تھانہ ،پولیس اور صحافی۔۔رضوان ظفر گورمانی

میں بچپن سے ہی صلح جو انسان ہوں لڑائی جھگڑے فساد سے دور رہنے والا امن پسند شہری۔اگر میں جرنلسٹ نہ ہوتا تو شاید تھانے پولیس سے زندگی بھر واسطہ ہی نہ پڑتا۔دونوں کی جاب نیچر ایسی ہے کہ میڈیا اور پولیس کا روز کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔پاکستانی عوام کی اکثریت کی طرح میں بھی پولیس کو کرپٹ اور بے کار ادارہ سمجھا کرتا تھا جہاں بس عوام کا خون چوسا جاتا ہے اور ان کی عزت نفس کو کچلا جاتا ہے۔

پھر پولیس والوں سے ربط بڑھا اٹھنا بیٹھنا ہوا دوستیاں ہوئیں تب جا کر اس محکمے کی مظلومیت کا اندازہ ہوا۔میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں کہ میرے حلقہ احباب میں سی سی پی او ڈی آئی جی لیول کے افسران سے لے کر عام سپاہی تک کے پولیس اہلکار شامل ہیں۔مجھے افسران بالا کے مسائل کا بھی اندازہ ہے اور ڈی پی او اور ایس ایچ او تفتیشی کے مسائل کا بھی۔

یقین جانیں یہ پولیس والے ہماری آپ کی طرح کے انسان ہیں ان کے جذبات ہیں دوستیاں ہیں فیملیز ہیں بیوی بچے ہیں۔یہ ظالم نہیں یہ مجبور ہیں۔

پچھلے چند سالوں سے میرے ضلع میں آے والے ہر ڈی پی او صاحب سے تعلق واسطہ رہا ہرچند کہ راقم روایتی صحافی ہے نہ ہی آئے دن پولیس کے بارے میں خبریں لگاتا ہے۔موجودہ ڈی پی او مظفرگڑھ حسن اقبال صاحب لیہ سے ٹرانسفر ہو کر یہاں آئے۔میرٹ پسند اور کرپشن پہ نو ٹالرنس پالیسی رکھنے والے ڈی پی او حسن اقبال صاحب کے ساتھ ساتھ لیہ ریجن سے اک متحرک نوجوان ایس ایچ او ملک خرم کھر بھی مظفرگڑھ ریجن میں ٹرانسفر ہوئے۔ان سے کبھی کام پڑا نہ واسطہ لیکن ان کے کارنامے وقتاً فوقتاً پہنچتے رہے۔
شہر سلطان کے علاقے قادر پور میں برلب سڑک دکان کے ساتھ سوئے ہوئے اک دکاندار کو رات کو کسی نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ڈی پی او حسن اقبال محمد نے ملک خرم کھر کو ٹاسک سونپا انہوں نے ہفتے کے اندر اندر اس اندھے قتل کا سراغ لگا کر قاتل پولیس اہلکار کو گرفتار کر لیا‍۔عباس نامی اہلکار نے دکاندار کو قتل کیا اور اس کے فوری بعد پولیس لائین مظفرگڑھ میں جا کر اپنی ڈیوٹی سر انجام دی تا کہ کسی کو شک نہ ہو لیکن ملک خرم کھر نے ہفتہ کے اندر اندر قاتل کو ٹریس کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

اس سے قبل ملک خرم کھر نے مظفرگڑھ میں بین الاصوبائی منشیات فروشوں کا گینگ پکڑا۔خیبر پختونخوا کے سمگلر سلطان زیب کو تھرمل روڈ سے جب گرفتار کیا گیا تو اس کے پاس اک کروڑ پانچ لاکھ مالیت سے زائد کی منشیات برامد ہوئیں۔منشیات فروشوں کے متعلق مشہور ہے کہ ہمیشہ چھوٹی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں بڑے مگرمچھوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ اک کروڑ مالیت کی سمگلنگ کرنے والے شخص نے ملک خرم کھر اور سب انسپکٹر بلال چانڈیہ کو کتنے پیسوں کی آفر کرائی ہو گی۔لیکن جب دال نہ گل سکی تو اگلی آفر تھی کہ آدھا مال شو مت کریں برانڈ نیو گاڑی لے لیں مگر یہ نیا خون نئے افسران ناصرف تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ایمانداری اور ملکی خدمت کے جذبے سے بھی سرشار ہیں یہی وجہ ہے سمگلر صاحب تمام تر آفرز کے باجود جیل کی سلاخوں میں ڈال دیے گئے۔

شہر سلطان میں ہی کا واقعہ ہے شہریوں نے ڈکیتی کرتے ہوئے ملزمان پکڑلیے اور خود اپنی عدالت لگا لی۔ان پہ تشدد کیا ہاتھ کاٹ ڈالے اور مارنے کے درپے تھے۔ملک خرم کھر موقع پہ پہنچے اور شہریوں کو سمجھایا کہ ملک میں عدالتیں موجود ہیں  نظام موجود ہے قانون کا رکھوالا ہوتے ہوئے میں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دوں۔نپھرے ہوئے شہریوں نے ان پہ بھی حملہ کر دیا۔کہتے ہیں کہ پرتشدد ہجوم کے سامنے کلمہ حق بولنا بہادری کی بات ہوتی ہے کجا کہ ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانا۔خیر ملک خرم کھر نے ڈاکووں پہ ہونے والے وار خود پہ سہے اور ڈاکووں کو زندہ نکال لائے اور عوام کو قتل کرنے سے باز رکھا۔ملک خرم کھر نے مظفرگڑھ میں تعیناتی کے دوران جوئے کے اڈوں پہ کامیاب ریڈ کیے چوروں کے گروہ پکڑے اور لاکھوں روپے ریکور کیے۔

چند ماہ پہلے ان کی تعیناتی میرے شہر کوٹ ادو میں ہوئی تعیناتی کا پہلا یا دوسرا روز تھا کہ وائرلیس ہوئی کہ اشتہاری ڈکیت جنہوں نے لیہ میں پولیس والوں کو بھی قتل کیا ہوا تھا فرار ہو کر کوٹ ادو کی حدود میں داخل ہوئے ہیں۔کرائم فائٹر ملک خرم کھر نے نفری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو منہ زور ڈکیتوں نے بجائے ہتھیار ڈالنے کے ماضی کی روایت کے عین مطابق لڑنے کو ترجیح دی اور یوں واصل جہنم ہوئے۔چند روز بعد شہر کا ملحقہ علاقہ موضع چوہدری ڈکیتوں کی فائرنگ سے گونج رہا تھا علاقے میں خوف و ہراس تھا دو تین تھانوں کی پولیس نے مل کر مقابلہ کیا اور اک بار پھر اس بہادر ایس ایچ او نے فرنٹ سے لڑتے ہوئے ڈاکو کو کیفر کردار تک پہنچایا۔

یہ واقعات علاقے کے جرائم پیشہ افراد کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئے یوں جب سے ملک خرم کھر یہاں آئے ہیں مجموعی طور پہ صورت حال پرامن کو چکی ہے۔چند اک واقعات ہوئے ہیں جن پہ وہ جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔

میرے قارئین اور سوشل میڈیا فرینڈز جانتے ہیں کہ مجھے ونٹیج گاڑیوں پرانے ماڈل کی بائیکس اور ان کی موڈیفکیشن کا شوق ہے۔
پاکستان میں بائیکس موڈیفائی کرنے والے واحد مکینک الطاف راجا سے میرا مسلسل رابطہ رہتا ہے اور میں ان کے مشورے پہ بائیکس موڈیفائی کرتا رہتا ہوں۔
میری بائیک چونکہ برائے فروخت نہیں تھی اس لیے لگتا ہے کسی شوقین کے ہتھے چڑھ گئی اور چند روز قبل صبح صبح کسی نے گھر کے باہر سے چوری کر لی۔
چوری کے وقت نہ تو میری ملک خرم کھر سے شناسائی تھی اور نہ ہی تعارف۔میں نے واٹس ایپ پہ اطلاع کا میسج کیا۔ان کی فوری کال آئی بائیک کی ڈییٹیل و پیپرز منگوائے پولیس پارٹی بھیجی اور اگلے اک گھنٹے کے اندر اندر چوری کی ایف آئی آر درج ہو چکی تھی۔

پھر اک اور الزام یہ لگتا ہے کہ بائیک کی قیمت سے کہیں کم مالیت لکھی جاتی ہے۔ماڈل کے حساب سے میری بائیک کی قیمت بیس ہزار ہو گی لیکن میں نے موڈیفائی کرا کے جس کنڈیشن میں رکھی ہوئی تھی اس کے چند پولیس اہلکار گواہ تھے پھر تصاویر بھی موجود تھیں تو محرر فیصل نے اس کی مالیت 40 ہزار تک ہی لکھی۔
یہ میرے لیے خوشگوار تجربات تھے کہ جتنا نقصان ہوا لگ بھگ اتنا ہی لکھا گیا اور ایف آئی آر کے اندراج کے لیے میرا ایک روپیہ خرچ نہیں ہوا۔
ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کہیں جا کر میں نے ملک خرم کھر کو باقاعدہ تعارف کرایا ان سے جا کر پہلی ملاقات کی۔شاندار شخصیت کے مالک متحرک نوجوان ملک خرم کھر بہادر افسر ہے ان کی شخصیت ڈپٹی ڈائریکٹر وفاقی محتسب ہمارے یار غار محمود مہے سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔انہی کی طرح با اخلاق انہی کی طرح شکل و صورت انہی کی طرح بذلہ سنج اور انہی کی طرح انتہائی پروفیشنل۔دونوں افسران میں اک اور مشابہت یہ بھی ہے کہ عام عوام اپنے مسائیل لے کر ڈائریکٹ ان کے پاس جاتی ہے اور مطمئن ہو کر لوٹتی ہے۔

ملک خرم کھر ایسے بہادر انسان پولیس ہی کیا عام زندگی میں بھی کم کم دیکھے ہیں۔ایسے متحرک نوجوان پولیس والوں کو اکثر سیاسی سماجی یا افسرانہ انا کا شکار بنا دیا جاتا ہے سچی بات یہ ہے کہ میں ملک خرم کھر سے مل کر جتنا خوش ہوا ہوں اتنا ہی تشویش میں مبتلا ہوں کہ ہم اپنی ازلی نااہلی کی وجہ سے کہیں اس ہیرے کی قدر کم نہ  کر  بیٹھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : میری بائیک تاحال ریکور نہیں ہوئی ہے لیکن چند ٹریس مل چکے ہیں امید ہے اگلے چند دنوں میں میری بائیک میرے پاس ہو گی اور ایمل بلوچ صبح صبح پھر سے بائیک پہ بیٹھ کر قلقاریاں مارتے ہوئے ناشتہ لینے جایا کرے گی۔

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply