دل رو رہا ہے۔۔محمد اسد شاہ

دل رو رہا ہے۔۔محمد اسد شاہ/اللہ  کریم نے جہاں یہ آنکھیں دنیا دیکھنے کے لیے عطا فرمائی ہیں ، وہاں ان سے کبھی کبھی رونے کا کام بھی لیا جاتا ہے ۔ دنیاوی دکھوں پر بھی رویا جاتا ہے ، چھوٹی چھوٹی چوٹیں بھی آنکھوں کو رلانے کا کام کرتی ہیں ۔ بعض اوقات خوشی میں بھی آنکھیں رویا کرتی ہیں ۔ کوئی بچھڑ گیا تب بھی انسان کی آنکھوں کو رونا آیا ۔ کوئی بچھڑا مل جائے تب بھی آنکھیں روتی ہیں ۔ ہم جیسوں کی آنکھوں کا سب سے قیمتی رونا وہ ہے کہ کسی گناہ پر پچھتاوا ہو ۔ انسان جب گناہ کرنے سے اس لیے رک جائے کہ اسے اللّٰہ کریم کے سامنے کھڑے ہونے کے خیال سے ڈر لگ گیا ، تو اس کے لیے دو جنتوں کا وعدہ ہے ۔ قرآن عظیم الشان کہتا ہے؛
“و لمن خاف مقام ربہ جنتان” (الرحمٰن)
“اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا ، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔”

کوشش کیا کیجیے کہ کبھی کبھی روز حساب کا تصور دل میں آئے ، اللّٰہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونے کا خیال آئے ۔ گناہوں کی لذت دل سے نکل جائے گی اور آنکھیں نم ہو جائیں گی ۔ اگر اللّٰہ کے ڈر سے ایک قطرہ بھی آنکھ سے نکل آئے تو اپنی خوش بختی پر رب رحیم و کریم کا شکر ادا کیجیے ۔ وہ دینے والا ہے اور ہم سب اس سے مانگنے والے ۔ حقیقت یہی ہے کہ ایک اللّٰہ مددگار ہے ، اور باقی سب طلب گار ہیں ۔خوش نصیبی ہے ہماری ، کہ ہمیں شکر کرنے پر بھی اجر کا وعدہ ہے اور صبر کرنے پر بھی ۔ وعدہ بھی اس نے کر رکھا ہے جو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔ ایک اشک ، صرف ایک اشک ، اشک ندامت اتنا قیمتی ہو سکتا ہے ، ہم نہیں جانتے ۔ یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ ہمارے اس ایک اشک کو بھی اتنا قیمتی بنا دیتا ہے ۔ لیکن آج میں جس سانحے پر لکھ رہا ہوں اس پر آنکھیں نہیں ، دل رو رہا ہے ۔

معزز قارئین ! میرا کالم ہفتہ وار شائع ہوتا ہے ۔ سوموار کی اشاعت کے لیے میں “شاہ نامہ” کے عنوان سے اپنا کالم اتوار کے دن ایڈیٹر صاحب کو بھیج دیتا ہوں ۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہو سکا ۔ گزشتہ جمعہ کے دن پنجاب کے شہر سیال کوٹ میں ایک انسان کے ساتھ ایک ہجوم نے جو سلوک کیا ، اس پر حقیقتاً دل رو رہا ہے ۔ جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کے دن تو یہی سوچنے میں گزر گئے کہ کیا لکھا جائے، لکھا بھی جائے تو کیسے؟ سچ بولنا اور لکھنا بہت مشکل ہے ۔ پاکستانی میڈیا میں یہ بات مشہور ہے کہ یہاں صرف دس فی صد سچ کی اجازت ہے ۔ لیکن ڈرتے ڈرتے فیصلہ کیا کہ تاخیر سے ہی سہی، لیکن لکھنا ضروری ہے ۔ ایک فیکٹری میں منیجر کی حیثیت سے کام کرنے والے ، سری لنکا سے آئے ہوئے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کے ساتھ جو سلوک ہمارے پاکستانی ہجوم نے کیا ، وہ کتنا اذیت ناک ، شرم ناک ، کرب ناک ، اندوہ ناک اور وحشت ناک تھا ۔  میرے پاس اس کے لیے مناسب الفاظ نہیں ہیں ۔ الفاظ ہوں بھی تو وہ کیا کر لیں گے ۔ اس سانحے کے لیے کون سی اصطلاح استعمال کی جائے ، میں نہیں جانتا ۔ ملک اور دنیا میں ہونے والے واقعات کی خبریں صحافیوں ، ٹی وی/نیوز اینکرز ، کالم نگاروں تک عام لوگوں کی نسبت بہت جلد پہنچ جاتی ہیں ۔ جمعہ کے دن اس سانحے کی خبریں ہمارے واٹس ایپ گروپس میں فوراً گردش کرنے لگیں ۔ پھر اس کی وڈیوز بھی شیئر ہونے لگیں ۔ احباب اپنے صدمے اور کرب کا اظہار کرنے لگے ۔ میں نے تمام وڈیوز نہیں دیکھیں ۔ لیکن جو چند ایک کلپس دیکھے ، وہ انتہائی اذیت ناک تھے ۔ اس سے پہلے اسی سیال کوٹ میں دو لڑکوں کے ساتھ بھی تقریباً اسی طرح کا سلوک ہوا تھا ۔ چھ سال پہلے لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں بھی دو بے گناہ مزدوروں کو ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے ایسے ہی خوف ناک اجتماعی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جلا ڈالا تھا ۔ بھارت میں ہندو اکثریت کے ہاتھوں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں کہ کسی مسلمان یا عیسائی کو سرعام تشدد کے بعد جلا ڈالا جاتا ہے ۔ حالیہ سانحہِ سیال کوٹ نے ان زخموں کو پھر سے کرید ڈالا ہے ۔ ہم تو پوری دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا دین ہمیں سلامتی و محبت کا درس دیتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ہم خود اس درس کو بھلا بیٹھے ۔ جنگلوں کے درندے بھی ایسے خون خوار نہیں ہو سکتے جیسے ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں ۔ درندگی کا لفظ ایسے ظلم کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا ۔ درندے صرف اپنے دفاع کے لیے حملہ کرتے ہیں یا بھوک مٹانے کے لیے ۔ درندوں کے ہاں دوسروں کو اذیت دے کر لطف اٹھانے کا تصور نہیں پایا جاتا ۔ یہ تصور صرف ہمارے خطے میں پایا جاتا ہے ، اور اس مخلوق میں پایا جاتا ہے جسے انسان کہلانے کا شوق بھی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نبی آخر الزماں سیدنا محمدﷺ  کی شان اقدس میں گستاخی یقیناً ناقابلِ معافی جرم ہے ۔ لیکن کیا سیال کوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں لکڑیاں ، اینٹیں اور پتھر کھا کر تڑپ تڑپ کر مرنے اور جل کر راکھ ہونے والے بدنصیب شخص نے یہ جرم کیا تھا ؟ اس شخص پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے ہجوم میں سے کتنے لوگوں نے ایسا جرم ہوتے دیکھا؟ حکومت کی تحقیقات میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مرنے والا ایک فرض شناس اور محنتی افسر تھا جو نکمے اور کام چور ملازمین کو ان کے فرائض کی بجا آوری کے لیے کہتا تھا ۔ اگر اس سے جانتے بوجھتے یا انجانے میں کوئی خطا سرزد ہوئی تھی تو اسے عدالت کے حوالے کیا جا سکتا تھا ۔ اسلامی شرعی عدالت بھی موجود ہے ۔ لیکن یہ کیا کہ ایک ہجوم بغیر کسی تصدیق کے ، اس پر پل پڑے؟ قرآن مجید میں تو خبر کی تصدیق/تحقیق کرنے کا حکم بھی موجود ہے ۔ سو فی صد یقین اور ایمان کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رحمت اللعالمین خاتم النبیین امام الانبیاء سید المرسلین سیدنا محمدﷺ نے ہمیں ظلم و بربریت سے منع فرمایا ہے ۔ آپ تو جہاد پر جانے والے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی مقدس جماعت کو بھی حکم دیا کرتے تھے کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے اسے قتل مت کرنا ۔ آپ نے تو درختوں ، فصلوں ، عمارتوں اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچانے سے منع فرمایا ہے ۔ آپ نے تو دشمن کے بچوں ، بوڑھوں ،عورتوں اور نہتے مردوں پر بھی ہتھیار اٹھانے سے منع فرمایا ہے ۔ کیا ہجوم میں شامل افراد کو نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ان احکام کا علم تھا؟ کیا ان لوگوں میں سے کوئی پابند صوم و صلوٰۃ بھی تھا ؟ ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو تعلیم یافتہ بنائیں ، لوگوں تک نبی اکرمﷺ  کے دین کی صحیح تعلیمات پہنچائیں ، اپنی نسلوں کو دیانت داری اور بردباری سکھائیں ۔ علمائے کرام اور اساتذہ سمیت معاشرے کے تمام موثر طبقات کو اپنی ذمہ داری کا فوری احساس کرنا ہو گا ۔ تاخیر تو پہلے ہی بہت ہو چکی ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply