دی اور ہاں ساتھ میں ریاست شہریوں کی ترقی سے غافل بھی نہیں ہوئی اور جب ضرورت پڑی ان کی مدد کے لیے ان کے دروازے پر موجود تھی۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی کرونا وبا کو کنٹرول کرنا ہے اور کروڑوں لوگوں کو ان کی دہلیز پر کھانا فراہم کرنا ہے، جبکہ یورپ کا جمہوری نظام ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ اب امریکہ نے جمہوریت کا پھندا چین کے گلے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے، بائیڈن انتظامیہ اور دیگر یورپی ذرائع ابلاغ کافی عرصہ سے انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔

اب جمہوریت کا نعرہ مستانہ لگا کر چین کے خلاف ایک ورچول کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس میں چین، روس اور بنگلہ دیش کے علاوہ دنیا کے سو سے زیادہ ممالک کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، بالخصوص تائیوان کو بلایا گیا ہے۔ یہ ایک طرح سے دنیا کو نئی سرد جنگ میں دھکیلنے کا آغاز ہے، اس پر روس کے ایک عہدیدار نے خوب کہا کہ امریکہ جمہوریت کی اصطلاح کی نجکاری کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طرح کے اجلاس دنیا میں نئی تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ماضی سے سبق لیتے ہوئے بڑا خوب فیصلہ کیا ہے اور اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا اور امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اس نے دعوت دی۔ اس دعوت کو ریجیکٹ کرنے کا چائینہ نے سرکاری طور پر شکریہ ادا کیا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سرد مہری طالبان کے ساتھ مذاکرات کے وقت سے چل رہی ہے، امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ ہماری ذلت آمیز شکست کی واحد وجہ پاکستان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کہہ رہا ہے کہ “بھلے لوکو” ہم نے آپ کو بیس سال پہلے سمجھایا تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، مگر آپ نے خود سو جوتے بھی کھائے اور سو پیاز بھی۔ امریکی انتظامیہ کے واضح طور پر بھارت کی طرفداری کرنے، بائیڈن کے وزیراعظم کو کال نہ کرنے اور افغانستان میں ہماری مدد پر شکریہ کی بجائے شکوہ کرنے پر پاکستان نے امریکہ کو سفارتی لحاظ سے بڑا اچھا جواب دیا ہے۔ پاکستان کی پالیسی بڑی واضح ہے، جو امریکہ کو نظر آجانی چاہیئے کہ اب ہم نئی سرد جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور کسی ایک گروپ کو بھی اختیار نہیں کریں گے۔ وزیراعظم پاکستان نے وضاحت کر دی ہے کہ جس طرح ہم نے ماضی میں چین اور امریکہ کے درمیان رابطہ کرایا تھا، اب بھی اسی طرح کا کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر ہم کسی گروپ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ لیں جی اب تو جمہوریت کھیلوں تک بھی پہنچ چکی ہے، امریکہ اور آسٹریلیا نے چین میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ امریکہ اور یورپ چین سے تجارت و دفاع کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی شکست کھا رہے ہیں

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply