خاندانی نظام اور دور جدید کے رجحانات(1)۔۔عمار خان ناصر

(حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر اس موضوع کے بعض اہم پہلووں سے متعلق کچھ  معروضات پیش کی گئیں جنھیں ایک مناسب ترتیب سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔)

قیامت کے قریب رونما ہونے والے مظاہر کا ذکر متعدد احادیث میں کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث میں، جسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے،  ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ أمورکم الی نساءکم، یعنی تمھارے معاملات تمھاری خواتین کے سپرد ہو جائیں گے۔ مولانا وحید الدین خانؒ نے  اس پیشین گوئی کو  فیمنزم یا صنفی مساوات کے اس ظاہرے پر منطبق   کیا ہے جو دور جدید   میں نمایاں ہوا ہے۔  اس حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ  فیمنزم کے ظاہرے کا ذکر اس حدیث میں کس پہلو سے ہوا ہے؟ کیونکہ احادیث میں قرب قیامت کی علامات کا ذکر عموما منفی رنگ میں ہوا ہے، یعنی ان کو معاشرت اور رویوں میں اختلال کے پہلو سے بیان کیا گیا ہے۔

ہمارے خیال میں اس حدیث کا انطباق فیمنزم کے ظہور پر کرنا ذرا غور طلب بات ہے۔ اس مضمون کی دیگر احادیث سے جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ مرد، جن کے ذمے زیادہ تر معاملات کی انجام دہی رہی ہے، اپنے فیصلوں میں غیر ضروری طور پر اپنی بیویوں کے زیر اثر ہوں، اس طرح کہ ذمہ داریوں کی متوازن ادائیگی میں خلل واقع ہونے لگے۔ یہاں بنیادی طور ہر اس مزاج کی بات نہیں ہو رہی جس کو ہمارے ہاں زن مریدی سے تعبیر کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے اخلاقی طور پر ذمہ داریوں کی ادائیگی پر پڑنے والے اثرات، یعنی ناانصافی اور جانبداری وغیرہ کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ سمجھنے کے لیے عہد نبوی کا ہی ایک واقعہ پیش نظر رکھا جا سکتا ہے جس میں ایک صحابی نے ایک اہلیہ کی خوشنودی کے لیے صرف اس بچے کو باغ تحفے میں دینے کا ارادہ کر لیا جس کو وہ دلوانا چاہتی تھی، اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ فرمانا پڑی۔

یہ پہلو اگر خانگی معاملات سے آگے بڑھ کر عمومی معاشرت میں بھی ظاہر ہونے لگے تو وہ بھی اسی کا مصداق ہوگا۔ اس لحاظ سے فیمنزم کے وہ بیانیے جو ردعمل میں پوری انسانی معاشرت کو اب سر کے بل کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں، یقینا اس حدیث کے تحت آتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ ” أمورکم الی نساءکم” (اگر اس سے واقعتا فیمنزم کے ظاہرے کی نشاندہی مقصود ہے) بھی یہی بتاتے ہیں کہ معاملات کلیتا نسوانی نقطہ نگاہ سے طے کیے جانے لگیں گے اور یوں معاشرت کے فساد پر منتج ہوں گے۔ الفاظ میں اس کی طرف کوئی اشارہ دکھائی نہیں دیتا کہ خواتین کا امور معاشرت میں زیادہ فعال شرکت کرنا یا اپنے حقوق اور مقام سے متعلق زیادہ باشعور ہو جانا بھی کوئی منفی چیز ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کو ایک مخصوص تاریخی ظاہرے پر سو فیصد منطبق کرنے کے بجائے اس اخلاقی پہلو کو ملحوظ رکھنا چاہیے جس کے پیش نظر امورکم الی نساءکم کو قرب قیامت یعنی اخلاقی ودینی فساد کی ایک علامت شمار کیا گیا ہے۔

سوالات

(مذکورہ معروضات پر کچھ اہم سوالات سامنے آئے جو ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں)

وقاص خان: فیمنزم کے معاملے میں ‘انسانی معاشرے کو سر کے بل کھڑا کرنے’ کی تعبیر سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ کے ہاں پدر سری سماج دراصل ‘سماج کا درست زاویہ’ ہے اور نسوانیت جب اسے نشانہ تنقید بنائے تو یہ درست کو نادرست کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟

جواب: خاندان فطری طور پر ایک پدرسری ادارہ ہے۔ اس کی قلب ماہیت نہیں ہو سکتی۔ اس کی ریفلیکشن عمومی معاشرت میں بھی ہونا ناگزیر ہے، لیکن اس کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

وقاص خان: لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خاندان کی قدیم صورت تبدیل ہونا ممکن ہو گیا ہے۔ خواتین بچے کی خواہش میں اپنا جسم ہی استعمال کریں، یہ ضروری نہیں رہا۔ اگرچہ یہ پراسس نسبتا سست رفتار ہے، مگر اس کے اثرات میں خاندان کا فطری طور پر پدر سری ہونا شاید حتمی پوزیشن نہیں۔ اس کے ساتھ خاندان کا ایک ہی مفہوم کہ اس کے ذریعے سے نسل آگے بڑھے، اب واحد یا سب کے لیے ہمیشہ سے مرغوب ترین انتخاب بھی نہیں رہا۔ یہ دونوں آپشنز اور ان کے ساتھ خواتین میں پروفیشنلزم کی مقبول شکل کے ہوتے ہوئے آپ کے بنیادی مقدمے کی غیر مذہبی حیثیت کیا رہے گی؟

جواب: فطری کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی کسی دخل اندازی کے بغیر کوئی چیز کیسی ہے۔ اس مفہوم میں خاندان فطری طور پر ہی پدرسری ہے۔ انسان فطرت میں مداخلت کر کے صنفوں کی نئی خصوصیات متعین کر لے تو یہ فطری تو نہیں ہوگا۔ اس کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کرنے کی کوئی نیوٹرل اساس نہیں جس کو معیار مانا جائے۔ اہل مذہب اپنی اساسات پر فیصلہ کریں گے، دوسرے لوگ اپنی اساسات پر کر سکتے ہیں۔

سنیہ ڈار: خاندان کا ادارہ اپنی فطرت میں ہے ہی پدر سری ، یعنی خاندان کا ادارہ معاشرے میں قائم رکھنے کے لیے پدر سریت نا گزیر ہے اور فطری ہے؟ یعنی مذہب پدر سریت کو جواز دیتا ہے بلکہ خاندان کا ادارہ بنانے کے لیے اسے ایک لازمی جزو کے طور پر مانتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو یہاں آپ ایک انتہا کو تو دین کی أساس پر فطری ٹھہراتے ہیں جبکہ دوسری انتہا کو معاشرت کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

جواب: آپ کے سوال سے پدرسری کا جو مفہوم سامنے آ رہا ہے، وہ اس کا صحیح مفہوم نہیں۔ پدرسری کا مطلب یہ ہے کہ مرد اولاد حاصل کرنے کے لیے عورت کو اپنے نکاح میں لیتا ہے اور کنبے کے سربراہ کے طور پر اس کی کفالت وحفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس میں “ایک انتہا” کون سی ہے جس کو فیمنزم کی دوسری انتہا کے مقابلے میں رکھا جائے؟ ہاں مرد کے اختیار اور حاکمیت میں عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے جیسے خواتین کی جانب فیمنزم کی بعض صورتوں میں ہوتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کا تقابل کرنا چاہیے۔ پدرسری فی نفسہ کوئی انتہا نہیں ہے، ایک فطری نظام ہے۔

سنیہ ڈار: اس فطری پدر سری نظام میں توازن برقرار رکھنے کے لیے مذہب کے مطابق مرد کے اختیار اور حاکمیت کی حد کیا ہے ؟
جواب: رشتہ نکاح میں زوجین کے حقوق وفرائض شریعت میں بہت وضاحت سے بیان ہوئے ہیں۔ ان کی تفصیل تو وہاں دیکھنی چاہیے۔ البتہ اگر مراد اختیار کا سوء استعمال اور اس کا سدباب ہے تو یہ انتظامی مسئلہ ہے۔ اس میں قرآن نے خاندان کے بااثر افراد کو کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرتی سطح پر تعلیم وتربیت اور سماجی دباؤ کے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور ریاست بھی اس ضمن میں مددگار پالیسیاں بنانے اور قانونی  اقدامات کی ذمہ دار ہے۔

سنیہ ڈار: آخری سوال یہ ہے کہ کیا مذہب کے مطابق اس فطری پدر سری نظام میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے؟ یعنی مذہب کے مطابق یہ نظام ہمیشہ ہر دور میں ایسا ہی رہے گا تو ہی خاندان کا ادارہ برقرار رہے گا اور کسی اور صورت میں اس کی بقا اور نشوونما ہر گز ممکن نہیں ہے؟ ہر دوسری صورت یا تبدیلی انارکی پر منتج ہو گی چنانچہ اسے ہمیشہ ایسے ہی اسی فارم میں قائم رہنا چاہیے؟  مذہب کے مطابق اس حوالے سے کس حد تک لچک کی گنجائش ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں؟

جواب:  جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کے ضمن میں  ایک بنیادی سوال کا جواب پہلے طے کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ کیا ہم سماجی زندگی کی تشکیل میں کچھ چیزوں کو ثوابت مانتے ہیں یا سب کچھ قابل تبدیل ہے؟ اگر ہر چیز قابل تبدیل ہے تو پھر خاندان کے ادارے کی ہیئت بھی قابل تبدیل ہے، بلکہ شاید خاندان کے ادارے کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر کچھ چیزیں ناقابل تبدیل ہیں تو حد فاصل قائم کرنے میں ہم بطور مسلمان شریعت کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟ اگر شریعت ثابت اور متغیر کی تعیین میں ماخذ ہے تو جواب اس کے مطابق ہوگا۔ اگر شریعت ماخذ نہیں ہے تو پھر ثوابت کو طے کرنے کے لیے کوئی اور معیارات وضع کرنے ہوں گے، اگر وہ ممکن ہوں۔

اس سیاق میں ہمارا موقف یہ ہے کہ شریعت ہمارے لیے خاندانی نظام کی تشکیل میں ماخذ ہے اور اس میں دیے گئے ثوابت کی پابندی ہم پر بطور مسلمان لازم ہے۔ بطور مسلمان کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کی دوسری تہذیبیں اس ضمن میں مختلف تجربات کر سکتی ہیں اور ان کا دنیا میں سیاسی عوامل سے عمومی شیوع بھی ہو سکتا ہے، لیکن مسلمان ان تجربات کو شریعت پر نہیں، بلکہ شریعت کو ان تجربات پر حکم مانیں گے۔

اس بنیادی نکتے کی روشنی میں، مختلف مجوزہ تبدیلیوں کا جائزہ لے کر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کون سی شرعی اصولوں کے لحاظ سے قبول کی جا سکتی ہے اور کون سی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply