دست نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر۔۔انجینئر عمران مسعود

دست نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا لی جائے
گزشتہ دنوں سیالکوٹ کے دلخراش واقعے نے جہاں بحیثیت قوم ہمارے سر جھکا دیے وہاں بطور معاشرہ بھی ہمارے رویوں کی عکاسی کر دی ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور ملوث افراد کو بغیر کسی رحم کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ پوری قوم نے جس طرح اس سانحے پر غم و غصے کا اظہار کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور وہ علما سے سوال کر رہی ہے کہ کیا عشق رسول ﷺ کا یہی تقاضا ہے۔؟

یہاں تھوڑا ماضی میں چلیے جب سیالکوٹ میں ہی دو بچوں کو تشدد سے قتل کیا گیا اور ان کی لاشوں کو جس طرح سڑکوں پر گھمایا گیا حالانکہ ان کا جرم گستاخی رسول ﷺ ہر گز نہیں تھا بلکہ چوری کا الزام تھا۔ اسی طرح ایک خبر آئی کہ کراچی میں ڈاکو کو جب عوام نے پکڑ لیا اور پھر تشدد سے اس جان گئی اور اس کی لاش کو سرعام جلایا گیا۔ ادارے خاموش تماشائی بنے رہے۔ گستاخ رسولﷺ وہ ڈاکو بھی نہیں تھا۔ اسی طرح کے ان گنت واقعات موجود ہیں جیسے ڈنمارک میں گستاخانہ خاکوں کے بعد ملک میں احتجاجی جلوس میں اپنے ہی لوگوں کی املاک نذر آتش کر دی گئی اوع اسلام آباد کے سیاسی دھرنوں میں بھی وہی رویہ نظر آیا ۔

یہ مختلف نوعیت کے واقعات ہیں لیکن رویہ تقریباً مماثل نظر آتا ہے۔ جس سے اپنی قوم کی نفسیاتی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم کتنے عدم برداشت کے حامل ہیں۔
جب بھی ملک کے اندر اس طرح کے واقعات ناموس رسالت ﷺ کے نام پر رونما ہوتے ہیں تو عموماً دو طرح کے رویے اپنی انتہا پر ملتے ہیں۔ دونوں جانب کے طبقات ایک دوسرے کے بارے انتہائی رویہ اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں مذہبی اور لبرل طبقات کی خلیج خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔
جس کے بھیانک نتائج ہماری آئندہ نسلوں کو بھگتنے پڑیں گے۔ عدم برداشت کا عالم تو یہ ہے کہ اب علما بھی ان معاملات میں محتاط گفتگو کرنے پر مجبور ہیں۔ حتی کہ ای ٹی وی چینل پر سکالرحسن الیاس صاحب نے لب کشائی کی کوشش کی تو ان کے جملے ہی حذف کردیے گئے۔

لہٰذا اس معاملے کو مخصوص مذہبی طبقات سے جوڑ کر ریاست قطعاً بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ ملک و قوم میں بڑھتی بے چینی اور عدم برداشت اس طرح کے سانحات کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ملک میں عدل و انصاف اور امن و امان کی صورتحال ان تمام واقعات بنیادی پیش خیمہ ہے جس کے آگے کبھی تو ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بھوکے شخص کو دلیل سمجھ نہیں آتی۔ اسی کے مصداق ان عوامل پر توجہ کی ضرورت ہے جو عدم برداشت کو مزید بڑھا رہی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ارکان بالا و سیاسی وابستگان بھی سیاسی انتہا پسندی کا شکار ہیں اور مخالفین پر طعن و تشنیع کے علاوہ کسی مثبت رویے کی جانب جاتے نظر نہیں آتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کا اعتماد بحال کیا جائے اور ایک شعوری مہم کے ذریعے اس عدم برداشت اور بے چینی کی فضا کو تحلیل کرنے کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔ جب تک امن وامان بحال نہیں ہوگا تب تک ایسے واقعات کا امکان موجود رہے گا۔ صرف ذمہ داری چند طبقات کے کھاتے ڈال کرآنکھ چرانا نا اہلی و بزدلی ہے لیکن عملی اقدامات کے نام پر مخصوص حضرات و طبقات کو نشانہ بنانا بھی ایک طرف اس آگ کو بھڑکانے کے مترادف ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تقاضا ہے کہ حکمت و دانش مندی سے اس رویے کا قلع قمع کرنے کی حکمت عملی ترتیب دیں۔ کیونکہ انتہا پسندی صرف مذہبی طبقات میں جنم نہیں لے رہی سیاسی میدان بھی اس زہر سے خالی نہیں۔ قبل اس کے کہ یہ آگ ہمارے گھروں میں داخل ہو اس پر جامع اور واضح حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

Facebook Comments

انجینئر عمران مسعود
میں پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینئر ہوں. تاریخ, مذہب اور ادب و فنون سے دلچسپی رکھتا ہوں. فارغ اوقات میں مصوری کا شغف ہے. بطور لکھاری تاریخ اور مذہب کو تنقیدی پیرائے میں دیکھنے اور لکھنے کو موضوع بناتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply