معذور افراد اور ہمارے رویّے۔۔حنا سرور

معذور افراد اور ہمارے رویّے۔۔حنا سرور/معذوروں کا عالمی دن ،3 دسمبر پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی دن کے طورپر  منایا جاتا ہے اس میں تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں یورپی یونین اور تمام دنیا کے مبصرین شرکت کرتے ہیں   اور  پاکستان میں اس دن چند لاچار اور بے بس اسپیشل پرسن یعنی کہ  معذور لوگوں کو   جمع  کر کے ان کے نام پر مال اکٹھا کرکے ، اور ان کی بے بسی والی تصویریں پورا سال کیش کرتے رہتے ہیں اور اسی طرح حکمران بھی ان بے بس لوگوں کے لیے ایک بہت بڑے پیکج کا اعلان کرتے ہیں ۔ اور سارا سال  اسی کے چکر میں معذور لوگوں کو دفتروں میں ذلیل و خوار کرتے رہتے ہیں ،معذور افراد کے لیے  بسوں میں ویگنوں میں سوار ہونے  اور    اُترنے  کے لیے کوئی  سہولت نہیں۔کچھ دن پہلے حکومت کی جانب سے معذوری کا ایک اشتہار دیکھا جس میں معذوروں کے لیے جاب کی وہ شرائط رکھی گئیں   جیسے نارمل لوگوں کے لیے  چھاتی چوڑی ،سینہ چوڑ،ا قد لمبا،یہ تو حال ہے ہمارے حاکموں کا ۔۔مدد کے نام پر بھی لوگوں کا مذاق بناتے ہیں ۔

حکومت سے درخواست ہے کہ  اس دفعہ 3دسمبر کوان  لوگوں کو لولی پوپ نہ دیں ان کو باعزت روزگار دیں اور جو 1981 سے آج تک  جو قانون پاس ہوا ہے اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔   پاکستان کی آبادی کے لحاظسے  کوٹہ   تین فیصد   سے بڑھا کر پانچ فیصد کیا جائے۔

یہ تو قانون کی بات ہو گئی۔۔اب اس گھر کی بات کرتے ہیں جس گھر میں معذور بچے جنم لیتے ہیں اس گھر کے لوگوں کی سوچ بھی معذور ہو جاتی ہے اس معاشرے کی سوچ بھی معذور ہو جاتی ہےکیا ہمارے نصاب میں ابتدائی طور پر کوئی ایسا سبق شامل ہے، جس میں ایک عام انسان کو یہ سکھایا جائے کہ معذور افراد کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے ۔ رشتہ داروں اور جان پہچان کے افراد کے علاوہ اکثر والدین بھی بچوں کا مذاق بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔
کسی کا مذاق اڑانا : ( مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔)
اے ایمان والو! نہ مَردوں کی کوئی جماعت دوسرے مَردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔ (الحجرات 11:49)
اور ایک جگہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے ۔سرور عالم نے فرمایا،جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرے گا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوگی(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440 )۔

مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تکبر انہ سوچ   کارفرما  ہوتی ہے۔

میرا نام حنا ہے سب مجھے سوشل میڈیا پر چھوٹی چڑیا کے نام سے جانتے ہیں میں خود بھی سپیشل پرسن ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب  ہر گز نہیں کہ میں  جینا چھوڑدو ۔ہاں مجھے آگے پڑھنے میں سپورٹ نہیں کیا گیا مجھے کسی بھی چیز یا کام  میں مدد نہیں دی گئی۔ میں نے سوشل میڈیا جوائن کیا، اپنے اخلاق سے لوگوں میں اپنا نام بنایا ہزاروں فالورز فینز بنے، وہی ں کچھ دشمن بھی بنے، کبھی لڑائی  جھگڑے کے دوران میرے خلاف ٹویٹس بھی کی جاتی رہیں  ۔بہت سارے حاسدی لوگ بھی  ملے،  میں  نے ہمت نہیں ہاری ۔میں آج جو بھی ہوں خود اپنی ہمت سے اپنے بل بوتے پر ہوں ۔ الحمدللہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں میں اپنے گھر والوں پر یا کسی پر بوجھ نہیں ہوں۔

لکھاری:حنا سرور

ایک بات جن گھروں میں معذور بچے پیدا ہوتے ہیں خدا کے لیے اپنے بچوں کو لوگوں کے رحم و کرم پر مت چھوڑیں انھیں کبھی یہ نہ  کہیں کہ  تم  نارمل نہیں  ہو،  تمہاری  شادی نہیں  ہو سکتی،زندگی کےدوسرےمعاملات میں ناکام رہ جاؤ گے۔۔بلکہ اس کے برعکس اپنے بچے کو ہمت دیں ،زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیں ،قابل انسان بنائیں ایسا انسان کہ جو لوگ اسے اس کی معذوری کا طعنہ دیتے تھے نکما بے بس لاچار انسان سمجھتے تھے وہ لوگ بھی دوسروں کو اس کی مثال دیں ،  کچھ سہولتیں حکومت نہیں دیتی لیکن بہت ساری سہولتیں والدین نہیں دیتے اپنے بچوں کی ڈھال بنیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکی شہر لاس اینجلس میں ہونے والے اسپیشل اولمپکس گیمز میں پاکستان کے لئے کانسی کا تمغہ جیتنے والی گیارہ سالہ نایاب بی بی بھی سپیشل پرسن تھی ۔ ایسے ہی لاہور کے نوجوان محمد عظیم نے اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا بلکہ اپنی طاقت بنایا اور جمناسٹک شروع کی، محمد عظیم نے بہت سارے نارمل لوگوں کے سامنے خود کو منوایا ۔۔محمد افضل خان سمیت بہت سارے بچے آج اچھی تعلیم کے بعد اچھی خوشحال زندگی  گزار رہے ہیں ۔  اپنے بچوں کو اس ظالم دنیا میں اکیلا نہ چھوڑیں ۔آج آپ ان کو پال رہے ہیں، کبھی سوچا کہ کل ان کے ساتھ کیا ہو گا ان کا کل سنوارنے میں ان کی مدد کریں ، یہ مشکل  ضرور ہے  لیکن   ناممکن نہیں  اور والدین تو اولاد کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔لوگوں کی باتوں کو نظرانداز کر کے  آگے بڑھیے ۔یقین جانیے آپ کا سپیشل بچہ بھی ایک دن آپکا سہارہ بن سکتا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply