مجھے میری محبوبہ سے بچاؤ۔۔احمد شہزاد

مجھے میری محبوبہ سے بچاؤ۔۔احمد شہزاد/  محبوبہ تو محبوبہ ہوتی ہے چاہے جیسی بھی ہو۔ کچھ ناز نخرے دکھاتی ہیں اور کچھ ناز نخرے اٹھاتی ہیں، پر ہمارے والی تو انوکھی اولڑی بلکہ وکھری ٹائپ کی ہے۔ کوئین بننے کا بڑا شوق ہے لیکن پکی ”سیاپا کوئین“ ہے یعنی محبوبہ کم ماسی مصیبتے زیادہ ہے۔ چلتی پھرتی آٹومیٹک رائفل ہے کسی بھی وقت ڈزز ڈزز ہو سکتا ہے، عجیب عجیب پٹھے پٹھے خیال اس کے ذہن میں ایسے آتے ہیں جیسے آج کل حکومتی وزراء کے بیانات۔ اس کی پٹھی پٹھی حرکتیں اور فرمائشیں پٹرول کی قیمت کی طرح روز بروز بڑھتی ہی جاتی ہیں۔ فلمی گانوں کی تو بے حد شوقین ہے۔ گانوں اور فلمی سین کی سچو یشن بنانا اس کا مشغلہ ہے۔

مہینے کے آخری دن تھے کہ صبح دس بجے انارکلی پہنچنے کو کہا، اپنے والٹ کو حسرت سے دیکھتے ہوئے بھاگم بھاگ انارکلی پہنچا۔ پوچھا کیا شاپنگ کرنی ہے کہنے لگی ”شاپنگ تو بالکل نہیں کرنی، یہ بتاؤ تم نے وہ سنا ہوا ہے“ توں کیہ جانے بھولیے مجے انارکلی دیاں شاناں ”کہا ہاں سنا ہے،“ بس تم میرے ساتھ گھوموں اور ہر پانچ سات منٹ کے بعد مجھے یہی ”بھولی مج“ کہتے رہو، مجھے تم سے بس یہی سننا ہے ”۔ کہا“ ایڈی توں بھولی مج ”۔ مال روڈ سے انارکلی کے آخری سِرے تک اسے“ بھولی مج ”کہتا رہا مجھے تو ایسا لگ رہا تھا اس“ بھولی مجھ ”کے پیچھے پیچھے میں بھی کوئی ڈنگر ہی ہوں۔

ظالم ہے بڑی نٹ کھٹ شرارتی سی، میں تو اسے مس مخولی کہتا ہوں۔ ایک دن فون آیا ”میری سہیلی کی طرف فوراً پہنچو“۔ جیسے ہی پہنچا حکم ہوا کہ اچھی طرح منہ ہاتھ دھو لو۔ میں خوش کہ آج فوٹو شوٹ ہونا ہے! پہلے تو کوئی لوشن میرے چہرے پر ملا پھر تبت کریم کے چار کوٹ چڑھائے، کہا اس سے تو بہتر تھا کہ فائزہ بیوٹی کریم لگا دیتیں کچھ رنگ تو گورا ہو جاتا۔ پھر جو دیکھا تو ہاتھ میں سرمہ دانی، اس پر کہا بہت ہو گیا سرمہ نہیں لگانا! کہنے لگی سرمے سے تل بنانا ہے۔ میں نے کہا پہلے ہی تمھارے دو تل قاتلانہ ہیں جسے دیکھ کر تلملاتا ہوں۔ کہنے لگی تم نے وہ گانا نہیں سنا ”تیرے مکھڑے تے کالا کالا تِل وے منڈیا سیالکوٹیا! کہا“ اوّل تو میں منڈا لہوریا ہوں اور تِل بھی نہیں ہے ”۔ شیر کی بچی نے تل بنا کر پورا گانا چار بار گایا اور مجھے مٹی کا مادھو بنائے رکھا۔ مجھے تو اس بات کا دھڑکا ہے کہ کسی دن وہ مشہور گانے“ مینوں دھرتی قلعی کرا دے میں نچاں ساری رات۔ ”کی سچو یشن بنا نے کا نہ کہہ دے۔

گزشتہ دنوں کچھ ناراض رہی کہ ٹک ٹاک پر مزاحیہ ویڈیو بنا کر بھیجوں کیونکہ اسے اپنی سہیلیوں کوفخریہ دکھانی ہے اسے اللہ کا واسطہ دیا نہ میں ٹک ٹاکر کی طرح اونگیاں بونگیاں مار سکتا اور نہ ہی کسی گانے پر لپ سنگنگ کر سکتا ہوں اور یہ کہ ابا جی کو پتہ چلا تو انہوں نے پرانی سزا بحال کر دینی یعنی پہلے تو کان پکڑوانے ہیں پھر اسی حالت میں مرغا بنے ہوئے دس بار ککڑوں کڑوں کہلوانا ہے اور گھر سے الگ نکال دینا ہے۔ آخر اس کی سہیلی کی سفارش سے جان چھوٹی۔

ایک روز عجیب مطالبہ کر دیا ”تم کہیں سے مجنوں دکھائی نہیں دیتے حالانکہ میں تمھاری لیلیٰ ہوں، کیا مجنوں ایسے ہوتے ہیں“ ؟ بس تم بال بڑھاؤ ایک مہینہ شیو نہ کرو، میلے کپڑے پہنو مجنوں کی طرح دکھائی دو تا کہ مجھے بھی پتہ چلے دیوانہ ایسا ہوتا ہے ”۔ میرا ہاسا نکل گیا، یعنی مجھے گلی کے لڑکوں سے پتھر مروانے اور لہولہان کرانا چاہتی ہو۔ اگر تمھارا دل گانا گانے کو چاہ رہا ہے تو تم ویسے ہی گنگنا لو“ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو ”۔

سخت سردی میں رات گئے اس کا قلفی کھانے کو دل چاہا اور کہا فوری لے کر آؤ۔ قلفیاں لیتے دیر ہو گئی پھر اس کے ہمسائے میں اپنے دوست کی مدد سے اس کی چھت پر پہنچا، انتظار شدید ہو گیا آدھا گھنٹہ ہاتھ میں قلفیاں پکڑے پکڑے میری اپنی قلفی جم گئی۔ اس کے فون پر بیل پہ بیل دیتا رہا۔ ایک طرف فون کی بیل بج رہی تھی اور دوسری طرف میرے دانت بج رہے تھے کڑاکے کی سردی میں کپکپاہٹ سے تھرکنے اور دانت بجنے کی آواز بلکہ ہلکے ہلکے ساز میں میرا تو دل کر رہا تھا کہ چھت پر دھمال ڈال کر پورے محلے کو جگا دوں۔ ظالم فون سائلنٹ پر کر کے سو گئی تھی۔

وہ میرے ساتھ فیس بک اور واٹس ایپ پر موجود ہے ،مجال ہے کسی لڑکی کو کوئی کمنٹ کر دوں یا لائک کر دوں، دل والا ایموجی دینا تو بہت دور کی بات ہے ،کسی کمنٹ پر اس کی نظر پڑ جائے تو مسئلہ پڑ جاتا ہے اور پھر اس لڑکی کی ٹرولنگ شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھار کسی دوسرے نمبر سے آواز بدل کر بات کرتی ہے اور دیکھتی ہے کہ میں کسی اور لڑکی سے سیریس تو نہیں ہو رہا۔

یونی ورسٹی میں کلاس لے رہا تھا کہ فون پہ فون کہ فوری ملنا ہے، اس پر اسے کہا ”تم کیمپس نہر والے پل پر آ جاؤ“ ، میں کلاس چھوڑ کر پہنچا، ملتے ہی کہنے لگی نہر کے پل پر بلا ہی لیا ہے تو بس اب تم جاؤ! میں منہ دوسری طرف کرتی ہوں، میں نے کہا ”ہیں یہ کیا“ ؟ کہتی بس اب گانے کو دل کر رہا ”ساہنوں نہر والے پل تے بلا کے تے خورے ماہی کتھے رہ گیا۔ میں نے کہا“ ایڈی توں فلمی ہیروئین ”آؤ نہر کے ساتھ ساتھ لمبی سیر پر چلتے ہیں۔

کہنے لگی موٹر سائیکل تیز چلاؤ جیسے موت کے کنویں میں چلاتے ہیں۔ کہا یہ روڈ ہے موت کا کنواں نہیں۔ پھر کہنے لگی“ ون ویلنگ کرو ”، کہا“ خدا کا خوف کرو، گھر واپس بھی جانا ہے ”، واپسی پر منہ ایسا پھیلایا تھا جیسے ٹائر میں زیادہ ہوا بھری ہو اور ہر پانچ منٹ کے بعد اس کی کہنی پسلی میں یوں لگتی تھی جیسے گھڑیال کا گھنٹہ ٹن کر کے بجتا ہے۔

عجیب عجیب فرمائشیں کرنا اپنا حق سمجھتی ہے ایک دن کہنے لگی اداکار شان پنجابی فلموں میں جس طرح کپڑے پہنتا ہے تم بھی پہن کر دکھاؤ۔ منع بھی کیا مگر وہ کہاں مانتی ہے، پھر ایک گجر فلم ایسا لمبا کرتا، رنگ برنگا لاچا (دھوتی) اور تلے والا کھسہ لاکر دیا اور کہنے لگی ”دوپہر میں ہماری گلی میں پہن کر آنا کیونکہ اس وقت گلی سنسان ہوتی ہے اور اوپر سے تمھیں دیکھوں گی“ ۔ گھر والوں سے چھپ کر ایک دوست کے گھر سے کپڑے بدل کر گلی میں آیا اس نے اوپر سے دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔۔۔۔خود کو شان سمجھتے ہوئے ابھی آدھی گلی تک پہنچا ہی تھا کہ ایک دم غرانے کی آواز آئی گلی کا کتا عجیب و غریب حلیہ دیکھ کر پیچھے لپکا میرا تراہ ہی نکل گیا۔ تھوڑا بھاگا تو کھسہ پاؤں سے اتر گیا اتنے میں لاچے کا ایک کونہ اس کے منہ میں تھا پھر تو پوری رفتار سے بھاگنا پڑا، سیدھا گھر آ کر دم لیا دیکھا تو لاچا اتر چکا تھا وہ تو خدا کا شکر کہ نیچے نیکر تھی۔

کبھی اس کا دل کرتا ہے کہ بچپن کی طرح اب بھی اس کے ساتھ پٹھو گول گرم، شٹاپو، چھپن چھپائی اور خاص طور پر کوکلا چھپاکی کھیلوں تا کہ جو شامت آئے تو میری ہی آئے۔ کبھی اس کے کرنے کو کچھ نہ ہو تو کتکتاریاں ہی کرنا شروع ہو جاتی ہے۔ بیٹھے بٹھائے مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ ایک دن امپورٹڈ سگریٹ لے آئی کہنے لگی ”مل کر سگریٹ پیتے ہیں اور شیشہ بھی مل کر پئیں گے”۔ کہا کیوں مجھے گھر سے ڈانٹ پڑوانی ہے؟ کہنے لگی“ مجھے سگریٹ پیتے مرد اچھے لگتے ہیں اور تم دھوئیں کے مرغولے مجھ پر اور میں تم پر پھینکتی ہوں اور تصاویر بناتے ہیں  ”۔ سگریٹ پی تو لیا پھر ایسا اُتھو لگا کہ چار دن تک کھوں کھوں ہی ہوتا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پہلے گانا سنا کرتے تھے کہ ”بچنا اے حسینو، لو میں آ گیا“ اب حسینوں سے بچنے کا دور ہے یعنی لو میں تو گیا! بس اب محبوبہ سے بچیں تو کیسے بچیں؟ آج کل آڈیو اور ویڈیو وائرل ہونے کا زمانہ ہے ،جانے کیا سے کیا لیک ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ کوئی چن چڑھے یا نواں کٹا کھلے ،بچ بچا کر لینا چاہیے۔ محبوبہ کی مان مان کر اب یہ کہنے پر مجبور ہیں
رُل تے گئے آں پر چَس بڑی آئی اے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply