• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • زندگی کے 5 معاملات جو دوسروں کے ساتھ کبھی بانٹنے نہیں کرنے چاہئیں۔۔ غیور شاہ ترمذی

زندگی کے 5 معاملات جو دوسروں کے ساتھ کبھی بانٹنے نہیں کرنے چاہئیں۔۔ غیور شاہ ترمذی

اس دنیا میں کم و بیش 7 ارب 80 کروڑ انسان بستے ہیں۔ ہر انسان دوسرے سے کئی معاملات میں مختلف ہے۔ مثلاً ہمارے ہاتھوں کی لکیریں، آنکھوں کی پتلیاں بھی دوسروں سے الگ ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے ماں باپ کے جینز رکھنے والی اولاد بھی اپنےماں باپ سے مختلف شکل و صورت، مختلف لکیروں اور مختلف پتلیوں کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اسی لئے ہمیں دوسروں کا خود سے مختلف ہونا قبول کرنا چاہیے اور یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ہم سے الگ سوچ سکتے ہیں۔ جن چیزوں اور معاملات کو ہم ترجیح دیں تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ بھی انہیں اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ ہمارے رویے، ہماری فطرت اور ہمارا کردار ایک دوسرے سے الگ ہو سکتا ہے اور مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک ہی طریقہ سے ڈیل کریں۔ اسی طرح ہم ہر شخص سے اپنی ہر بات بھی شیئر نہیں کر سکتے۔ اور اگر ہم ایسا کریں گے تو یقیناً نقصان اٹھائیں گے۔ زیر نظر مضمون میں ہم 5 ایسے معاملات اور باتوں کا ذکر کریں گے کہ جنہیں دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے سے پہلے ہمیں اچھی طرح سوچنا چاہیے کہ کیا ایسا کرنا صحیح بھی ہے یا نہیں؟۔

اس دنیا میں لوگوں کی اکثریت اپنی پریشانیوں کا بوجھ اس طرح اٹھا کر پھر رہی ہوتی ہے کہ کوئی بھی ہمدردی دکھانے والا ملے تو وہ اسے اپنی پریشانیاں بتا سکیں۔ ویسے کسی حد تک یہ سچ بھی ہے کہ ہمیں اگر کوئی ایسا مل جائے کہ جس کے ساتھ اپنی مشکلات شیئر کر سکیں تو ایسا کرنے کے بعد ہمارے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ گئے وقت کے بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ خوشیاں شیئر کرنے سے بڑھتی ہیں اور غم، دکھ، پریشانیاں کسی ہمدرد سے شیئر کرنے سے گھٹتے ہیں۔ یہ مگر یاد رہے کہ پریشانیاں صرف اسی وقت ہی کم ہو سکتی ہیں یا دکھ تب ہی گھٹ سکتے ہیں جب ہم انہیں کسی ہمدرد سے شیئر کریں وگرنہ اس دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو ہماری پریشانیاں اور مسائل سن کر انہیں حل کرنے کا مخلصانہ مشورہ دینے اور ہماری مدد کرنے کی بجائے ہمارا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ہمارے مسائل اور مشکلات کو وہ سنتے اور جانتے ہی اس لئے ہیں کہ بعد میں دوسروں کے ساتھ مل کر ہمارا مذاق اڑا سکیں اور لوگوں کو بتا سکیں کہ ہم کس قدر تکلیف و اذیت میں مبتلا ہیں۔ یعنی ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے جیسی خصلت رکھتے ہیں۔ ہمارے حلقہ احباب میں 80٪ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہمارے مسائل سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ 20٪ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنی مشکلات اور مسائل کو ہر کسی کے ساتھ شئیر نہیں کرنا چاہئے ورنہ تماشا  بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

ہمیں اپنے خواب اور زندگی کے مقاصد بھی دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کرنے چاہئیں۔ اپنی زندگی کے طے کئے ہوئے ٹارگٹ اور مقاصد کو کم از کم تب تک ہمیں ہر ایک کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہیے  جب تک کہ ہمیں انہیں حاصل نہیں کر لیں۔ اگر ہم نے اپنی زندگی کا مقصد اوروں کو بتا دیا اور کسی وجہ سے اسے حاصل نہ کر سکے تو نہ صرف ہم ان لوگوں کے سامنے شرمندہ ہوں گے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دوسرے سب کو بتاتے رہیں کہ یہ نالائق شخص ہے، کرتا کراتا کچھ بھی نہیں اور ایویں ہی دوسروں کے سامنے شیخیاں مارتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے اپنی زندگی کا مقصد یہ طے کیا ہو کہ ڈاکٹر بن کر اپنے ماں باپ اور خاندان کا نام روشن کریں گے۔ پھر ایف ایس سی میں اچھے نمبر لے کر کامیاب ہو جائیں مگر شومئی قسمت کہ پاکستان میڈیکل کونسل (پی ایم سی) کی طرف سے گزشتہ کئی سالوں کے برعکس پہلی دفعہ میڈیکل ایڈمیشن ٹیسٹ سنہ 2021ء میں خود منعقد کروانے کے فیصلہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں اور حماقتوں کہ وجہ سے اچھے نمبر نہ لے سکیں تو ہمارا ڈاکٹر بننے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف عام لوگوں نے یہ نہیں سمجھنا کہ میڈیکل ایڈمیشن ٹیسٹ میں کم نمبر لانے کی وجہ آپ کی سستی یا نالائقی نہیں تھی بلکہ پی ایم سی کی در فنطنی تھی۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ سب لوگ پی ایم سی کی حماقت کو بھول کر ہمیں تختہ مشق بنا لیں گے اور ہر ایک سے کہتے پھریں گے کہ ہمارے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ ہم میڈیکل ایڈمیشن ٹیسٹ میں مطلوبہ نمبر لا سکتے۔ سائینس نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اگر اپنی زندگی کے ٹارگٹ و مقاصد دوسروں سے شئیر کر لیں اور ان سے اس حوالہ سے ملنے والی وقتی دادو تحسین وصول کر لیں تو ہمارے اندر ان ٹارگٹس و مقاصد کو حاصل کرنے کی urge یعنی تڑپ کم ہو جاتی ہے۔ ہم دل لگا کر اس ٹارگٹ کے حصول کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی جو داد و تحسین ہمیں اسے حاصل کرنے پر ملنی تھی وہ تو ہم پہلے ہی وصول کر چکے تھے۔

تیسرا وہ معاملہ جو ہمیں دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہیے وہ ایسا قابل عمل “منفرد آئیڈیا” ہے جس سے ہمیں بزنس، زندگی، کھیل، سیاست یا کسی دوسرے میدان میں شاندار کامیابی مل سکتی ہو۔ اپنے اس قابل عمل اور قابل حصول منفرد آئیڈیا کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کے بعد ہمارے پاس کوئی گارنٹی باقی نہیں رہے گی کہ ہمارے ساتھ مسابقت رکھنے والے اس آئیڈیا سے بہتر کوئی اور آئیڈیا نہ تیار کر لیں یا ہمارے اس آئیڈیا کے مقابلہ میں اپنی دفاعی حکمت عملی نہ ترتیب دے لیں۔ بالفرض ہم اپنے اس قابل عمل آئیڈیا پر عمل کر کے کامیابی حاصل کر بھی لیتے ہیں تو بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ جو آئیڈیا ہمارے لئے قابل عمل اور قابل حصول تھا، وہ دوسروں کے لئے بھی ویسے ہی قابل عمل اور قابل حصول ہو۔ لوگ ہماری کامیابی سے متاثر ہو کر ہمارے آئیڈیا پر عمل کریں لیکن اپنے پاس ویسے حالات اور ماحول نہ ہونے کی وجہ سے اگر ناکام ہو جائیں گے تو اس ناکامی کا الزام بھی ہمیں یہ کہہ کر دیں گے کہ ہم نے انہیں اپنی کامیابی کا اصل راز بتایا ہی نہیں تھا۔ یا ہم نے انہیں صحیح طرح گائیڈ ہی نہیں کیا۔ اسی لئے ہمیں اپنی کامیابی کا راز بھی دوسروں کے ساتھ اس لئے شیئر نہیں کرنا چاہیے کہ ہر کسی کے حالات اور معاملات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ جسے کامیابی کی تلاش ہوتی ہے اور وہ محنت و ایمانداری کے ساتھ کام کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے تو کامیابی ا نہیں خود ڈھونڈ لیتی ہے۔

ایک اور معاملہ جو ہمیں دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہئے وہ ہمارے ماضی کی غلطیاں اور ہمارے پچھتاوے ہیں۔ یاد رہے کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، ہر کوئی غلطیوں سے سیکھتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر میچور ہوتے جاتے ہیں۔ اکثر ہم اپنے ماضی کے کسی واقعہ کو یاد کر کے حیران ہوتے ہیں کہ “میں کبھی اتنا immature بھی تھا”۔ اسی طرح ماضی کی کئی باتوں پر ہمیں پچھتاوا بھی ضرور ہوتا ہو گا کہ کاش میں نے ایسے نہ کیا ہوتا تو نقصان نہ اٹھاتا یا ایسا کر لیا ہوتا تو اب حالات بہت اچھے ہوتے۔ ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ماضی کے ساتھ ہی جڑے رہتے ہیں اور ماضی سے باہر نہیں نکل پاتے۔ اپنی غلطیوں کو یاد کر کے ان پر پچھتاتے رہتے ہیں۔ اپنے اردگرد کے لوگوں اور دوستوں کے ساتھ انہیں ڈسکس کر تے رہتے ہیں۔ یہ درست طرز عمل نہیں ہے۔ اگر ہماری ماضی کی کچھ غلطیوں کے بارے میں لوگوں کو علم نہیں ہے تو اس راز کو راز ہی رہنے دینا چاہیے۔ لوگوں کے سامنے اپنی شخصیت کی کمزوریوں کو بیان نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف دوسروں کے سامنے ہمارا تاثر خراب ہو گا بلکہ ان میں سے کئی لوگ ہماری کمزوریوں کا فائدہ بھی اٹھائیں گے اور ہمارا تماشا  بھی بنائیں گے۔

وہ آخری بات جو ہمیں ہر ایک کے ساتھ شیئر نہیں کرنی چاہیے وہ ہماری کامیابیاں، نیک اعمال اور اچھائیاں ہیں۔ ہماری نیکیوں، اچھائیوں اور کامیابیوں کا ایک نہ ایک دن لوگوں کو پتہ چل ہی جائے گا، اس لئے خود سے ان کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ یاد رکھیں کہ اچھائی کی روشنی کو کوئی زیادہ دیر تک نہیں روک سکتا۔ اپنی کی ہوئی اچھائی کی خود مشہوری کرنے یا دوسرو ں کے پاس جا کر اس کا ذکر کرنے سے ہم کبھی اچھا نہیں سمجھے جائیں گے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کی اکثریت ہمیں جھوٹا سمجھے یا شیخی خور ماننا شروع کر دے۔ ہمیں چاہیے کہ بغیر کسی نام و نمود کے اچھے کام کرتے رہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ سارا زمانہ ہماری اچھائی کی خود گواہی دے گا۔ عبدالستار ایدھی، چھیپا، انصار برنی، اخوت فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان جیسے کئی لوگوں نے اپنی اچھائیوں اور نیک کام کا پراپیگنڈہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ اچھے کام کرتے رہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ خود ہی ان کے ساتھ جڑتے رہے اور ان کی مشہوری ہوتی رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہر روز ہمیں کچھ نیا سوچنا چاہیے، نیا سوچنا چاہئے، نیا کرنا چاہئے۔ سیکھنے، محنت کرنے اور ایمانداری کے ساتھ اپنے کام سے منسلک رہنے سے ہی کامیابی ہمارا مقدر بنے گی۔ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ مسلسل محنت، لگن اور ایمانداری ہی وہ واحد راستہ ہیں جن سے ہمیں کامیابی مل سکتی ہے سکون اور بغیر کسی خطرہ کو اٹھائے ہوئے۔ یہ زندگی سکون سے گزارنے اور خوشیوں کو منانے کے لئے صرف ایک دفعہ ہی حاصل ہوئی ہے۔ اسے ایمانداری اور محنت سے گزار کر ہی پرسکون کامیابی کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply