نواز شریف کو کیوں نکالا ۔۔ اظہر سید

جن ملکوں میں فوج اقتدار کا ایک فریق ہو وہاں منتخب حکومتوں کو مذہب ،غداری یا کرپشن کسی بھی الزام میں فارغ کیا جا سکتا ہے۔غیر منتخب حکمران اکیلے نہیں ہوتے ایک ٹولہ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔مسلم ممالک میں ترکی ایک شاندار مثال ہے جہاں بیشتر جمہوری حکومتیں مذہب کے نام پر برطرف کی جاتی تھیں جنرل اقتدار میں آجاتے تھے ۔ مصر دوسری مثال ہے جہاں اخوان المسلمون کو مذہب کی بنیاد پر اقتدار سے فارغ کیا جاتا ہے اور جنرل اقتدار سنبھال لیتے ہیں ۔تیسری مثال پاکستان ہے جہاں منتخب جمہوری حکومتیں مذہب اور کرپشن کے نام پر برطرف یا فارغ کی جاتی ہیں دوسرے سہولت کار ریاستی اداروں عدلیہ اور میڈیا کی طرف سے براہ راست فوجی حکومت یا پالتو جمہوری حکومت کے قیام کو قانون اور آئین کے جواز فراہم کئے جاتے ہیں۔
ترکی والے ایک تدریجی سفر کے بعد سچی مچی کی جمہوریت کی طرف آچکے ہیں ۔مصر والے تاحال جمال عبدالناصر ،انوار السادات اور حسنی مبارک کے بعد جنرل سسی کے موجودہ دور میں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔
پاکستان والے جنرل ایوب ،جنرل یحیی،جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے بعد اب عمران خان نامی پالتو حکومت کے دور میں زندہ ہیں ۔
جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کا درس دینے والے مغربی ممالک غیر جمہوری حکومتوں کو ہمیشہ ناک کا بال بنا کر رکھتے ہیں چاہے وہ ترکی کے فوجی حکمران ہوں ،پاکستان کے فوجی صدر ہوں یا مصر کے جنرل سسی ہوں ۔عوام کی منتخب جمہوری حکومتیں مغربی جمہوریت کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں چاہے وہ پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو ہوں ،بینظیر یا نواز شریف ہوں ۔مصر کے منتخب صدر مرسی ہوں یا ترکی کے رجب اردگان ہوں ۔جمہوریت کا لبادے اوڑھے پالتو حکمران بھی قابل قبول ہوتے ہیں چاہے شوکت عزیز یوں چوہدری شجاعت حسین ہوں یا جنرل ضیا الحق کے بعد ایجنسیوں کا فخر بننے والے نواز شریف ہوں ۔پالتو جمہوری حکمران اسی وقت تک قابل قبول ہوتے ہیں جب تک وہ مقامی اور عالمی مافیا کے ساتھ مل کر چلتے ہیں ۔جس حکمران نے عوام کی سیاست کرنے کی کوشش کی مافیا کیلئے چیلینج بنا اسے نکال باہر کیا جاتا ہے چاہے وہ بھٹو ہوں نواز شریف ہوں یا پھر جونیجو ۔
پاکستان میں کسی جمہوری اور منتخب حکومت کو اتنا مستحکم نہیں ہونا دیا جاتا وہ فوجی جنتا کیلئے خطرہ کا باعث بن سکے اور خطرہ کے اسباب پیدا ہونے سے پہلے میڈیا ،مذہب اور کرپشن کے ہتھیاروں سے سر قلم کر دیا جاتا ہے ۔
بھٹو سے میاں نواز شریف تک کے سفر میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے ۔اب جب کوئی جج فراڈ کرتا ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے “پناما فیصلے نے قانون کی حکمرانی قائم کردی” یار لوگ بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے ،نظریہ ضرورت ایجاد کرنے والے ،منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کرنے والے اور جنرل مشرف کو آئیں میں ترمیم کا حق دینے والے ججوں کے اسی طرح کے بیانات سامنے لے آتے ہیں ۔لوگ ظالم ہیں وہ قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والے منافقین کی پی سی او کا حلف لینے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر جاری کر دیتے ہیں اور ججوں کی مکاری کو ایک زور دار تھپڑ رسید کرتے ہیں ۔
میاں نواز شریف کی فراغت کی بہت ساری تھوریاں ہیں ۔کچھ کہتے ہیں اصل جھگڑا امریکہ اور چین کا ہے اور اس کے پیچھے عالمی معیشت پر قابض یہودی لابی ہے جو سی پیک کے ذریعے چین کے مستقبل کے معاشی خطرات کو روکنے کی تگ و دو میں ہیں میاں برادران سی پیک کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرا رہے تھے جس طرح بھٹو کو ایٹمی طاقت بننے کی ضد کی وجہ سے عبرت کی مثال بنایا گیا اسی طرح نواز شریف کو سی پیک کا ڈول ڈالنے کی سزا دی گئی ۔
کچھ کا موقف ہے نواز شریف جنرل ایوب ،جنرل یحیی،جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی اس سوچ کی بھینٹ چڑھے ہیں جس میں خارجہ پالیسی کی ملکیت میں بیرونی مداخلت قبول نہیں کی جاتی نواز شریف تیسری مرتبہ کے وزیراعظم تھے اور خارجہ پالیسی کی ملکیت منتخب حکومت کے دائرہ اختیار میں کرنے کی جسارت کر رہے تھے ۔کچھ کا موقف ہے میاں نواز شریف پاکستان کو معاشی طور پر طاقتور کرنے کے ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہوئے تھے جو عالمی مافیا اور مقامی مافیا دونوں کیلئے ناقابل قبول تھا ۔مقامی مافیا ترکی کے ماڈل سے خوف زدہ تھا معاشی ترقی سے مداخلت کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا اور کوئی کوشش کی بھی گئی تو لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں گے ۔عالمی مافیا کو خدشات تھے پاکستان کی معاشی ترقی ترکی کی طرح پاکستان سے بھی محرومی کا باعث بنے گی ۔
منتخب حکمران چاہے مصر کے مرسی ہوں،ترکی کے اردگان ہوں وینزویلا کے شاویز ہوں یا پاکستان کے بھٹو اور نواز شریف ہوں وہ مغربی اسٹیبلشمنٹ کی بجائے مقامی مفادات کیلئے کام کرتے ہیں جو قابل قبول نہیں ہوتا ۔نواز شریف کی فراغت سے جمہوریت بظاہر کمزور ہوئی ہے لیکن “ووٹ کو عزت دو” کی ضد نے خارجہ پالیسی کے مالکان اور ان کے سہولت کار ججوں اور میڈیا کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے سب ادارے بری طرح ننگے اور بے نقاب ہی نہیں ہوئے اپنی ساکھ بھی کھو بیٹھے ہیں جو اس بات کی نشانیاں ہیں پاکستان میں بھی سچی مچی کی جمہوریت آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔
پاکستان میں اگر جمہوریت مستحکم ہوئی اس کا تمام تر کریڈٹ پالتو وزیراعظم کو جائے گا جس کے جھوٹ دھوکے فراڈ اور حماقتوں نے تمام اداروں کی ساکھ تباہ کر دی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply