بازار حسن کی دوشیزائیں

بازار حسن کی دوشیزائیں
عمیربٹ پاکدامن
بازار حسن کی دوشیزاؤں کو پامال تو یہ معاشرہ کر لیتا ہے۔ لیکن ان کے ذکر کو قبیح جرم سمجھتا ہے۔ کوئی بھی ان لوگوں کا ذکر کرنے والوں کو پلیٹ فارم نہیں دیتا۔ ان کے حق میں بولنے والے کو انھیں کے دھندے سے منسلک ہونے کا طعنہ دے دیا جاتا ہے۔ بازار حسن کے اندر صنف نازک بکتی ہے اور خدا کی طرف سے قوام بنایا جانے والا یہ مرد اسے خریدتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں ہمارے ملک کے ہر شہر میں اس دھندے والے ایک جگہ پر نہیں ،بلکہ جگہ جگہ اپنے اڈے بنائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور اس مکروہ فعل کو نہ روکا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کا سدباب کیا جا رہا ہے۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دور کے پہلے تک لاہور کی عوام صرف ایک جگہ پر ہی منہ کالا کرنے جاتی تھی۔لیکن ان پر پابندی لگا دی گئی اور ان کا کوئی باقاعدہ حل نہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں یہ دھندہ پورے لاہور میں مختلف جگہوں سے ایسا شروع ہوا کہ اب یہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
شہر کے پوش حصوں میں عورتیں اپنے اس دھندے کو اس قدر مضبوط کر چکی ہیں کہ پولیس بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ اس کے علاوہ لاری اڈوں میں یہ لوگ کثیر تعداد میں پائے جاتےہیں ۔ یہ باتیں کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں،ہمارے معاشرے کا ہر فرد اس ممنوع دھندے سے واقف ہے۔ اس دھندے میں ملوث ہونے والیوں کی زیادہ عمر اکیس سے پچیس سال کی ہے اور اس کے بعد چھبیس سے تیس سال کی ہیں،اس کے علاوہ اکثریت شادی شدہ عورتوں کی ہے۔ ہم صحیح معنوں میں اس خداد ملک کے شہری تب ہوں گے جب بازار میں بکنے والی صنف نازک کو اس قبیح فعل سے کنارہ کش کروا دیں۔اس فعل سے کنارہ کشی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم ان معالات کو سلجھائیں جن کی وجہ سے وہ یہ فعل کرنے پر مجبور ہوئیں۔
قحبہ خانہ کے باسیوں سے معلوم کیا جاۓ کہ وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے وہ یہ پیشہ کرنے پر مجبور ہوئیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔ یہ عورتیں جو کسی کے گھر کی عزت تھیں اور آج ان کی عزت ہر شہر کے مختلف حصوں میں نیلام ہو رہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ جب ان لوگوں کے گھروں میں کھانے کو کچھ نہیں ہو گا، اور صاحب استطاعت طبقہ ایسے لوگوں سے بیگانہ رہے گا۔ بے روزگاری عروج پر ہو گی تو اس صورت میں یہ پیشہ ان کو کم وقت اور کم محنت میں گھر کا نظام چلانے لے لئے اسباب فراہم کر دے گا۔ کچھ عورتیں مردوں میں باعزت طریقے سے محنت مزدوری کر رہی ہوتی ہیں لیکن وہیں پر موجود ہمارا مرد طبقہ ایسی مجبور عورتوں کو اس بات پر قائل کرنے پر تلا ہوتا ہے کہ ہماری جنسی خواہشات کو پورا کردو تو اس مزدوری کا تین گنا کما سکتی ہو۔ جس کے بدلے میں بعض عورتیں اس باعزت کمائی پر اس غیر اخلاقی دھندے کو فوقیت دے دیتی ہیں۔
ہمارے میڈیا پر اکثر اجتماعی زیادتی کی خبریں بھی گردش میں آتی ہیں۔ دیکھنے میں آتا ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہوتی ہے اس کا اس معاشرے میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ رشتہ دار تعلق داری ختم کر دیتے ہیں۔ محلہ دار بولنا ترک کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ مسلسل تنگ کرنے کا باعث بنتے ہیں، اور کئی کیسز میں تو لڑکی کی فیملی بھی لڑکی کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے تا کہ ان کا خاندان سماج میں اپنا مقام برقرار رکھ سکے۔ جس کے نتیجے میں لڑکی کو مدد صرف قحبہ خانوں میں ملتی ہے جہاں وہ موت کے انتظار کے علاوہ لوگوں کی کمائی کا زریعہ بن رہی ہوتی ہے۔
کچھ لڑکیوں کی زندگی برباد ہونےکی وجہ ان کی محبت ہوتی ہے۔ وہ انجانے میں کسی ایسے شخص کو دل دے بیٹھتی ہیں جس کو اس سے کوئی شغف نہیں ہوتا۔ وہ صرف فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب مالی یا دوسرے حالات خراب ہونا شروع ہو جائیں تو لڑکا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ یہ لڑکی کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جب اس کا سہارا اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ اور گھر والے سماج کی وجہ سے اپنے گھر کی دہلیز اس کے لئے بند کر دیتے ہیں۔ ان حالات میں پھر کچھ لڑکیاں یہ غلط فیصلے کر بیٹھتی ہیں۔
بازار حسن میں ایک خاص تعداد شادی شدہ عورتوں کی بھی ہے۔ شادی شدہ عورتوں کا اس دھندے میں ملوث ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی کسی نشئ سے شادی ہے۔ نشے کا عادی شخص سب سے زیادہ محبت اپنے نشے سے کرتا ہے۔ لیکن جب متوسط یا کوئی غریب نشہ کا عادی ہو جاتا ہے تو اپنی اس عادت کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ نشئی اس اوقات تک پہنچ جاتے ہیں ، اپنی بیویوں کو کہہ دیتے ہیں کہ جاؤ دھندا کرو اگر آج ہمارے لئے پیسے نہ کما سکو تو گھر نہ آنا۔
صنف نازک کے اس سنگین دھندے کی وجوہات میں سے کچھ ہر وقت ان پر لعن طعن، سسرال کے جھگڑے،اغوا کر کے انھیں اس دھندے کے لیے مجبور کرنا ،لڑکیوں کا خود خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اسے اپنا لینا شامل ہے۔اس دھندے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایڈز، بے راہ روی اور اکثر بیماریوں میں دھنستا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے چور کو پکڑنے کے لیے پولیس کو بھی چور کی طرح سوچنا پڑتا ہے ۔ بالکل اسی طرح اس غیر اخلاقی دھندے میں ملوث ہو جانے والی دوشیزاؤں کو ان کے ملوث ہونے والی وجوہات کی بنا پر ہی اس سے نکالا جا سکتا ہے۔ سو ہماری عوام اور خاص کر کے ان سے منسلک لوگوں کو ان کے سدباب کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

عمیر ارشد بٹ
مرد قلندر،حق کا متلاشی، علاوہ ازیں سچ سوچنے اور بولنے کا عادی ہوں۔ حق بات کہتے ہوۓ ڈرنے کا قائل نہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”بازار حسن کی دوشیزائیں

Leave a Reply