• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خادم حسین رضوی بنام اوریا مقبول جان ۔۔سعید چیمہ

خادم حسین رضوی بنام اوریا مقبول جان ۔۔سعید چیمہ

شہید کالونی، محلہ عاشقاں، غازی روڈ

پیارے  اوریا مقبول جان

السلام علیکم

امید کرتا ہوں کہ مزاج بخیریت ہوں گے اور آپ کے قلم کی کاٹ تیز تر ہو گی۔ عالم ِ بالا میں عاشقانِ رسولﷺ خوشیاں منا رہے ہیں۔ وجہ تو آپ کو معلوم ہو گی کہ سیالکوٹ میں کچھ عاشقان نے جان و مال کی پروا ہ کیے بِنا ایک سری لنکن گستاخ کو پہلے تو قتل کیا اور پھر جلا دیا۔ یہ خبر سنتے ہی میں سجدے میں گر کر شکر بجا لایا کہ میں جو پیڑ لگا کر آیا تھا، وہ اب پھل دینے لگا ہے۔ اس خبر کے بعد میں نے ممتاز قادری کو حکم دیا کہ جاؤ کسی گوشے سے لال برفی تلاش کرو تا کہ سب عاشقان کا منہ میٹھا کروایا جا سکے کہ موقع آخر خوشی کا ہے۔ اوریا صاحب بات یہ ہے کہ عالمِ بالا آنے کے بعد میں آپ سے رابطہ نہ کر سکا، وجہ یہ تھی کہ رابطہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ آج جب عالمِ زیریں میں کسی سے رابطہ کرنے کو جی چاہا تو فوراً ذہن  میں  آپ کا نام لپکا۔

میرے عالمِ بالا آنے سے پہلے تمام عاشقانِ رسول الگ الگ رہتے تھے۔ میں جب آیا تو اس صورت ِ حال نے  کچھ پریشان کر دیا۔ کچھ دنوں کی سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب الگ کالونی بنائی جائے گی، جس میں صرف عاشقین کو رہائش فراہم کی جائے گی۔ کچھ مہینوں کے بعد یہ کالونی تیار ہو گئی اور عاشقین جوک در جوک آ کر اس کالونی میں رہائش اختیار کرنے لگے، جن میں علامہ محمد اقبال، غازی علم الدین، امام ابن تیمیہ، اور مولانا ادریس کاندہلوی ایسے لوگ بھی شامل ہیں۔ اوریا صاحب ہو سکتا ہے کہ امام ابنِ تیمیہ اور مولانا کاندہلوی کے اس کالونی میں رہائش اختیار کرنے پر آپ کو یا میرے کچھ ہم مسلکوں کو اعتراض ہو، لیکن میں اعتراضات ابھرنے سے پہلے ہی  وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ  ان شخصیات کو اس کالونی میں جگہ کیوں ملی۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ امام ابنِ تیمیہ سلفی جب کہ مولانا کاندہلوی دیوبند سے فارغ التحصیل تھے ، لیکن یہ دونوں حضرات گستاخ رسول کو واجب القتل سمجھتے تھے، اور جو کوئی بھی ایسا سمجھے، ہمارے نزدیک وہ عاشقِ رسول ہے۔

کالونی میں جب تمام عاشقین اکٹھا ہو گئے تو ممتاز قادری نے تجویز دی کہ عاشقانِ رسول کی ایک مجلسِ شوریٰ قائم کی جائے اور اس مجلس کا ایک صدر بھی منتخب کیا جائے جو تمام فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔ اوریاصاحب مجھے یہ بتاتے ہوئے نہایت مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ اس مجلس نے متفقہ طور پر اس خاکسار کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔ وقتاً فوقتاً اس مجلس کے اجلاس ہوتے تھے، لیکن کوئی ایسی صورت حال کبھی پیش نہ آئی کہ رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آج بھی آپ سے فقط اس لیے رابطہ کر رہا ہوں کہ آپ کو کچھ مشورے دینے ہیں۔

سب سے پہلے تو میں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہوں گا کہ ہم نے فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں (عاشقانِ رسول) کا انٹرویو دیکھا ہے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ سری لنکن مینجر نے دیوار پر لگے ہوئے وہ پوسٹر پھاڑ کر ڈبے میں  پھینک دیئے جن پر درود شریف پڑھنے کی تلقین کی گئی تھی اور جن پر امام حسین کا نام بھی لکھا تھا۔ سب سے  پہلے تو آپ نے یہ کرنا ہے کہ اپنے یوٹیوب چینل، ٹی وی پروگرام، اور کالم میں اس ویڈیوکلپ کو جعلی ثابت کرنا ہے، اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو یہ کہہ دیں کہ اس ویڈیو کلپ کی جعلی ڈبنگ کی گئی ہے۔ پیارے اوریا یہ ممکن ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ میں آپ کو ایسا کرنے کو کیوں کہہ رہا ہوں؟

بات یہ ہے کہ وہ پوسٹر اردو میں تھے اور ممکن ہے کہ وہ مینجر اردو نہ جانتا ہو۔ اگر اردو جانتا بھی ہوتا تو اسے یقینی طور پر اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ کوئی مقدس اوراق ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ دوسرے ممالک کی فیکٹریوں میں اس طرح سے پوسٹر نہیں لگائے جاتے، شاید اس مینجر نے اسی سوچ کے تخت پوسٹر اتارے ہوں گے۔ اور وہ امام حسین کے نام سے بھی کوئی شناسائی نہیں رکھتا ہو گا کیوں کہ وہ تو غیر مسلم تھا۔ اس وجہ سے اس کیس میں توہینِ رسالت کا مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اب یہ ذمہ داری آپ پر ہے کہ آپ نے اس مقدمے کو کمزور نہیں ہونے دینا۔ کیوں کہ اگر مقدمہ کمزور پڑ گیا تو تمام عاشقین کی سبکی ہو گی۔ بائیں بازو والے آپ پر بہت تنقید کریں گے کہ اس واقعے کے خلاف کچھ لکھو، لیکن آپ نے ایسوں کی طرف توجہ بالکل مبذول نہیں کرنی۔ بخاری کی حدیث ہے کہ آگ سے جلا کر عذاب دینے کا اختیار صرف اللہ کو ہے اور انسان دوسرے انسان کو آگ نہیں لگا سکتا، حتیٰ کہ رسالت مآبﷺ نے چیونٹیوں کو بھی جلانے سے منع فرمایا ہے۔ کوشش کریں کہ یہ احادیث لوگوں کو پتہ نہ چلیں۔

دوسرا کام اوریا صاحب آپ نے یہ کرنا ہے کہ پہلے سے زیادہ شد و مد کے ساتھ اب آپ کو اس بات کا پرچار کرنا ہو گا کہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے۔ گستاخ کی سزا موت جس حدیث میں بیان ہوئی ہے وہ طبرانی کی معجم الکبیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس بات کو آپ نے بالکل بھی بیان نہیں کرنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ یہ حدیث صرف طبرانی نے نقل کی ہے۔ احادیث کی پہلے درجے کی کتب جیسا کہ موطا امام مالک، صحیفہ ہمام بن منبع، صحیح بخاری و مسلم میں یہ حدیث سرے سے موجود نہیں۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ طبرانی کو یہ حدیث تین سو سال بعد کیسے مل گئی۔ اور اس حدیث کا ایک راوی عبید اللہ بن محمد ہے، جس کے بارے میں امام نسائی کا قول ہے کہ یہ رسالت مآبﷺ کی نسبت سے جھوٹی حدیثیں بیان کرتا تھا۔ یہ سارے نکات آپ نے کسی اور کو نہیں بتانے، اور کوشش کریں کہ ان نکات سے تہی نظر کرتے ہوئے صرف اس بات  پر زور دیں کہ گستاخِ  رسول کی سزا موت ہے۔

آخر میں یہ بتانا ہے کہ کل رات مجلسِ شوریٰ نے ایک میٹنگ منعقد کی تھی جس میں علامہ اقبال اور ابنِ تیمیہ بھی شریک تھے۔ لیکن اس میٹنگ کو ایک شرپسند نے برباد کرنے کی کوشش کی۔ اس شرپسند کا نام وحیدالدین خان جو اپریل میں ہی عالمِ بالا پہنچا ہے۔ پیارے اوریا تم خوب جانتے ہو کہ وحیدالدین نے اس بات کا عَلم بلند کیا تھا کہ گستاخِ رسول کی سزا موت نہیں ہے اور اپنے مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے اس نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا عنوان تھا، شتمِ رسول کا مسئلہ۔ کتاب اصل میں امام ابنِ تیمیہ کی کتاب کے رد میں لکھی گئی تھی، اس لیے یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور شاید اب بھی ہو۔ خدا جانے کہ اس وحیدالدین کو کیسے علم ہو گیا کہ آج میٹنگ منعقد ہونی ہے۔ میٹنگ کا آغاز ہوا ہی تھا کہ اس نے پہنچ کر بولنا شروع کر دیا۔

سب سے پہلے وحیدالدین نے امام ابنِ تیمیہ کو مخاطب کیا کہ امام صاحب آپ نے جن احادیث کی بنیاد پر گستاخ رسولِ کی سزا قتل مقرر کی ہے، ان احادیث سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ گستاخِ رسول کی سزا قتل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر امام صاحب آپ نے سیرت ابنِ ہشام سے روایت لیتے ہوئے لکھا تھا کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عبداللہ نے رسالت مآبﷺ سے اجازت مانگی تھی کہ ہمارے باپ آپ کے بارے میں نازیبا کلمات کہتے ہیں اس لیے ہم اپنے باپوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ گستاخِ رسول کی سزا موت ہے، در آں حالے کہ یہ دلیل نہیں دھاندلی تھی۔ اگر آپ پوری روایت نقل کرتے تو دوسرا رخ بھی واضح ہوتا کہ آپﷺ نے دونوں صحابہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے باپوں کو قتل کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیدنا ابوبکر کے والد بعد میں مسلمان ہو گئے۔

پیارے اوریا آپ تو جانتے ہو کہ دلائل کے معاملے میں یہ وحیدالدین مخالف کو بے بس کر دیتا ہے۔ پھر کہنے لگا کہ تم سب عاشقین مانتے ہو کہ حسان بن ثابت کو آپ نے ہدایت کی تھی کافروں کو میری طرف سے جواب دو جو میری ہجو میں شعر کہتے ہیں۔ اب اگر ہجو کی بنیاد پر بھی آپ نے قتل کا حکم نہیں دیا تو پھر تم لوگ قتل کیوں کرتے پھرتے ہو۔ امام ابنِ تیمیہ کی جان چھوٹی ہی تھی کہ اس کی نظر علامہ اقبال پر پڑ گئی۔ بس پھر کیا تھا، علامہ کی شامت آ گئی۔ وحیدالدین کہنے لگا کہ علامہ صاحب علم الدین کے جنازے پر تو بہت کہتے تھے کہ ترکھانوں کا لڑکا ہم پر بازی لے گیا، یہ بتائیے کہ بازی لینے سے آپ کو کس نے روکا تھا؟ پیر مہر علی شاہ اور مولانا ثناءاللہ امرتسری کو کس نے روکا تھا؟ آپ لوگوں نے بازی کیوں نہ لی۔ بات یہ ہے کہ آپ لوگ تو دنیا کی نعمتوں کے مزے چکھنا چاہتے تھے اس لیے پیچھے رہے۔ اب بطور صدر میری برداشت ختم ہو گئی۔ میں نے فوراً سکیورٹی کو طلب کیا اور حکم دیا کہ اس ناہنجار کو کالونی سے باہر نکالا جائے اور پھر کبھی اس کو داخل نہ ہونے دیا جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب سب کے اعصاب بحال ہوئے تو میٹنگ کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی اور طے یہ پایا کہ آپ تک میں کچھ مشورے پہنچاؤں۔ امید ہے کہ آپ ان مشوروں پر عمل پیرا ہوکر شکریے کا موقع عطا کریں گے۔

والسلام

ایک سچا عاشقِ رسول

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ خط: یہ تحریر لکھتے وقت سہیل وڑائچ کے کالم سے رہ نمائی لی گئی ہے جس میں جنرل حمید گل نے بنام عمران خان ایک خط لکھا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply