• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسلام آباد کےلاکھوں بچوں کا مستقبل داؤ پرلگ گیا۔۔عرفان اعوان

اسلام آباد کےلاکھوں بچوں کا مستقبل داؤ پرلگ گیا۔۔عرفان اعوان

کرونا نے سکولز کالجز کے بچوں کی تعلیم کوشدید متاثر کیا ہے اور اسلام آباد میں رہی سہی کسر اب صدر پاکستان کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021نے نکال دی ہے۔پچھلے ایک ہفتے سے390سرکاری سکولز کو تالے لگے ہوئے ہیں اور لگ بھگ دولاکھ سٹوڈنٹس گھروں میں بیٹھے ہیں۔نومبر کے آخری ہفتے میں تمام سکولز میں مڈٹرم امتحانات شروع ہوتے ہیں ،30نومبر کو والدین اپنے بچوں کو سکول چھوڑ کر آتے ہیں لیکن دس بجے کے قریب پیغام ملتا ہے کہ اپنے بچوں کو لے جائیں سکول میں چھٹیاں ہوگئی ہیں۔ والدین پریشان ہوجاتے ہیں کہ خدانخواستہ کوئی مسئلہ بن گیا ہے یا دوبارہ سے کرونا آگیا ہے لیکن پتہ چلتا ہے کہ بلدیات بلدیات کھیلتی حکومت کو ایک نیا جذبہ جاگا ہے اور آرڈیننس کے ذریعے 33خواص کے سکولز کو چھوڑ کر 390عوام کے سکولز کو مئیر اسلام آباد کے زیرِانتظام کردیا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کا نظام لوکل گورنمنٹ کے زیرانتظام ہے اور بہت کامیابی سے چل رہا ہے لیکن ہمارے ہاں تو بلدیات کو ہر حکومت نے سیاسی نظام میں اچھوت سمجھا ہے ،اس لئے یہاں راتوں رات آرڈیننس کے ذریعے لاکھوں بچوں کے مستقبل سے کھیلنا انتہائی خطرنا ک اور قابل تشویش ہے۔

اسلام آباد میں 423سرکاری سکولز و کالجزمیں سے 33کو بہت پہلے ہی اشرافیہ کیلئے الگ کرلیا گیا تھا جہاں بہت ہی شاندارسہولیات ہیں اور ان مخصوص ماڈل کالجز کا بجٹ فی کالج ایک سے ڈیڑھ کروڑسالانہ ہے۔انہیں ماڈل کالجز کا نام دیا گیا ہے اور یہاں نرسری سے سیکنڈ ائیر تک کلاسز لگتی ہیں۔دوسری طرف باقی 390سکولز غریب لوگوں کے بچوں کیلئے ہیں اور یہاں فی سکول سالانہ نان سیلری بجٹ تین سے ساڑھے تین لاکھ ہے جس سے پورا سال بجلی، واش رومز، سٹیشنری و دیگر اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں اور ہر سکول میں ایک ہزار سے پندرہ سو طالب علم پڑھ رہے ہیں۔

ایک ہی سسٹم میں دو الگ الگ نظام تو پہلے ہی چل رہے تھے اور اس پر 390سکولز کے ٹیچرز سراپا احتجاج رہے ہیں کہ تمام سکولز کو برابر فنڈز دئیے جائیں لیکن ایک جیسا نظام لانے کی بجائے اشرافیہ کے 33سکولز کوڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن سے نکال کر کالج آف ایجوکیشن کے انڈر کیا گیا اور بعد میں آرڈیننس لایا گیا جس کے تحت ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کو مئیر کے زیرانتظام کر دیا گیااور 390سکولز براہ راست مئیر کے نیچے چلے گئے جس کے بعد ان سکولز کے اساتذہ نے احتجاج کے طور پر سب سے پہلے سکولز بند کئے اور اس کے بعد پارلیمنٹ کے سامنے ایک روزہ دھرنا دیا جس میں ان سکولز کے لگ بھگ 15ہزار اساتذہ اور عملے نے شرکت کی۔

اساتذہ کا مطالبہ تھا کہ بڑے افسران اور سیاستدانوں کے بچے انہی سکولز میں پڑھتے ہیں جہاں بجٹ کروڑوں میں ہے اس لئے انہیں سازش کے تحت آرڈیننس لانے سے پہلے الگ کیا گیااور جو سکولز پہلے ہی پسماندگی کا شکار ہیں انہیں ایک ایسے مئیر یا بلدیاتی نظام کے زیرانتظام کردیا گیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور موجودہ حکومت پنجاب اور وفاق کے بلدیاتی سیٹ اپ سے پہلے دن سے ہی نالاں ہے اور آئے روز نئی قانون سازی اور آرڈیننس کے ذریعے چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے اور عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو گھر بھیجتی رہی ہے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ 390سکولز کے ٹیچرز کو اپنی تنخواہوں کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ انہیں منسٹری سے ملنی ہے وہ سراپا احتجاج صرف اس لئے ہیں کہ اگر سکولز لوکل گورنمنٹ کے زیرانتظام دینے ہی ہیں تو تمام 423سکولز کو دیا جائے تاکہ جہاں نصاب یکساں ہے، ضلعی حدود ایک جیسی ہے، ٹیچرز ایک جیسے ہیں وہاں مخصوص 33سکولز کو الگ رکھنا اشرافیہ کی سازش ہے جس کا یقیناً  عمران خان کو پتہ نہیں ہوگا ورنہ وہ ایک جگہ پرایک ہی منسٹری کے نیچے سرکاری سکولز کے دو الگ الگ نظام نہ چلنے دیتا۔

دوسرا اور اہم مطالبہ یہ ہے کہ تمام سکولز کے بجٹ کو ایک جیسا کیاجائے کیونکہ جہاں ایک سکول کا بجٹ ڈیڑھ کروڑ اور اس جیسے دوسرے سکول کا بجٹ تین لاکھ ہو تو وہاں کیسے ایک جیسی تعلیم و سہولیات دی جاسکتی ہیں۔

اسلام آباد کے سرکاری سکولز کی حالت پنجاب کے سکولز سے بہت بدتر ہے۔2009کے بعد آج تک نئی بھرتی نہیں کی گئی ہے جس سے 30فیصدکے لگ بھگ سیٹیں خالی ہیں۔سکولز کی عمارتوں کی حالت زار چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ کوئی ان پر توجہ دے۔دنیا کو جو چہرہ دکھایاجاتا ہے کہ طارق فضل چوہدری اسلام آباد کے سرکاری سکول سے پڑھا  ہے وہ انہی چند مخصوص سکولز میں سے کسی ایک سے پڑھا ہے جبکہ باقی 390سکولز کی حالت قابل رحم ہے۔ان سکولز سے تو پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع راجن پور اور لودہراں کے سکولز کہیں اچھی حالت میں ہیں۔آج تک اسلام آباد کے سکولز میں پلے گروپ کے بچوں کیلئے سپیشل کمرے اور سامان نہیں ہے۔پورا پاکستان یہی دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اسلام آباد سہولیات کا گڑھ ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج تک کسی کو خیال نہیں آیا کہ 390سکولز کے دو لاکھ بچوں کا کیا قصور ہے جنہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔حکومت نت نئے آرڈیننس اور خیالی پلاؤ ترکیبوں کی بجائے سازش کے تحت الگ کئے گئے 33سکولز کو باقی 390سکولز کے ساتھ ایک ہی ترازو میں رکھے اور اگر مئیر اسلام آباد کے حوالے کرنے ہی ہیں تو تمام سکولز کریں تاکہ کارکردگی بھی ایک جیسی ہوسکے اور فنڈز کی تقسیم بھی ایک جیسی ہو۔ شفقت محمود اور اسد عمر جیسے سینئر وزراء ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور پچھلے ایک ہفتے سے بند سکولز کو کھلوانے کیلئے کردار ادا کریں۔

Facebook Comments

عرفان اعوان
گھٹن زدہ معاشرے میں جینے کی تمنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply