• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آنرایبل استاد سڑکوں پر۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

آنرایبل استاد سڑکوں پر۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

آنرایبل استاد سڑکوں پر۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد/دنیا میں اگرکسی شعبہ کو سب سے عظیم کہا جاتا ہے تو وہ استاد کا ہے ۔ استاد کا احترام ہر کسی پر لازم ہے ۔ جتنا کوئی معاشرہ مہذب ہے اتنا ہی اس کے دل میں استاد کا احترام ہوتا ہے ۔ کیونکہ معاشرے کی ترقی میں سب سے زیادہ کردار استاد کا ہوتا ہے ۔ استاد کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے ۔ جو کتاب اور استاد کی عزت نہیں کرتا وہ کبھی بھی دنیا میں عزت نہیں پا سکتا ۔ آج صدر پاکستان سے لے کر ایک چھوٹے سے چھوٹے حکومتی اہلکار کا یہ مقام استاد کی محنت سے ہے ۔

پاکستان میں یہ قانون ہے کہ استاد کے نام کے ساتھ   جب بھی اس کو لکھا یا پکارا جائے تو آنرایبل کا لفظ استعمال کیا جائے ۔آپ اس بات کا اندازہ لگا لیجیے  کہ “آنر ایبل” لفظ یا تو ججز کے ساتھ لکھا جاتا ہے یا پھر استاد کے ساتھ ۔ ججز بھی استاد کی راہنمائی سے ہی اس عہدے پر پہنچتے ہیں ۔

ایک دفعہ پروفیسر اشفاق احمد مرحوم،(اللہ ان کے درجات بلند فرمائے) نے بات سنائی کہ وہ اٹلی میں تھے تو ان سے ٹریفک قوانین  کی خلاف ورزی ہوگئی اور انہوں نے اس کو نظر انداز کردیا ، تو ایک دن ان کو کورٹ کی طرف سے نوٹس آجاتا ہے کہ فلاں دن آپ نے ٹریفک کے قوانین  کی خلاف ورزی کی تھی تو آپ کے ذمہ کچھ جرمانہ ہے جو آپ نے جمع نہیں کروایا ۔ لہذا فلاں  دن کو کورٹ میں پیش ہوں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مقررہ تاریخ پر عدالت میں گیا ۔ میں جج کے سامنے کھڑا تھا اور جج صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟ پرو فیسر اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ میں نے جواب دیا ” ٹیچر ” ۔ کہتے ہیں جیسے ہی میری آواز جج کے کانوں میں پڑی تو وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور بلند آواز میں کہنے لگا ” ٹیچر ان کورٹ ، ٹیچر ان کورٹ ” وہ آگے بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہاں کورٹ کے سب اہلکار اکٹھے ہوگئے ، میرے لئے جج صاحب نے کرسی منگوائی اور مجھے اپنے ساتھ بٹھایا ۔ اورمیرے ساتھ بہت ہی احترام کے ساتھ پیش آئے ۔ چونکہ ان معاشروں میں استاد کا احترام سب سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے تو اچھنبے کی بات تھی کہ اتنی معزز ہستی عدالت میں کیسے پہنچ گئی اور اس سے قانون کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی ۔

حالیہ دنوں حکومت نیا آرڈیننس لائی ہے جس کی رو سے فیڈرل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکنڈری سطح تک کے سکولوں کا انتظام و انصرام کا اختیار منسٹری آف ایجوکیشن سے لے کر لوکل گورنمنٹ کو دے دیا گیا ہے ۔ یوں سمجھ لیجیے  کہ اب وہ انتظامی طور پر مقامی حکومتوں کے ماتحت آگئے ہیں ۔ جس پر اساتذہ کو تحفظات ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے ان کا سول سرونٹ کا مرتبہ ختم ہوجائے گا ۔ اس طرح ان کے کچھ مفادات بھی متاثر ہو جائیں گے ۔ اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آرڈیننس واپس لے ورنہ وہ احتجاج کریں گے اور پارلیمنٹ کی طرف مارچ کریں گے اور اگر پھر بھی ہمارا مطالبہ نہ مانا گیا تو ہم وہاں دھرنا دینگے ۔ اسلام آباد کے اساتذہ نے تدریسی عمل کا مکمل بائیکاٹ کر دیا ہے ۔ اسکولوں میں پڑھائی روک دی گئی ہے ۔ انہوں نے دو دسمبر کو وزیراعظم ہاؤس کے سامنے دھرنہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشن جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ دھرنا آرڈیننس واپس لئے جانے تک جاری رہے گا ۔

یقیناً ہماری گورنمنٹ کے نزدیک بھی استاد کا احترام ہوگا اور وہ استاد کو احترام دینا بھی چاہتے ہونگے ۔ حکومت کا یہ عمل بھی کسی حکمتِ  عملی کے تحت ہی ہوگا مگر ان کو چاہیے تھا کہ پہلے اساتذہ کے ادارے کے سربراہان سے معاملہ ڈسکس کرتے ، ان کو اعتماد میں لیتے کہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا اور ان کی رضامندی سے جو بھی تبدیلی لانی تھی لائی جاتی ۔ استاد کا شعبہ تو بہت ہی معزز ہے ان کو اطلاع دیے  بغیر یا ان کی رائے لئے بغیر اس طرح کا آرڈیننس نہ لاتے اور اگر لے ہی آئے ہیں تو اب ان سے مذاکرات کرنے چاہئیں ان کے تحفظات دور کرنے چاہئیں اور اگر مان جائیں تو بہتر ورنہ آرڈیننس واپس لےلیا جائے ۔

معاشرے کے معماروں معزز اساتذہ کا سڑکوں پر آجانا نہ صرف اساتذہ اور ان کے خاندانوں کے لئے پریشانی کا سبب ہے بلکہ اس سے اسلام آباد کے بچوں کا بھی نقصان ہوگا ۔ پہلے ہی دو سالوں سے کرونا کی وجہ سے تدریسی عمل بری طرح سے متاثر تھا اور بچوں کا بہت ہی زیادہ تعلیمی نقصان ہوچکا ہے ۔ اب سکول کھلے ہیں تو اساتذہ کا مسئلہ بن گیا ہے ۔ سکولوں میں بچوں کے امتحان ہورہے تھے جو رک گئے ہیں اور اسی طرح فیڈرل بورڈ کے امتحان بھی رک جائیں گے کیونکہ اساتذہ ہی امتحانات کی نگرانی کرتے ہیں اور بچوں کا بہت ہی نقصان ہوگا ۔ بچوں کے ساتھ ان کے والدین اس سے بھی زیادہ پریشان ہونگے ۔

اساتذہ کی پہلے ہی تمام دوسرے محکموں سے تنخواہیں کم ہیں اور پچھلا سال تنخواہیں بڑھی ہی نہیں ۔ اس سال بڑھی تھیں مگر مہنگائی دو سو فیصد کے لگ بھگ بڑھ چکی ہے ۔ اس طرح سے اگر حساب لگایا جائے تو اساتذہ اور دوسرے ملازمین  کی جب تنخواہیں اس نسبت سے نہیں بڑھیں تو یوں سمجھ لیجیے  کہ ان کی تنخواہیں چوتھا حصہ بھی نہیں رہیں ۔ تنخواہیں بڑھنے کی بجائے کم ہوگئیں، افادیت میں چوتھا حصہ رہ گئی ہیں ۔ اوپر سے اساتذہ کو ایک نئی پریشانی میں مبتلاء کردیا ہے جو قطعاً بھی درست نہیں ہے ۔

اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور اپنے رتبے کا خیال رکھتے ہوئے انتہائی امن کے ساتھ احتجاج کریں اور تمام تر مسائل اور تکلیفوں کے باوجود بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں کہ وہ استاد کے عہدے اور رتبے کے شایان شان نہ ہو ۔ ان کو حکومت سے مذاکرات کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے ان کے ساتھ مذاکرات کریں اور ان کے تحفظات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کریں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت اگر آرڈیننس واپس بھی لے لے تو کوئی حرج نہیں اور بعد میں اگر تبدیلی ناگزیر بھی ہو تو اساتذہ کے جملہ حقوق کو محفوظ رکھتے ہوئے ، ان کو اعتماد میں لا کر تبدیلی عمل میں لائی جاسکتی ہے ۔ اور اگر اساتذہ اس طرح سڑکوں پر رہے تو نہ صرف ان کی توہین ہے بلکہ پوری قوم کی توہین ہے اورناقابل تلافی تدریسی نقصان کا بھی احتمال ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply