ہم بدترین قوم نہیں ۔۔عارف انیس

جی ہاں، ہرگز نہیں۔ چاہے آپ مجھے حوالے میں تصدیق کے لئے ہفت روزہ نیوز ویک کا شمارہ بھی بھیجیں جس کے اوپر جلی حروف میں لکھا ہے “پاکستان – دنیا کا سب سے خطرناک ملک عراق نہیں، پاکستان ہے”، تو پھر بھی نہیں، مجھے اس گواہی کی رتی بھر پرواہ نہیں ہے۔

ایک تو اس لیے کہ نیوز ویک کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے، خبریں بننے کا ایک ذریعہ ہے جو اشتہارات کے زور پر چلتا ہے۔ جس کے ماتھے پر لابنگ اور پیسے کے زور پر بہت کچھ چپکایا کا سکتا ہے۔ یہ نیوز ویک 80 برس تک چھپنے اور تہلکہ مچانے کے بعد دسمبر 2012 میں اپنی اشاعت بند کر چکا ہے اور اب صرف آن لائن شائع ہوتا ہے۔ پاکستان کو ابھی 75 برس ہونے کو ہیں اور اپنے قیام سے لے کر اب تک ہونے والی پیشین گوئیوں کے برعکس وہ قائم دائم ہے اور وہ ہرگز دنیا کا سب سے خطرناک ملک نہیں ہے اور نہ ہی ہم دنیا کی بدترین قوم ہیں۔

ہاں درست ہے، ہم پریانتھا کا قتل ہوا، دن دہاڑے اسے جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ اس سے پہلے بھی زورآوورں نےزیادتیاں کیں۔ یہ درست ہے کہ یہ ملک ابھی بھی زرداروں کی جاگیر ہے اور خاکی و آبی ایلیٹ، نوکر شاہی، کرپٹ سیاستدانوں، ملاؤں اور سرمایہ داروں کا وائلڈ ویسٹ اور چراگاہ ہے جس میں وہ اپنی مرضی کا شکار کھیلنے کے لئے آزاد ہیں۔ درست ہے کہ ہماری رینٹ اے عدلیہ دنیا میں آخری دموں پر آتی ہے، اور اس ملک خداداد میں مذہب پہلے دن سے زورآووروں کے ہاتھ میں ایک لوہے کا کانٹوں والا مکہ ہے جس کو بوقت ضرورت پہن لیا جاتا ہے، مگر ہم دنیا کی بدترین قوم ہرگز نہیں ہیں۔

اسی دنیا میں بلیک لائیوز میٹر کی تحریک ابھی چلی ہے۔ یہاں تو ہجوم تھاوہاں ایک پولیس والے نے اپنا گھٹنا سیاہ فام جارج فلائڈ کی گردن پر کئی صدیوں سے رکھا ہوا ہے اور وہ دم گھٹنے کی دہائی دیتا مر جاتا ہے۔ اسی دنیا میں گجرات ہے، جہاں ہزاروں مسلمانوں کو راکھ کر دیا گیا، کشمیر ہے جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل چکا ہے، آسام ہے جہاں لاکھوں بے وطن ہیں، دہلی ہے جہاں گوشت خریدنے کے جرم میں کئی لوگ خون میں نہلا دیے گئے، روہنگیا ہیں ہزاروں کو دنیا کے سب سے پر امن مزہب کے پیروکاروں نے ذبح کردیا۔ کتنے امریکی، بھارتی، برمی آپ کو کہتے ملے ہیں کہ وہ دنیا کی بدترین قوم ہیں۔

جی درست ہے، آپ کا غصہ بجا ہے۔ ادھر ادھر انگلیاں گھمانے سے بات نہیں بنے گی۔ مسئلہ ہے اور ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا والی صورت حال ہے۔ تقدیس کا بزنس عروج پر ہے اور سانپ پٹاری سے باہر ہے۔ تاہم اس بھیانک رات میں روشنی کی علامت صرف عدنان ملک ہی نہیں، تقریباً دس میں سے سات پاکستانی ہیں۔ گزشتہ چھ دن میں میں سوشل میڈیا پر، ٹیلی ویژن پر ایک سینہ کوبی دیکھتا ہوں، ہزاروں مرتبہ سنا ہے کہ ہم شرمندہ ہیں اور اس مرتبہ مجھے نظر آتا ہے کہ ہم شرمندہ ہیں۔ میں نے صرف لبرلز کو ہی نہیں، کئی داڑھی والوں کو بلکتے دیکھا ہے، پریانتھا کی کرلاتی میت پر موجود ماں میں سب کو اپنی ماں نظر آئی ہے، شاید ان کو بھی جنہوں نے ان سانپوں کو شہد چٹا چٹا کر بڑا کیا ہے۔

تاہم اسی “بدترین” ملک میں ایک ہفتے سے سوگ کا عالم ہے۔ اسی سیالکوٹ میں پریانتھا کے لیے ایک لاکھ ڈالر جمع ہوئے، دنیا بھر میں پاکستانیوں نے پریانتھا کے لیے عطیات دیے۔ لکھنے والوں نے لکھا اور قلم توڑ دیے۔ پورے پاکستان میں محسوس ہوا جیسے ان کے اپنے گھر کا کوئی فرد رخصت ہوگیا، سینکڑوں ملزمان گرفتار ہوئے، ثبوت اکٹھے کیے گئے اور قانون کا پہیہ پوری طاقت سے چل پڑا ہے۔ مجھے ایک انڈین پولیس افسر کا سوشل میڈیا پر دیا گیا ایک بیان یاد آتا ہے جس میں وہ کہتا ہے “سیالکوٹ میں آٹھ گھنٹے کے اندر اندر سینکڑوں گرفتار، مرکزی ملزمان کی شناخت مکمل اور حکومت کی قانون نافڈ کرنے والے اداروں کی مکمل حمایت ہم تو ان چیزوں کا سوچ بھی نہیں سکتے”۔ جی ہاں دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جہاں دن دہاڑے معصوم لوگوں کو ذبح کرنے کے باوجود کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔

درست ہے کہ ہم پاکستانیوں کو اکثر اپنی پشت پر کوڑے برسانے میں، سینہ کوبی میں اور اپنی گردن میں چھیچھڑے پہننے میں مزہ آتا ہے، لیکن برائے مہربانی مجھے نیوز ویک کی بدترین قوم کی گواہی مت بھیجیں، وہ میرے لیے نے معنی ہے۔ کروڑوں ریڈ انڈینز کی ہڈیوں پر بنے دنیا کے طاقتور ترین ملک میں دی گئی یہ سٹیٹمنٹ صرف اس لیے قبول نہیں کی جاسکیں کہ یہ انگریزی میں ہے۔ پاکستان میں، میں ایک نہیں لاکھوں عدنان ملک دیکھتا ہوں اور ان کی نظر میں شرمساری بھی دیکھتا ہوں کہ اب وہ ایسا ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے اندر زندگی باقی ہے، امنگ باقی ہے، امید باقی ہے۔ اگر پریانتھا کے مجرمان قاتل کیفر کردار تک پہنچ گئے، اور وہ ہیرو بننے سے محروم رہ گئے تو امید ہے کہ ہم تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے بچ جائیں گے۔

جی ہاں جناب والا، ہمارے مسائل ہیں، ہم بہت سے طوفانوں میں گھرے ہیں، ہم بہت برے ہیں، بہت کچھ ٹھیک ہونے والا ہے، مگر معاف کیجئے گا، ہم دنیا کی بدترین قوم ہرگز نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نہیں، جناب والا، ہرگز نہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply