• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران سعودیہ تعلقات، ہو کیا رہا ہے؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ایران سعودیہ تعلقات، ہو کیا رہا ہے؟۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

سعودی عرب اور ایران مسلم دنیا کے دو اہم ترین اور طاقتور ممالک ہیں۔ دنیا نے انہیں سنی اور شیعہ اسلام کے نام پر تقسیم کرکے عالم اسلام کی طاقت کو تقسیم کر رکھا ہے۔ سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک کو اس قدر خوفزدہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کی زبان بولنے لگے۔ کچھ تماشہ فرقہ پرستوں نے بھی لگایا اور ماضی کے واقعات کی بنیاد پر سعودیہ ایران تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی، جو ہنوز بھی اسلام کا حکم سمجھ کی جا رہی ہے۔ یعنی امت کو توڑنے کو ایک اہم اسلامی حکم سمجھ کر اور خدمت دین سمجھ کر انجام دیا جا رہا ہے۔ تاریخی طور پر عرب و عجم کی تقسیم کو لے کر قوم پرستوں نے بھی ادھم مچا رکھا ہے اور اسلام کی بجائے عربی و عجمی عینک سے مسائل کو دیکھتے ہیں، جس کا نتیجہ مخالفت برائے مخالفت کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ سعودی عرب اور ایران کے باہمی تعلقات خطے اور عالم اسلام کے مفاد میں ہیں اور ان کا بٹے رہنا عالم اسلام کی طاقت توڑ رہا ہے۔

مغرب اور اس کے سرپرست امریکہ نے بڑی مکاری سے عربوں کو ایران کے خلاف بھڑکا کر دشمنی پیدا کی اور اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ آپ دیکھیں، اسی خوف کے نتیجہ میں یورپ اور امریکہ نے اربوں ڈالر کا اسلحہ عربوں کو بیچا ہے اور ٹرمپ نے تو علی الاعلان کہا تھا کہ ہم سعودی عرب سے اربوں ڈالر لے رہے ہیں۔ خیر ٹرمپ صاحب کی بات ہی الگ ہے، شام کے کچھ علاقوں سے اپنے سپاہی واپس بلا لیے اور تیل والے علاقوں کو اپنے قبضے میں ہی رکھا اور میڈیا کے سامنے کہا کہ وہاں تیل ہے، اس لیے ہم وہاں ہیں، یعنی ایک چوری اور دوسری سینہ زوری بھی۔ ہماری سادگی سے بڑھ کر حماقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اسی امریکہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ ایک بات جو عام آدمی کو بھی سمجھ میں آتی ہے کہ امریکہ تنازع سے فائدہ اٹھانے والا ملک ہے، یعنی اس نے سعودی یمن جنگ اور دیگر تنازعات میں کھربوں ڈالر کا اسلحہ بیچا ہے۔ اب امریکہ اتنا اچھا تو نہیں ہے کہ امن کی محبت میں خطے میں جنگ کے جلتے شعلوں کو خاموش کرا دے۔ امریکہ تو چاہتا ہے کہ مسلمان کا سرمایہ اس کو ملے اور اس کے دیئے گئے اسلحہ سے مسلمان لڑتے رہیں، ان کی کل ملا کے یہی پالیسی ہے۔

سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک کا ایران کے ساتھ معاندانہ رویہ رہا اور انہوں نے امت کے مسائل سے توجہ ہٹا کر باہمی مفادات کو ترجیح دی۔ اسی رویئے کے خلاف ملائیشیاء کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے او آئی سی کی جگہ ایک نئے مسلم اتحاد کی بات کی تھی، جو قرار دادوں اور مذمتوں کے علاوہ عملی اقدامات بھی کرے۔ اگرچہ اس کانفرنس کو سعودی عرب نے اپنے اثر و رسوخ کے لیے چیلنج سمجھا اور لالچ، دھمکی ہر طرح کا ذریعہ استعمال کرکے اسے کامیاب نہیں ہونے دیا اور اب تو خیر خود مہاتیر ہی نہ رہے بلکہ جو عزت انہوں نے ملائیشیاء کو ترقی دے کر کمائی تھی، دوبارہ سیاست میں آنے سے وہ بھی سیاہ ہوگئی ہے۔ فلسطین، کشمیر، روہنگیا اور مسلم ممالک پر قبضے اور مسلم وسائل کی لوٹ کھسوٹ امت کے اہم مسائل تھے۔ اسی طرح تعلیم اور انسانی ترقی کے لیے وسائل کی فراہم ایک بڑا چیلنج تھا او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اس کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا تھا، مگر کچھ نہ کیا جا سکا۔

کچھ عرصہ پہلے یہ خوش کن خبریں سننے کو ملیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ مذاکرات کسی بھی طرح امریکہ اور اسرائیل کو قبول نہیں ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ عراقی وزیراعظم نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ؒان کی دعوت پر ایک امن مشن پر عراق آئے تھے اور یہ مشن یہی تھا کہ ایران اور سعودیہ کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جائے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی پر غور کیا جائے تو یہ امت مسلم کو جوڑنے اور ان کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے پر مبنی ہے اور جو ممالک اسرائیل کے قریب ہوگئے اور امت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، ایران ان کے خلاف ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ ہمارے ایران کے ساتھ 21 ستمبر کو مذاکرات ہوئے ہیں، یہ وہی تاریخ ہے، جس دن اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کیا تھا۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ یہ بات چیت ابھی تک ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دونوں فریقوں کے درمیان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک بنیاد فراہم کرے گی اور ہم اسے سود مند بنانے کی کوشش کریں گے۔ ان مذاکرات سے پہلے اگست میں بھی مذاکرات کے تین دور ہوچکے ہیں، لگ یوں رہا ہے کہ دونوں ممالک ہر قدم بڑا سوچ سمجھ کر رکھ رہے ہیں اور پائیدار انداز میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سعودی ولی عہد نے اپنے مشہور انٹرویو میں ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی بات کی تھی، جس کا ایران کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا تھا۔ ابھی عرب امارات کے صدر کے مشیر کا ایک بہت ہی اچھا بیان نظر آیا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر اب پالیسیوں پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کے مطابق خطے میں ایران اور ترکی کے ساتھ طویل عرصے سے جاری رقابتوں کو اب مذاکرات کے ذریعے سلجھانے کا وقت آ گیا ہے، تاکہ خطے میں کوئی اور نئی ٹکراؤ کی صورت پیدا ہونے سے بچا جا سکے۔ ان کی بات انتہائی اہم اور وقت کی آواز ہے، امریکہ اور روس کی جنگ مسلم سرزمینوں پر مسلمان کے قتل عام سے ہی لڑی گئی اور اب چین امریکہ سرد جنگ کا میدان بھی ہمارا خطہ اور مسلمان نہ بنیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ طاقتور مسلمان ممالک باہم مل جل کر آگے بڑھیں، اختلافات کو پس پشت ڈال کر مسلم دنیا کو متحد کریں اور مسلم طاقت کو مسلمانوں کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔ سعودیہ ایران تعلقات کی بہتری اس طرف پہلا قدم ثابت ہوسکتی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply