تیلنگانہ۔۔ہمایوں احتشام

تیلنگانہ بھارت کے جنوب میں واقع سطح مرتفع دکن کے علاقوں پر مشتمل ایک ساحل سمندر سے محروم ریاست ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بھارت کی گیارہویں اور آبادی کے لحاظ سے بارہویں بڑی ریاست ہے۔ ریاست کے شمال مشرق میں چھتیس گڑھ، مغرب میں کرناٹک، شمال میں مہاراشٹرا، مشرق اور جنوب میں آندھراپردیش کی ریاستیں ہیں۔ پہلے تیلنگانہ آندھراپردیش کا حصہ تھی، مگر 2014 میں یہ بطور الگ ریاست معرض وجود میں آئی۔ ریاست کل 33 اضلاع پر مشتمل ہے۔ ریاست کی سرکاری زبان تلیگو اور اردو ہیں۔ تیلنگانہ کی راجیہ سبھا میں سات اور لوک سبھا میں سترہ نشستیں مختص ہیں۔

تیلنگانہ نام کے ماخذ مختلف الفاظ کو کہا جاتا ہے۔ جیسے کچھ لسانیات دان اس کو تری لنگا دیس سے جوڑتے ہیں، کیونکہ بھگوان شیوا کے تین مینار اس خطے میں واقع ہیں۔ ایک دوسرے لسانیات دان اس کا ماخذ گونڈی زبان کے لفظ تلنگ گڑھ کو قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب ہے، جنوب۔

تلینگانہ کا خطہ تاریخی طور پر مختلف شاہی خاندانوں کے زیر قبضہ رہا ہے۔ موریہ خاندان سے آغاز ہوکر ستاواہنا خاندان اس خطے پر قابض رہا۔ پھر واکاٹاکا خاندان اور وشنو کونڈینا خاندان سے ہوتے ہوئے کاکٹیا خاندان ریاست میں اقتدار میں آیا۔ یہ ریاست کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اس سلطنت کا خاتمہ ملک کافور کے حملوں نے کیا اور تغلق خاندان نے تیلنگانہ پر قبضہ کرلیا۔

دہلی سلطنت کے بعد اس خطے پر باہمنی خاندان نے قبضہ کرلیا۔ باہمنی سلطنت کے گولکنڈہ کے گورنر قلی قطب شاہ نے بغاوت کرکے اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرلیا اور قطب شاہی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ 1680 کے آخری عشرے میں اورنگزیب نے گولکنڈہ حکومت کو شکست دے کر اس خطے کو مغلیہ سلطنت میں شامل کرلیا۔

1712 میں فرخ سیار نے قمر الدین خان کو نظام الملک کا خطاب دے کر دکن کا گورنر بنایا۔ مگر بعد میں ان کو ہٹا لیا گیا اور مبارز خان کو گورنر برائے دکن لگایا گیا۔ مبارز خان کو قمر الدین خان نے شکست دے کر دکن صوبے کا قبضہ حاصل کرلیا۔ قمر الدین خان نے آصف جاہ کا خطاب لے کر آصف جاہی خاندان کی حکومت کا اعلان کیا۔ تاہم بعد میں آنے والے جانشینوں نے بادشاہ کی بجائے نظام کا خطاب اختیار کیا اور یہ تمام آصف جاہی نظام کہلائے۔

1769 میں حیدر آباد کو دارالحکومت بنایا گیا۔ 1799 میں نصر الدولہ، آصف جاہ چہارم نے کمپنی بہادر کے ساتھ اتحاد بنایا اور پھر خارجی امور اور دفاع کمپنی بہادر کے زیر تحت چلے گئے۔ حیدر آباد دیسی شاہی باجگزار ریاست بن گئی۔

پورے برطانوی راج کے دران حیدر آباد دکن بطور باجگزار ریاست کے طور پر اپنا وجود رکھے رہی، مگر تقسیم کے بعد بھارت کی جانب سے نظام حیدرآباد پر الحاق کا زور بڑھا دیا گیا۔ نظام بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کرنا چاہتے تھے۔ پس ستمبر 1948 میں بھارت نے آپریشن پولو کے زریعے ریاست حیدرآباد دکن پر قبضہ کرلیا۔

اس سے پیشتر تیلنگانہ بغاوت بھی شروع ہوئی، جو شروع میں تو جاگیرداروں اور پٹے داروں کے خلاف تھی، مگر بعد میں اس کا رخ نظام حیدر آباد میر عثمان علی خان کی حکومت کے خاتمے کی طرف موڑ دیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اس بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ آپریشن پولو کے بعد یہ بغاوت ختم ہوگئی۔ تاہم جاگیرداری نظام میں چنداں تبدیلی نہیں آئی۔

تیلنگانہ ریاست کے لئے جدوجہد کی جڑیں 1955 سے ملتی ہیں۔ جب ریاستوں کی تنظیم نو کے کمیشن نے تیلنگانہ (حیدرآباد دکن ریاست) کے علاقوں کو آندھراپردیش ریاست میں ضم کرنے کی سفارش کی۔ اس کمیشن کی سفارشات پر مدراس کو آندھراپردیش سے الگ کردیا گیا، جبکہ تیلنگانہ کے علاقوں کو تلیگو بولنے والے آندھراپردیش میں ضم کردیا گیا۔ جس پر تیلنگانہ کے رہنماوں نے موقف رکھا کہ “آندھراپردیش کے لوگوں نے تیلنگانہ کو اپنی نوآبادی بنایا ہے۔ کیونکہ اسی طرح وہ مقامیوں کی زمین اور ملازمتوں پر قابض ہوں گے۔ وہ تیلنگانہ کا انفراسٹرکچر پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں۔”

1969 میں بھارت کو ایک متشدد تحریک کا سامنا کرنا پڑا، جس کا مقصد الگ تیلنگانہ کا قیام تھا۔ پھر 1972 میں الگ آندھرا کی تحریک سامنے آئی۔ 1969 کی الگ تیلنگانہ تحریک کے محرک طلبا، سول سوسائٹی اور سرکاری ملازمین تھے، جنھوں نے اندرا گاندھی کے سامنے چھ نقاطی ایجنڈا پیش کیا۔ جس میں مطالبہ کیا گیا کہ تیلنگانہ کے پسماندہ علاقوں کی ترقی پر کام کیا جائے اور تیلنگانہ کے مقامی باشندوں کو نوکریاں دی جائیں۔ کیونکہ ان کی نوکریوں پر آندھراپردیش کے لوگوں کا قبضہ ہے۔ اس کے بعد مقامیوں کا کوٹہ مختص کیا گیا۔

1997 میں تیلنگانہ کا مسئلہ اس وقت سیاسی شکل اختیار کرگیا، جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس کے قیام کی حمایت کردی۔ بی جے پی یہ انتخاب جیت گئی۔ مگر تیلنگانہ کے قیام کے لئے چنداں کوششیں نہیں کی گئیں۔ 2001 میں تلینگانہ راشٹریا سمیتی کا قیام عمل میں آیا، جس نے تیلنگانہ کے قیام کے مسئلے کی شدت کو بڑھا دیا۔ دوسری جانب چھتیس گڑھ، جھاڑ کھنڈ اور اتراکھنڈ کی ریاستوں کی تشکیل نے تیلنگانہ کی جدوجہد کو پھر سے جوان کردیا۔

2004 میں تیلنگانہ راشٹریا سمیتی نے انتخاب لڑا اور بھاری اکثریت سے راجیہ سبھا کی پانچ اور لوک سبھا کی 26 نشستیں جیت لیں۔
کریم نگر ہمیشہ سے الگ تیلنگانہ کی جدوجہد کے لئے اول نمبر پر رہا۔ 1969 کی متشدد تحریک کا آغاز بھی ادھر سے ہی ہوا۔ پھر ٹی آر ایس کو تمام انتخابات میں اسی ضلع سے بھاری اکثریت میں کامیابی ملی۔ کریم نگر نے 2009 میں اس وقت الگ تیلنگانہ جدوجہد کی تحریک کو جنم دیا جب تیلنگانہ راشٹریا سمیتی کے قائد چندرشیکھرراؤ نے تیلنگانہ کے قیام کے لئے موت تک کے لئے بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند پورے تیلنگانہ میں پھیل گئی۔ کریم نگر میں متعدد طلبا نے خود پر پیٹرول ڈال کر احتجاجاً خودکشی کرلی۔

مرکزی حکومت نے دسمبر 2009 میں تیلنگانہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ مگر حکومت پندرہ دن بعد اس بات سے مکر گئی۔ اس پر عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے سترہ طلبا نے موت تک بھوک ہڑتال کا احتجاج شروع کردیا۔

3 فروری 2010 کو جسٹس شری کرشنا کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ کمیشن نے سینکڑوں دیہاتوں اور تمام بڑے شہروں میں سروے کرکے ایک جامع رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ کو پی چدم برم نے لوک سبھا میں پڑھا۔ اس رپورٹ کے مطابق متحدہ آندھراپردیش تینوں خطوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سب اہم آپشن ہے۔ اسی طرح قومی سطح پر ان خطوں کی نمائندگی ممکن ہے۔ یہ آندھراپردیش کے لوگوں کے لئے بہترین ہے کہ وہ متحد رہیں۔

دسمبر 2013 میں کانگریس کی یونین کابینہ نے تیلنگانہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ جس میں دس اضلاع شامل ہوں گے۔ کابینہ نے وزرا کی تشکیل دی گئی کمیٹی کی تنازعات کے حل سے متعلق دی گئی، زیادہ تر سفارشات کو پاس کرلیا۔
اسی دران عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد طلبا کے احتجاجوں کا مرکزی بنی ہوئی تھی۔ طلبا اپنے قائدین کے ساتھ متشدد احتجاج شروع کررہے تھے۔

لیکن مرکزی حکومت نے حاضر دماغی سے کام کرتے ہوئے آندھراپردیش تنظیم نو بل میں ترمیم کردی۔ جس کے بنیادی کچھ یوں تھے،
حیدرآباد دونوں ریاستوں کا دارالحکومت ہوگا۔
آندھراپردیش کا گورنر دونوں ریاستوں کا گورنر ہوگا۔
ایک کمیٹی 45 دنوں میں آندھراپردیش کے نئے دارالحکومت کی نشاندہی کرے گی۔
مرکزی حکومت ایک کاونسل تشکیل دے گی جو گرودواری اور کرشنا دریا کے پانی کی تقسیم کا فارمولہ وضع کرے گی۔
لوک سبھا کی 25 نشستیں آندھراپردیش جبکہ 17 تیلنگانہ کے لئے مختص کی گئیں۔
ریاستی اسمبلی کی 175 نشستیں آندھراپردیش کی ہوں گی جبکہ 119 تیلنگانہ کے لئے مختص ہوں گی۔
نوکریوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کا کوٹہ دس سال تک کے لئے پرانا ہی چلے گا۔
پولاوارم ہائیڈرو پراجیکٹ کو مرکزی حکومت کی ملکیت قرار دیا گیا۔
حیدرآباد ہائیکورٹ دونوں ریاستوں کے لئے یکساں ہوگی۔ تاہم آندھراپردیش کو نئی ہائیکورٹ تشکیل دینا ہوگی۔
تمام معاشی مسائل اور تنازعات کو باہم مل بیٹھ کر حل کرنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گرے ہاونڈ اور آکٹوپس فورسز کو ملازمین کی رائے کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔ اگر ایک سپاہی تیلنگانہ کا ہے تو وہ تیلنگانہ گرے ہاونڈ فورس کا حصہ بنے گا۔
ریاست تلنگانہ کا پہلا انتخاب تیلنگانہ راشٹریا سمیتی نے جیتا اور چندرشیکھرراؤ، جو تیلنگانہ کے مصور بھی ہیں، ریاست کے پہلے وزیر اعلی منتخب ہوئے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply